0
Wednesday 28 Mar 2012 02:18

امریکا افغانستان میں، جائے ماندن نہ پائے رفتن

امریکا افغانستان میں، جائے ماندن نہ پائے رفتن
ہما مرتضیٰ 

امریکا کے وعدوں کے مطابق افغانستان سے انخلاء کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے امریکا کی افغانستان کے اندر اور خود عالمی سطح پر اس حوالے سے مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ موجودہ امریکی حکومت کو خود داخلی طور پر بھی طرح طرح کے دباﺅ کا سامنا ہے۔ نیٹو کے گذشتہ فیصلے کے مطابق 23 ہزار امریکی افواج کو رواں برس میں افغانستان سے واپس جانا ہے اور 2014ء کے آخر تک باقی ماندہ امریکی افواج کو افغانستان خالی کر دینا ہے۔ ایک عام آدمی کے لیے تو شاید یہ بات سادہ سی ہو لیکن امریکا کے لیے یہ معاملہ آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر اوباما انتظامیہ کے لیے جن کی کوشش ہے کہ 2014ء تک نیٹو کی ذمہ داریاں افغان سیکورٹی فورسز کو سونپ دی جائیں لیکن حالیہ دل خراش واقعات نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں قرآن پاک کے شہید کیے جانے کا واقعہ اور دوسرا 16 افغان شہریوں کے ایک امریکی فوجی کے ہاتھوں قتل عام نے لوگوں کو مزید مشتعل کردیا ہے۔ اب افغانیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ ان تازہ ہلاکتوں کی وجہ سے افغان اور امریکی فوج کے مابین مزید تناﺅ بڑھ گیا ہے اور مسٹر باراک اوباما کی وہ حکمت عملی بری طرح متاثر ہو رہی ہے جس کے تحت افغان فوجیں اپنے امریکی رفقائے کار سے جنگی فرائض سنبھالیں گی۔ ان کے لیے یہ سوال نہایت اہم ہے کہ امریکی فوجیوں سے شدید نفرت کرنے والے افغانوں کو وہ کس طرح سے سیکورٹی کی ذمہ داریاں سپرد کردیں۔ مسئلہ فقط یہی نہیں ہے بلکہ معاشی بھی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے ایک ماہر اینتھونی کارڈیس من کے حوالے سے لاس اینجلس ٹائمز اخبار لکھتا ہے کہ امریکا کو اس تازہ واقعہ سے ماورا دیکھنا پڑے گا اور اسے اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اس کی رواں پالیسی محض ایک دکھاوا بنتی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے حالات مزید ابتری کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2014ء تک مکمل طور پر تربیت یافتہ اور ساز و سامان سے لیس افغان فوج کو ذمہ داریاں سونپنے کی جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے لیے نہ وقت ہے نہ پیسہ اور نہ تربیت دینے والا عملہ۔ وہ افغان عوام بھی جن کا تعلق طالبان سے نہیں ہے دس سال سے غیر ملکی قبضے سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اب یہ طویل بے مقصد جنگ اور قبضہ ختم ہو۔ 

خود امریکی عوام بھی یہ باور کرتے ہیں کہ ان کی توقعات کے برعکس نہ صرف افغانستان کی جنگ نے طول پکڑا ہے بلکہ اس میں کوئی کامیابی بھی نہیں ملی۔ یہی حال یورپی عوام کا بھی ہے۔ ایک سروے کے مطابق دو تہائی برطانوی عوام افغان جنگ کے فوری خاتمے کے حامی ہیں۔ امریکا میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 68 فیصد سے زائد امریکی عوام افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کی موجودگی کے شدید مخالف ہیں۔ جرمنی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 67 فیصد جرمن عوام افغانستان سے جرمن افواج کے فوری انخلاء کے حامی ہیں۔ نیٹو ممالک کے عوام کی اس رائے کا اظہار آئے روز احتجاجی مظاہروں سے ہوتا ہے۔ 

خود امریکی فوجی جو افغانستان میں سرگرم ہیں ان کی حالت بھی امریکیوں کے لیے خاصی تشویش ناک ہے۔ طالبان کے تابر توڑ حملوں نے امریکی فوجیوں کو ذہنی اور نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ امریکی فوج کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے واپس آنے والے فوجیوں میں دماغی بیماری کی وباu پھیل گئی ہے۔ ان فوجی اہلکاروں میں سے 38 فیصد دماغی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں۔ یہ بیمار فوجی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو رہے ہیں۔ بیمار فوجیوں کا علاج کرنے والی کمیٹیوں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے واپس آنے والے 2ہزار 5 سو فوجی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ان فوجیوں کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچنے کا امکان ہے۔ 

امریکی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان سے واپس آنے والے 121 فوجیوں نے خود کشی کی جبکہ 2 ہزار 4 سو فوجیوں نے خودکشی کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں انسداد خود کشی تنظیم نے بچا لیا۔بعید نہیں کہ یہ تبصرہ درست ہو کہ ان فوجیوں کا دماغی علاج کرنے سے پہلے انھیں بھیجنے والوں اور جنگ کو طول دینے والوں کا دماغی معائنہ کروایا جانا چاہیے۔ امریکا کی اقتصادی حالت اسے نافقط کوئی نیا محاذ کھولنے کی اجازت نہیں دے رہی بلکہ اس نے پوری دنیا میں جو محاذ کھول رکھے ہیں ان کے اخراجات پورے کرنا بھی نہایت دشوار ہو چکا ہے۔ 2009ء کے دوران میں امریکا کے 45 ہزار مالیاتی ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں جن میں سے 6 وہ ادارے بھی ہیں جو سوسال پرانے تھے۔

امریکی معیشت کا یہ زوال بعد کے دو سالوں میں بھی جاری رہا یہاں تک کہ داخلی قرضے پورے تاریخی ریکارڈ میں مات کرگئے اور امریکا کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے کانگریس سے داخلی قرضوں میں موجود حد میں اضافے کی منظوری لی گئی۔ امریکا کے تمام تر استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود امریکی معیشت مسلسل زوال پذیر ہے۔ مزید جنگ جاری رکھنے کی وجہ سے امریکی اقتصادی نظام کو سخت دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ امریکا کا اقتصادی بحران آج اتنی شدت اختیار کر گیا ہے کہ پہلی بار امریکہ کے کئی سو شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور پچھلے کئی مہینوں سے باراک اوباما کی انتظامیہ کی غلط اقتصادی اور استعماری پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ 

مغرب میں بھی یہ تاثر عام ہو گیا ہے کہ اس بے مصرف جنگ میں قیمتی وسائل جھونکے جارہے ہیں۔ امریکی ٹیکس دہندگان کا کہنا ہے کہ انھیں ہرسال افغان جنگ کے لیے تقریباً 119 ارب ڈالر کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ نیٹو میں امریکا کے اتحادی ایک عرصے سے نیم دلی سے افغانستان میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فرانس اور جرمنی تو شروع سے ہی جنگی میدانوں سے دور رہے ہیں۔ دوسری طرف اب امریکا کا افغانستان جنگ میں سب سے بڑا اتحادی برطانیہ بھی اس طویل جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے امریکی دورے کے موقع پر کہا کہ عوام افغانستان میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، واشنگٹن آمد پر وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں عوام اینڈ گیم چاہتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری فوج واپس کب گھر آرہی ہے۔ 

ایسے میں جب امریکا کو داخلی اور خارجی دونوں طرف سے دباﺅ کا سامنا ہے اور صدارتی انتخابات کا وقت بھی قریب آرہا ہے افغانستان کا مسئلہ مسٹر اوباما کی عوامی مقبولیت کی اہم علامت بن گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو۔ امریکا کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھی اس وقت سخت ترین چیلنجیز کا سامنا ہے۔ اب جبکہ افغانستان میں بھی وہ بری طرح شکست کھا چکا ہے اس کے لیے یہ جنگ رسوائی کی وہ ہڈی بن کے حلق میں پھنس چکی ہے جسے وہ نہ نگل سکتا ہے نہ اگل سکتا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح افغان جنگ سے آبرومندانہ طریقے سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہے۔ اس نے دس سال سے زائد عرصے سے افغانستان میں طالبان کے سر جھکانے کی بھرپور کوشش کی مگر اب اس کی ہمت جواب دے گئی ہے۔ 

امریکا کی قومی سلامتی کے سابق میئر برنیسٹ سکوکرانٹ بھی یہی کہتے ہیں کہ افغان جنگ بہت طوالت پکڑ چکی ہے ہم واقعی اس سے تھک چکے ہیں۔ ادھر اقوام متحدہ میں امریکا کے سابق سفیر جان بولٹن بھی اس رائے سے متفق ہیں کہ امریکی عوام اس جنگ سے تھک چکے ہیں۔ ان کی رائے کے مطابق افغانستان سے القاعدہ کے خاتمے کا جومشن لے کر امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں داخل ہوئے تھے، وہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد مزید قیام کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مزید قیام کا مقصد امریکیوں کی ہلاکتیں اور مزید اخراجات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے آخر کار طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور قطر میں طالبان کا دفتر بھی کھول دیا گیا تاکہ مذاکرات کے ذریعے خطے میں امریکا کے مقاصد کا بھی کچھ تحفظ ہوسکے اور وہ آبرو کے ساتھ افغانستان سے نکل بھی جائے لیکن طالبان نے امریکی کہہ مکرنیوں کی وجہ سے فی الحال مذاکرات معطل کر رکھے ہیں۔ طالبان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ امریکا مذاکرات کی شرائط میں مستقل تبدیلیاں کر رہا ہے، مذاکرات میں اصل رکاوٹ امریکا کا بار بار تبدیل ہونے والا موقف ہے۔ ترجمان نے کہا کہ اسلامی امارات امریکا سے اس وقت تک مذاکرات دوبارہ شروع نہیں کرے گی جب تک وہ وقت ضائع کرنے کے بجائے ہم سے کیے گئے وعدے پورے کرنے سمیت اپنا ایک واضح موقف پیش نہیں کرتا۔ 

اگر حالات اسی سمت آگے بڑھتے رہے تو یوں لگتا ہے کہ امریکا کو مکمل رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنے کے سوا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے گا۔ جب اس کے اپنے تربیت یافتہ افغان فوجی اس پر بندوقیں تان کر کھڑے ہوں، اس کے عوام ساتھ نہ دے رہے ہوں، اتحادی تنگ آچکے ہوں، فرنٹ لائن اسٹیٹ اس کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ نہ ہو، مقابلے پر موجود طالبان اپنی فتح قریب دیکھ رہے ہیں، دس سالہ جنگ عملاً شکست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جنگ کے اخراجات کمزور معیشت پر بھاری بوجھ بن چکے ہیں تو اس میں کیا شک رہ جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکا کو جو صورت حال درپیش ہے اسے جائے ماندن نہ پائے رفتن کہنا ہی درست ہے۔
خبر کا کوڈ : 148579
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش