0
Saturday 8 Sep 2012 11:05

غیر جانبدار ممالک کی ایران میں کانفرنس

غیر جانبدار ممالک کی ایران میں کانفرنس
تحریر: جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
 
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سرد جنگ نے زور پکڑا تو یوگو سلاویہ کے صدر Josip Broz Tito نے 1961ء میں Belgrade میں ایک غیر جانبدار ملکوں کا بلاک تشکیل دیا۔ جس کا نام Non Aligned Movement رکھا گیا۔ اس تحریک کے بانی ارکان میں انڈونیشیاء کے صدر سوٹکارنو، مصر کے صدر کرنل جمال عبدالناصر، گھانا کے صدر نکووما اور ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لال نہرو شامل تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب شرقی اور مغربی بلاکوں میں سرد جنگ نے زور پکڑنا شروع کیا تو 1953ء میں اقوام متحدہ کے فورم پر غیر جانبدار بلاک بنانے کی سب سے پہلے بات ہندوستان کے ایک سفارت کار ’’وی کے کرشنامینن‘‘ نے کی۔ 1979ء میں کیوبا کے صدر فیڈل کاسترو نے ہوانا میں تقریر کے دوران اس بلاک کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تحریک ایمپئریل ازم، کو مونیل ازم، نیو کولونیل ازم اور نسلی تعصب کے خلاف ہے۔
 
اقوام متحدہ کے ارکان ممالک کی تعداد اگر 198 ہے تو اس تحریک میں 120 ممالک شامل ہیں، جو دنیا کی کل آبادی کا 55 فیصدی ہے۔ 1979ء میں جب سابقہ سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کرکے اس ملک پر قبضہ کر لیا تو غیر جانبدار ممالک کی اس مضبوط تحریک میں بھی دراڑیں پڑ گئیں۔ چونکہ سویت یونین کے حمایتوں نے جارحیت کے حق میں بات کی، جبکہ مسلمان ممالک نے اس کی مذمت کی۔ یوگو سلاویہ کے حصے بخرے ہو جانے سے اس تحریک کو اور نقصان پہنچا۔ چونکہ 1992ء میں تحریک کے بانی رکن یوگوسلادیہ کی رکنیت کو ختم کر دیا گیا۔
 
NAM کی سولہویں کانفرنس 26 سے 31 اگست 2012ء میں ایران میں منعقد کی گئی، جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ تقریباً 105 ممالک کے صدور، وزرائے اعظم اور نمائندوں نے حصہ لیا۔ اس میں 27 ممالک کے صدور، دو بادشاہ، سات وزرائے اعظم اور 9 نائب صدور شامل تھے۔
موجودہ دور میں جب سویت یونین کا جنازہ اٹھنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی جنگل کے بادشاہ بن چکے ہیں تو انہوں نے اب قانون بھی جنگل والا بنایا ہوا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کا ہر ہدف اور انرجی کی ہر ضرورت بندوق کی نوک سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ 

کیمونزم کے خاتمے کے بعد اب تقریباً سو فیصدی مسلمان ممالک ہی زیر عتاب ہیں۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں عراق، افغانستان اور لیبیاء کا خون بے رحمی سے چوس چکی ہیں۔ پاکستان اور شام کو گہرا زخمی کیا ہوا ہے۔ اب ان دو ممالک کا گوشت چبانے اور ہضم کرنے کے مراحل باقی ہیں اور جیسے گھوڑے کو پکڑنے کے لیے گول رسہ اس کی گردن کی طرف پھینکا جاتا ہے، بالکل اسی طرح اب ایران کا سر اور گردن مروڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں ایران میں منعقدہ NAM کانفرنس جس میں دنیا کے بہت زیادہ قائدین شامل ہوئے، کو ایران کی بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم سفارتی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے، جس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایران بین الاقوامی تنہائی کا شکار نہیں۔
 
James Petras بین الاقوامی سطح کا ایک مانا ہوا مصنف اور کالم نگار ہے۔ اس کی 29 زبانوں میں اب تک 62 کتابیں چھپ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نیویارک ٹائم، گارڈیں اور دوسرے میگزینوں میں 2600 کالم بھی لکھ چکا ہے۔ اس نے حال ہی میں ایک کالم لکھا ہے، جس کا عنوان ہے "NAM: Iran's Strategic and diplomatic victory" 

اس کالم میں تجزیہ نگار نے مندرجہ ذیل اہم باتیں کیں۔
1۔ NAM کانفرنس ایران کی زبردست فتح اور امریکہ، اسرائیل اور یورپین یونین کی شکست ہے۔
2۔ 120 ممالک کی اس کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی بڑے پیمانے پر شمولیت نے ثابت کر دیا کہ ایران کی مسلمہ حیثیت کو بین الاقوامی برادری تسلیم کرتی ہے۔
3۔ دنیا ایران کو دہشت گرد ملک نہیں سمجھتی، جس کو امریکی خواہش کے مطابق تنہا کر دیا جائے۔
4۔ ایران کی سفارتکاری امریکہ سے بہت بہتر ہے۔
5۔ اس کانفرنس نے ایران کے خلاف پابندیوں کو رد کرتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ ایران پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی توانائی حاصل کرسکتا ہے۔ 

6۔ اس کانفرنس نے مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے اور فلسطین کی آزادی اور 1967ء کی سرحدیں بحال کرنے کی بات بھی کی۔
7۔ اس کانفرنس نے مصری صدر کی یہ سفارش ماننے سے انکار کر دیا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کے لیے امریکی اقدامات کی تائید کی جائے۔
8۔ اس کانفرنس نے یہ بھی ثابت کیا کہ امریکہ، اسرائیل اور یورپین یونین بین الاقوامی برادری سے کٹ چکے ہیں۔ دنیا امریکہ کی حکومتیں بدلنے والی پالیسیوں کے مخالف اور فلسطین کی آزادی کے حق میں ہے۔
9۔ دنیا نے ایران کی اس سفارش کی تائید بھی کی کہ اقوام متحدہ کو غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے۔
10۔ اس کانفرنس کی وجہ سے ایران پر فوری امریکی اور اسرائیلی حملے کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
 
آخر میں کالم نگار نے لکھا ہے کہ اقوام متحدہ کے اندر NAM کے ارکان آپس میں تعاون کرکے امریکی تھانیداری کو ختم کرسکتے ہیں اور اسرائیل کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ فلسطینیوں پر مظالم بند کرکے ان کو اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔
 
پاکستان کی قیادت کو ایران کی جرات، ہمت اور سفارت کاری کے اسلوبوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور NAM ،OIC اور SCO فورمز پر محنت کرکے عالمی برادری کو جنوب ایشیاء کے حالات، مسئلہ کشمیر، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے سے پاکستان کی معاشی اور مالی تباہ حالی، ڈرون حملوں اور ان سے بے گناہ ہلاکتوں کی تفصیلات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 193575
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش