0
Tuesday 27 Jul 2021 16:30

کیا طالبان کو روکا جا سکتا ہے؟

کیا طالبان کو روکا جا سکتا ہے؟
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

کافی عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں شریک تھا، وہاں گوریلا جنگوں پر بات کی جا رہی تھی۔ بہت ہی پرمغز گفتگو جاری تھی۔ ایک نکتے نے مجھے چونکا دیا، وہ یہ تھا کہ  گوریلا جنگجو عام طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں، ایک سیاسی قیادت ہوتی ہے، جو منظر عام پر رہتی ہے، اسے لوگ اور دنیا جانتی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی بین الاقوامی خبر بنتی ہے اور ان کے بیانات کا اثر لیا جاتا ہے۔ مسلسل مذاکرات میں رہنے والے گوریلا جنگجو نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کسی متفقہ رائے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ مذاکرات میں کسی بھی حتمی فیصلے کا اختیار نہیں رکھتے، انہیں زمین پر موجود کمانڈروں سے ہر بات کی منظوری لینا ہوتی ہے، کیونکہ زمین پر اصل لڑنے والے وہ لوگ ہوتے، اگر ان کو اعتماد میں نہ لیا جائے تو جنگ کو بند کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے اور مذاکرات بیکار رہتے ہیں۔

یہ بات مجھے اس لیے یاد آگئی کہ الجزیرہ پر خبر چل رہی ہے کہ طالبان مذاکرات کاروں نے کہا ہے کہ ہم تو پیش قدمی روکنا چاہتے ہیں، مگر زمین پر موجود کمانڈرز نے جیسے ہی امریکی افواج کے رخصت ہونے کا سنا، انہوں نے حملے بڑھا دیئے۔ گوریلا جنگجو کوئی منظم فوج تو نہیں ہوتے، جہاں ایک مکمل کمانڈ اینڈ کنٹرول کام کر رہا ہوتا ہے۔ ایک ایک قدم مرکز کو علم میں لا کرنا ہوتا ہے۔ جب طالبان کمانڈرز نے دیکھا کہ  راستے کھلے ہیں اور مدمقابل قوتیں انتہائی کمزور ہیں تو وہ ٹوٹ پڑے اور ملک کے بڑے حصے پر قابض ہوگئے۔ یہاں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ اب تک افغان طالبان دیہی اور صحرائی علاقوں، اسی طرح بارڈر ایریاز پر قبضہ کر رہے تھے، اب اگر وہ مزید آگے بڑھتے ہیں تو بڑی آبادیوں والے شہر سامنے ہوں گے، جہاں افغان فورسز کی طرف سے بڑی مزاحمت متوقع ہے۔ اس سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور انفراسٹکچر کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اب طالبان مذاکرات کاروں پر دباو مسلسل بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں روکیں اور حسب وعدہ امن عمل کا حصہ بنیں۔

مسئلہ صرف طالبان کمانڈروں کی ہٹ دھرمی کا نہیں ہے بلکہ کابل کی غنی حکومت کے گھمنڈ کا بھی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہیرو بن جائیں اور  افغانستان پر لمبے عرصے تک حکمران رہیں۔ طالبان کی طرف سے فوری طور پر اقتدار سے الگ ہو کر انتقال اقتدار کا پروسس شروع کرنے پر وہ بالکل بھی راضی نہیں ہیں۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے، جس طرح طالبان چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیں، تاکہ مذاکرات میں ایک مضبوط پوزیشن میں جائیں، اسی طرح اشرف غنی یہ چاہتے ہیں کہ وہ طالبان کو مکمل شکست سے دوچار کر دیں۔ اسی لیے پچھلے کچھ عرصہ کی اشرف غنی کی سرگرمیاں طالبان کو طاقت سے روکنے کے اشارے کر رہی ہیں۔ اشرف غنی حکومت اسلحہ اور گولہ بارود اکٹھا کر رہی ہے، انڈیا اور دیگر ممالک سے بڑی مقدار میں جنگی ہتھیار درآمد کیے گئے ہیں۔ جب دونوں طرف سے طاقت کے اظہار کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہو تو جنگ کی شدت میں اضافہ ہوگا اور اسے روکنے کے لیے کی جانے والی کوششیں رائیگاں جائیں گی۔

افغان قیادت کے بعض عناصر بڑی شدت سے بیرونی امداد کے منتظر ہیں، افغان افواج کے ترجمان شنواری نے کہا ہے کہ طالبان دہشتگرد ہیں اور دہشتگردوں سے لڑنا فقط افغانستان کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کی ذمہ داری ہے۔ یہ ایک طرح سے دبے لفظوں میں اس بات کا اعتراف ہے کہ ہم اکیلے طالبان سے نہیں لڑ سکتے بلکہ ہمیں بیرونی ممالک کی امداد درکار ہے۔ طالبان کی خود سری، افغان حکومت اور افواج کی مسلسل کوشش سے شنواری صاحب نے یہ خبر سنائی ہے کہ امریکی افواج ہمیں فضائی سپورٹ فراہم کریں گے اور اس سے ہم دہشتگردوں کا خاتمہ کریں گے، ویسے افغان فوج کے ترجمان شنواری صاحب کتنے سادہ ہیں بقول میر
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں


افغان حکومت میں موجود پاکستان مخالف عناصر اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں کا ملبہ مسلسل پاکستان پر ڈال رہے ہیں اور الزام پر الزام لگا رہے ہیں۔ افغانستان کے ایک صوبے کے گورنر نے پاکستانی شناختی کارڈز  ی تصاویر آفیشل فیس بک پیج پر شیئر کیں کہ یہ لوگ ہمارے ساتھ جنگ میں مارے گئے ہیں۔ وہ تصاویر ایک قبائلی ایجنسی کے پولیس سٹیشن کے فیس بک اکاونٹ سے مطلوب افراد کی شیئر کی گئی تھیں، جہاں سے چرا کر انہیں پاکستانی طالبان قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح یہ کہا گیا کہ پچاس پاکستانیوں کی لاشیں ہلال احمر کے حوالے کی گئی ہیں، جو افغان آرمی سے لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں، ہلال احمر نے کسی بھی لاش کی حوالگی کی تردید کر دی۔ لگ یوں رہا ہے کہ افغان حکومت اور افواج یہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنی ناکامیاں پاکستان پر ڈال کر خود پر ہونے والی تنقید سے جان چھڑائیں، مگر اب ایسا ہوگا نہیں۔ شناختی کارڈ بنانے والے ادارے نادرا نے اعلان کیا ہے ہم افغانوں کے کارڈز بڑی تعداد میں بلاک کر رہے ہیں، جو دھوکہ دہی سے بن گئے تھے۔ اسی طرح بہت سے افغان شہری جعلی پاکستانی آئی ڈی کارڈ بنوا چکے ہیں، وہ طالبان کی طرف سے لڑتے ہیں تو وہ افغانی ہی ہیں۔

افغان حکومت طاقت کے زور پر طالبان کو روکنے کا ارادہ رکھتی ہیں اور مسلسل اسی پر کام کر رہی ہے۔ افغان حکومت کی یہ پالیسی افغانستان اور خطے کے مفاد میں نہیں، اس سے جنگ کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ طالبان اب پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ جب امریکہ، نیٹو فورسز اور افغان فورسز مل کر طالبان کو فوجی شکست نہیں دے سکیں تو اکیلی افغان فوج کبھی بھی ایسا نہیں کرسکتی۔ اس لیے  افغانستان میں قومی حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات ہونے چاہیں، ایک عارضی حکومت بنے اور اس کے بعد اقتدار پرامن طور پر منتخب ہونے والوں کے حوالے کر دیا جائے۔ یہ افغان عوام، خطے کے ممالک اور دنیا کے لیے اچھا ہوگا اور مذاکرات ہی وہ واحد آپشن ہے، جس کے ذریعے طالبان کو روکا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 945401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش