0
Sunday 20 May 2012 14:34

اسلحے کے زور پر جمہوریت کا فروغ

اسلحے کے زور پر جمہوریت کا فروغ
اسلام ٹائمز- شام میں گذشتہ جمعرات کو ہونے والے وحشت ناک بم دھماکے جو 70 افراد کے جاں بحق اور تقریبا 370 افراد کے زخمی ہونے کا باعث بنے اور جسکے نتیجے میں ہزاروں افراد کے گھروں اور گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا، ایک طرف تو شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کی جانب سے سابق سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ جناب کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے کی کھلی خلاف ورزی کو ظاہر کرتے ہیں تو دوسری طرف امریکہ، برطانیہ، فرانس اور عرب دنیا میں انکی کٹھ پتلی ممالک کے سربراہان مملکت کے انسان دشمن چہروں سے نقاب ہٹا کر انکے حقیقی چہروں کو عیاں کر رہے ہیں۔
شام کے عوام ان دنوں ایسے وقت اپنے ملک میں خون کی ندیاں بہتی دیکھ رہے ہیں جب اقوام متحدہ کے مبصرین کو وہاں موجود ہوئے تقریبا ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے جو کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان جنگ بندی کے منصوبے کے نفاذ کی غرض سے وہاں آئے ہوئے ہیں۔ اس مدت کے دوران حکومت مخالف عناصر نے کئی بار اس جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جناب کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ملک میں موجود بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں نہیں۔ سعودی عرب اور قطر کے حکام نے بھی انتہائی واضح انداز میں شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں کی جانب سے ملک کے سیاسی نظام کی سرنگونی کیلئے دہشت گردی اور قتل و غارت کا راستہ اپنانے کی حمایت کی ہے اور عملی طور پر انہیں اسلحہ اور مالی امداد کی فراہمی کے ذریعے اپنے راستے کو جاری رکھنے کی تشویق کر رہے ہیں۔ امریکی اور مغربی حکام بھی اس حکمت عملی کے حامی ہیں اور وہ بھی مختلف انداز میں اسی ڈگر پر چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی کے ممالک کے بارے میں متضاد اور دوغلی پالیسیوں نے امریکی حکام کے چہرے سے منافقت کا پردہ اتار پھینکا ہے اور انہیں رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔
دمشق میں بم دھماکوں کے ساتھ ہی بحرین کے ولیعہد کا دورہ امریکہ اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے انکی ملاقات اور امریکہ کی جانب سے آل خلیفہ خاندان کے ہاتھوں بحرینی عوام کی قتل و غارت کی کھلی حمایت، دمشق کے تباہ کن بم دھماکوں کے بارے میں امریکہ کی پراسرار خاموشی، یہ سب کچھ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ چیز جو امریکی حکومت کیلئے سب سے اہم ہے مشرق وسطی کے ممالک میں اپنے نوکر اور پٹھو حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی پر باقی رکھنا ہے چاہے اس راستے میں کتنے ہی غیرانسانی اقدامات کیوں نہ انجام دینے پڑیں۔ اس استکباری حکمت عملی کے تحت دہشت گردی خود بخود دو قسم میں تقسیم ہو جاتی ہے، اچھی دہشت گردی اور بری دہشت گردی۔ بری دہشت گردی وہ ہے جو امریکی مفادات کے حق میں نہ ہو اور اچھی دہشت گردی وہ ہے جو امریکی مفادات کے حصول کو یقینی بنائے۔
لہذا اس نکتہ نظر کے تحت مفاہیم اور معانی تبدیل ہو جاتے ہیں اور دمشق میں ہونے والے بم دھماکے، 70 افراد کا جاں بحق ہو جانا، 370 افراد کا زخمی ہو جانا اور اس قدر گھر اور گاڑیوں کا نابود ہو جانا، عوام کی جانب سے آزادی کے حصول کی کوششیں تلقی کی جاتی ہیں اور بحرینی عوام کی جانب سے اپنے جائز حقوق کی دستیابی اور آل خلیفہ کی آمر حکومت سے چھٹکارا پانے کیلئے انتہائی پرامن احتجاجی مظاہرے دہشت گردی قرار دے دیئے جاتے ہیں۔
بحرین، جسکی کل آبادی 7 لاکھ سے بھی کم ہے، گذشتہ ایک سال سے آزادی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس دوران 90 افراد کی قربانی بھی پیش کر چکا ہے۔ شہید ہونے والے ان افراد میں خواتین، بچے، بوڑھے، مزدور، اسٹوڈنٹ، علماء، وکیل، رکن پارلیمنٹ، ڈاکٹر اور تمام طبقات کے افراد شامل ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد آل خلیفہ رژیم کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اسی جمہوریت کا مطالبہ کر رہے ہیں جسکا مغربی دنیا نے ہمیشہ نعرہ لگایا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ آزادی کے مطالبے پر بحرینی عوام کو قتل و غارت اور کچلے جانے کا مستحق سمجھتے ہیں اور آل خیلفہ اور آل سعود حکومتوں کی سیاسی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے انہیں فوجی اور مالی امداد فراہم کرتے ہیں جو اپنے فوجی طاقت کے بل بوتے پر نہتے اور بیگناہ بحرینی عوام کو قتل کرنے میں مصروف ہیں اور انکی آواز کو دبانے کے درپے ہیں، اور اپنے اس اقدام کو جمہوریت کا فروغ قرار دیتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بحرین کے ولیعہد کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران انتہائی واضح انداز میں آل خلیفہ رژیم کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور بحرین کی حکومت کو امریکہ کا عالی قدر دوست قرار دیا ہے۔ برطانوی حکام نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران دو بار 5 لاکھ پاونڈ مالیت کا اسلحہ بحرین ارسال کیا ہے اور آل خلیفہ رژیم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ آل خلیفہ رژیم کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بحرین کے حاکم خاندان کے افراد امریکی اور برطانوی حکام کو بھاری رشوت ادا کر رہے ہیں تاکہ وہ آل خلیفہ رژیم کے غیرانسانی اور مجرمانہ اقدامات کے بارے میں خاموشی اختیار کئے رکھیں اور ضروری مواقع پر انکی حمایت کا بھی اعلان کرتے رہیں۔ انہیں مخالفین کے مطابق بحرینی ولیعہد کے تازہ ترین دورہ امریکہ میں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو خصوصی طور پر بھاری رقم ادا کرنے کے علاوہ موجودہ امریکی صدر براک اوباما جو چند ماہ بعد ہونے والے صداتی انتخابات میں اپنی بخت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، کی الیکشن کمپین پر ہونے والے اخراجات کا بڑا حصہ ادا کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
یہ تلخ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ یورپی ممالک اور امریکہ کی فقط حکومتیں ہی کرپٹ نہیں بلکہ انکے سیاستدان بھی اپنی جیبیں بھرنے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور وہ اس مقصد کے حصول کیلئے حتی اپنے ملک اور قوم کی عزت اور وقار کو بھی داو پر لگانے کیلئے تیار نظر آتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ پست اور خطرناک کرپشن یورپی اور امریکی حکومتوں کی جانب سے بین الاقوامی صیہونیزم کے مقابلے میں خطے میں پائی جانے والی ہر قسم کی مزاحمت کو کچلنے کیلئے اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم اور عرب مستبد حکومتوں کی مکمل حمایت اور سرپرستی ہے۔ مغربی حکام اپنی اس پالیسی کے تحت حتی ریاستی دہشت گردی کو بھی نظرانداز کرنے اور اسکی توجیہ کرنے میں مصروف ہیں اور اس کام کیلئے وہ بین الاقوامی اداروں کو بھی اپنے آلت دست کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر اقوام متحدہ کی ایسی تمام قراردادوں اور منصوبوں کو اپنے پاوں تلے روند ڈالتے ہیں جو انکے مفادات کے حق میں نہیں ہوتے اور اسکی ایک واضح اور زندہ مثال شام کے بارے میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل جناب کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبہ ہے۔
امریکی اور یورپی حکومتوں کے جانب سے شام اور بحرین کے بارے میں دوغلا اور انسان دشمنی پر مبنی موقف اختیار کرنے کی بڑی وجہ اسلامی بیداری کی تحریک سے انکا خوف اور بوکھلاہٹ ہے۔ اسلامی بیداری کی تحریک نے مغربی حکومتوں کی ناجائز بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ بات بہت واضح ہے کہ مغربی حکام اس خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر اقدام انجام دینے پر تیار ہیں۔ دہشت گردی کو اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کرنا بھی انہیں کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
لیکن مغربی حکام کے ارادوں کے برعکس خطے کی اقوام اپنا راستہ ڈھونڈ چکی ہیں اور اسلامی بیداری کی امواج حتمی طور پر عالمی استکباری قوتوں کے تمام مہروں اور کٹھ پتلی حکمرانوں کی نابودی کا سبب بنیں گی۔ آل خلیفہ، آل سعود اور قطر کے شیوخ کی قسمت اسرائیل کی غاصب صیہونیستی رژیم سے جڑی ہوئی ہے اور ان تمام قوتوں نے خطے کی اقوام کے مقابلے میں کھڑا ہو کر اپنی ہی نابودی اور خاتمے کو یقینی بنا دیا ہے۔
منبع : روزنامه جمهوری اسلامی
خبر کا کوڈ : 161029
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش