1
Sunday 3 Jan 2021 18:21

مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا 

مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا 
تحریر: سویرا بتول

آج شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی پر یاد آتا ہے کہ صرف شہید قاسم سلیمانی ہی ایک ایسا شخص تھا، جو داعش کے عراق پر حملے کے تاریک لحظات میں، جو بغداد کے دروازوں پر داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک امید کا راستہ مہیا کرسکتا تھا۔ ان مشکل دنوں میں وہ عراق کا منجی تھا۔ عراقی کردستان کے وزیراعظم بارزانی نے کہا کہ عراق کے داعش پر حملے کے بعد میں نے امریکیوں، ترکوں، انگریزوں، فرانسیسیوں اور یہاں تک کہ عربوں سے رابطہ کیا۔ جس پر تمام عہدیداروں نے جواب دیا کہ وہ اس وقت مدد نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن میں نے فوراً ایرانی حکام کو فون کیا اور انہوں نے مجھے سردار کا نمبر دے دیا۔ میں نے انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ میں کل صبح اربیل میں ہوں گا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ شہید تمام مظلومین جہان کے ترجمان ہیں۔

امریکہ اور اسرائیل نے اسلام کی حقیقت کو چھپانے اور مسلم عقائد کو بدصورت بنانے کے لیے داعش دہشت گرد گروہ تشکیل دیا۔ سردار نے امریکہ کو اس کے ناپاک مقاصد اور منحوس عزائم تک پہنچنے نہیں دیا اور طاغوت کے سامنے آہنی دیوار کی طرح ڈٹ گئے۔ داعش اور جھبۃ النصرہ کے اقدامات اسلام کے عقائد کی عکاسی نہیں کرتے۔ یہ گروہ اسرائیلی اور امریکی حکومتوں نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی امداد سے تشکیل دیئے ہیں اور سردار وہ تھا، جو عراق اور شام میں ان منحرف گروہوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس نے عراق اور شام کے عوام کی مدد کی، تاکہ ان ممالک میں داعش جیسے منحوس گروہ کی بساط الٹ دی جائے اور انہوں نے داعش کے شر سے ان ممالک کو پاک کرکے دکھایا۔
آپ سے دوری برداشت نہیں ہوتی
آپ زندہ ہیں ہمارے دلوں میں


جب لوگوں کے انتخاب کے وقت کسی کو اُس کے ماضی کی بنیاد پر مسترد کیا جاتا تو آپ ناراض ہو جاتے اور کہتے کہ انقلاب اسلامی سے پہلے ہم میں سے کتنے مسلمان تھے؟ امام خمینی کا وجود باعث بنا کہ ہم مسلمان بن سکیں۔ پہلے ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا چاہیئے کہ انقلاب اسلامی سے قبل ہم کیا تھے؟ آج ہمیں کسی کے ماضی کی بنیاد پہ اُسے مسترد نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ مرد میدان شہید قاسم سلیمانی کسی ایک مسلک یا مکتب کے نہ تھے بلکہ انسانیت کے ہیرو تھے۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے 
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے


شہید قاسم سلیمانی رو رو کر اپنے لئے دعائیں مانگا کرتے تھے کہ میں شہید ہو جاوں اور میرے بدن کے ٹکرے ٹکڑے ہو جائیں اور میرا جسم میرے سر پر نہ رہے۔۔۔۔ اور کہتے تھے کہ مجھے بغداد کی زمین پر شھادت ملے، کیونکہ وہاں پر میرے آقا امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے ہیں۔۔ اور پروردگار عالم نے بھی شہید کی دعا قبول کر لی اور اسی زمین پر شہادت جیسی نعمت سے نوازا۔
این سعادت زور بازو نیست
تا بخشید خداۓ بخشیندہ


انہیں مشہور ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا، وہ عام طور پر کیمروں کے سامنے نہیں آتے تھے، لیکن ظالموں کے سامنے کھڑا ہو کر مظلوموں کا دفاع کرنے سے دنیا کے ہر حریت پسند شخص کو سردار کی شناخت ہوگئی۔ وہ ایک حقیقی ہیرو تھے۔ آج کے دن انہوں نے اپنی آرزو پا لی اور آزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ لیکن ان کا راستہ حریت پسند رہنماء حسینؑ ابنِ علیؑ کی طرح جاری ہے، ایک ایسا راستہ جو وقار، عزت، انسانیت اور آزادی سے  بھرپور ہے۔
خبر کا کوڈ : 907836
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش