3
0
Tuesday 13 Nov 2012 17:27

کراچی، موت کا رقص آخر کب تک؟

کراچی، موت کا رقص آخر کب تک؟
تحریر: علی ناصر الحسینی 
 
کراچی میں موت کا رقص جاری ہے، یہاں ہر صبح اَلم غم کی داستان لئے طلوع ہوتی ہے اور ہر شام آنسوؤں کی برسات دے کر چلی جاتی ہے، آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر، کھلی سڑکوں اور بلند و بالا عمارتوں کے باوجود تنگ ذہنیتوں اور محدود سوچوں کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے، روشنیوں کے بکھرتے رنگوں پر بھی خون کا رنگ غالب دکھائی دیتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ دعائیں اثر کھو گئی ہیں، بدقسمتیاں خوشبختیوں کو ہڑپ کر رہی ہیں اور اُمید کا دیا بجھ رہا ہے، زندگی کا چراغ گُل ہو رہا ہے، کہیں بوڑھا باپ بیٹوں کا ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے اور کہیں کم سن بیٹے دستار یتیمی پہنے باپ کے جنازے پر نوحہ کناں دیکھے جاتے ہیں، تو کہیں بھائیوں اور باپ کا مشترکہ غم معصوم بیٹیاں مناتی اور بیوہ ماں سے لپٹی دیکھی جاسکتی ہیں، کروڑوں انسانوں کے اس سمندر میں طغیانی، ہلچل اور طوفان برپا ہے، ہر ایک اعتبار کھو چکا ہے، ہر ایک کو تیز اور بے رحم طغیانی میں اچھلتی لہروں کی زد میں آنے کا اندیشہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ شہر نہیں بلکہ جنگل ہے، جہاں درندوں نے کمزوروں پر بھوک مٹانے کا تکیہ کیا ہوا ہے۔
 
یوں تو ہر مارا جانے والا انتہائی اہم اور قیمتی ہوتا ہے اور ہر ایک کا دُکھ و کرب ایک جیسا ہوتا ہے، مگر بعض لوگوں نے کچھ کام ایسے کئے ہوتے ہیں کہ ان کی یاد زیادہ ستاتی ہے، ان کی جدائی کا غم زیادہ محسوس ہوتا ہے، ان کے چلے جانے پر اداسی گہری ہو جاتی ہے، ایسے ہی مارے جانے والوں میں مولانا آفتاب حیدر جعفری اور برادر بزرگ سعید حیدر زیدی کی شخصیات ہیں۔ مولانا آفتاب حیدر جعفری سب سے پہلے جعفریہ الائنس کے پلیٹ فارم پر دکھائی دیئے تھے، بعدازاں تمام تنظیموں بشمول I.S.O، شہید فاؤنڈیشن، MWM کے ساتھ عمومی اجتماعات میں بھرپور معاون اور فرنٹ لائن میں دکھائی دیتے تھے، ان کی خطابت کا ڈنکا بج رہا تھا۔
 
وہ بےحد باصلاحیت اور اخلاص کا مرقع انسان تھے، ملت کی بیداری اور منظم کرنے نیز نوجوانوں کو حوصلہ دینے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ان کو 6 نومبر کی صبح صدر کے پارکنگ پلازہ کے نزدیک گولیوں سے بھون دیا گیا، ان کے ہمراہ ان کے ساتھی مرزا شاہد علی کو بھی نشانہ بنایا گیا، جو ایک بنک میں ملازم تھے، ان کی نماز جنازہ نمائش چورنگی پر ادا کی گئی، جس میں ہزاروں کی تعداد میں اشک بار مومنین اور ان سے محبت کرنے والے موجود تھے، اس موقعہ پر شدید احتجاج بھی کیا گیا اور حکمرانوں کی نااہلی اور انتظامیہ کی جانبدارانہ روش کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدام اُٹھائے جائیں۔
 
شہید آفتاب حیدر کے غم و الم اور رنج و افسوس سے ابھی ہم کہاں نکلے تھے ایک اور افسوسنا ک خبر نے سکتہ طاری کر دیا، 9 نومبر کو معروف تنظیمی شخصیت، آئی ایس او کراچی ڈویژن کی ذیلی نظارت کے رکن برادر سعید حیدر زیدی کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ ان کی شہادت اس عنوان سے بڑا نقصان ہے کہ وہ ایک علمی، فکری شخصیت تھے اور کئی کتب کے مصنف و مؤلف تھے، جبکہ فکری و علمی میدان میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے انہوں نے ایک اشاعتی ادارہ "دارلثقلین" بھی قائم کر رکھا تھا۔ سعید حیدر زیدی شہید تنظیمی دوستوں کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے تھے اور انہیں جہاں بھی لیکچر کیلئے بلایا جاتا وہ ازخود پہنچ جاتے اور اگر تنظیمی دوستوں کی طرف سے کوتاہیاں بھی ہوتیں تو انہیں نظر انداز کر دیتے۔ ان کے جنازہ میں بھی ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں اور علماء نے شرکت کی اور اظہار افسوس کیا۔
 
سعید بھائی کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلا یقیناً بہت دیر تک ملت محسوس کرتی رہے گی۔ ان کے جنازہ سے اگلے روز 11 نومبر کو کراچی میں کچھ عرصہ قبل شہید ہونے والے قمر رضا کے فرزند اسد رضا کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ ان کے ہمراہ ایک سنی برادر بھی شہید ہوا جبکہ 3 افراد زخمی بتائے جاتے ہیں۔ اسی روز ایک ہی خاندان کے 3 افراد باپ جرار حسین اور دو بیٹے امداد حسین اور سجاد حسین کو اورنگی ٹاؤن میں فائرنگ سے شہید کر دیا گیا، جبکہ انچولی سوسائٹی میں راشد منہاس روڈ پر دہشت گردوں نے ایمبولنس میں آکر فائرنگ کی، جوابی فائرنگ سے یہ لوگ اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ گئے۔
 
کراچی کے حالات کی خرابی کا رونا یوں تو ہر کوئی روتا ہے مگر عملی طور پر یہ تشویش اور فکرمندی عارضی اور محدود وقتی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد بس میڈیا پر نمائندگی لینا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے حالات کی خرابی کی اصل جڑ اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی زبان کھولنے کیلئے تیار نہیں، اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ کراچی میں ایسے مدارس اور مساجد کی بڑی تعداد ہے جہاں جہادی و فسادی اپنی کارروائیاں ترتیب دیتے ہیں اور شہر میں ہونے والے تشدد، فسادات اور آگ و خون کے کھیل میں کردار ادا کرتے ہیں، ان شدت پسندوں کا تعلق پورے پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک سے ہے، مدرسے ان کو شیلٹر (Shelter) فراہم کرتے ہیں، ان مدرسوں میں رہ کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے کئی ایک گروہ پکڑے بھی جاچکے ہیں، مگر کسی کو سزا نہیں ملی، اکثر رہا کر دیئے جاتے ہیں۔
 
یہ بات بھی اب زبان زد عام و خاص ہے کہ کراچی میں شیعوں کی موجودہ ٹارگٹ کلنگ دراصل ایک لسانی گروہ کی منحوس پالیسی کا نتیجہ ہے۔ یہ سیاسی جماعت دراصل اہل تشیع کو اپنے در پر جھکانا چاہتی ہے اور آئندہ آنے والے الیکشن میں حمایت لے کر اہل تشیع کے ووٹ بنک کو اپنے نام لکھوانا چاہتی ہے، اس حوالے سے گزشتہ دنوں کراچی میں اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ٹارگٹ کلرز کی گرفتاری اور اعترافات جن میں شیعہ مخالف گروہ کے کئی افراد کے مارنے کا اعتراف بھی شامل ہے، چونکا دینے والے ہیں۔ 

حقیقت یہ ہے کہ یہ کام بے حد منظم اور منصوبہ بندی سے ہوئے ہیں، جب تک کسی تنظیم، گروہ یا قوم و قبیلہ میں مکمل نفوذ نہ ہو، اس سطح کی دہشت گردی ممکن نہیں، ٹارگٹس کا چناؤ، ان کی سرگرمیاں، ٹائمنگ اور وسائل کے ساتھ ٹارگٹ کلرز کا انتخاب معمولی بات نہیں، جبکہ کارروائی کے بعد محفوظ ٹھکانے اور پکڑے جانے کی صورت میں مکمل سپورٹ، چاہے وہ قانونی ہو یا مالی، کا انتظام کرنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتا، یہ منظم منصوبہ بندی سے ہی ممکن ہوتا ہے، کراچی کو اپنی ملکیت سمجھنے والے فاشسٹ گروہ میں بظاہر شیعہ لیڈرشپ بھی موجود ہے، مگر عملی طور پر اس گروہ میں شامل شیعہ بھی کسی ذاتی رائے کے اظہار اور اسے عملی کرنے بارے سوچ بھی نہیں سکتے، شیعہ شہداء کے جنازوں پر اپنی تنظیم کے پرچم ڈال کر قبضہ کرنے کے بیسیوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ان شیعوں کا تعلق شیعت سے ہرگز نہیں، نہ ہی ان کی وفاداریاں مذہب و مکتب کے ساتھ ہوسکتی ہیں۔
 
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کا شور ڈالنے والے گروہ کا مقصد چور مچائے شور کے مترادف ہے۔ حقیقت میں یہ لوگ خود ان (طالبان) کا کام کررہے ہیں اور طالبان کا شور مچا کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ طالبان سے صرف وہی بچا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی سرپرستی قبول کی جائے، قتل و غارت اور موت کا یہ رقص کب تک جاری رہے گا، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس قتل و غارت و خونریزی کی بنیادی ذمہ داری یہاں کے ذمہ دار اداروں، حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی سٹیک ہولڈرز پر ہی ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کو جس طرف لے جا رہے ہیں، اس کے اثرات پورے پاکستان پر پڑیں گے اور ان دنوں میں جب یہاں KSE انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح کو عبور کرکے نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا، اس دہشت و وحشت اور آگ و خون سے اسے سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 211378
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

belkol ap ne sahi neshan dahi ki hai.mqm k andar jo shia hazrat mojood hain un ko chahye k apna qebla drost kren.kio k jo hamare momneen ko sirf vote hasil krne k lie mar rahe hain un se hamara koi taaloq nahi.eslie k hamare lie sub se zyada kemti momneen ki janen hain.zara un se poocho jes k ghar se janaze uthe hon.
groh ya jamat ka nam latay dar lagta ha app ko
Pakistan
sirf imam hussain
ہماری پیشکش