0
Sunday 14 Mar 2010 15:08

اسرائیل کا حقیقی چہرہ اور اسلامی ممالک

اسرائیل کا حقیقی چہرہ اور اسلامی ممالک
 آر اے سید
حماس کے رہنما محمود المبحوح کے قتل نے جہاں غاصب صیہونی حکومت کی دہشت گردانہ ماہیت کو آشکار کیا ہے وہاں بدنام زمانہ صیہونی تنظیم موساد اور یورپی ممالک کے درمیان موجود گہرے روابط بھی منظر عام پر آگئے ہیں۔حماس کے مرکزی رہنما الکتری نے دوبی میں المبحوح کی شہادت کو فلسطینی کاز کی حقانیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم و جابر اسرائیل،فلسطینیوں کو دہشت گرد کہتا ہے حالانکہ وہ اپنی سرزمین کے دفاع اور اپنے غصب شدہ حقوق کے لئے جد وجہد کر رہے ہیں۔ الکتری نے بعض مغربی ممالک اور موساد کے قریبی تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب عالمی برادری خود فیصلہ کرے کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں یا موساد اور اس کی ہر طرح کی لاجسٹک اور مادی و سیاسی مدد کرنے والے یورپی ملک۔الکتری نے بعض عرب ممالک کی خفیہ تنظیموں کو بھی اس واردات میں ملوث قرار دیا ہے۔
اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد اس سے پہلے بھی مقبوضہ فلسطین سمیت دوسرے ممالک میں صیہونی عزائم کے راستے میں رکاوٹ بننے والے افراد کو مختلف طریقوں سے دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اپنے راستے سے ہٹا چکی ہے۔حزب اللہ لبنان کے اہم کمانڈر حاج رضوان المعروف جواد مغنیہ کے خلاف شام میں انجام دی موساد کی آخری بڑی کاروائی شمار ہوتی ہے۔شہید جواد مغنیہ کو بم دھماکے کے ذریعے شہید کیا گیا تھا جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے ایٹمی سائنس دان علی محمدی کا قتل بھی صیہونی ایجنٹوں کی کاروائی ہے۔
موساد کئی سالوں سے محمود المبحوح کے تعاقب میں تھی،لیکن انہیں ایسا کوئی موقع نہیں مل رہا تھا جس سے وہ آسانی سے حماس کے اس بانی رہنما کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بناتے.
پال بار جرلیوس(paul borgerlews ) اور روری کارتھی(rory mc carthy ) کی رپورٹ کے مطابق حماس کے سینئیر رہنما محمود المبحوح بیس جنوری کو دبئی کے سیون اسٹار ہوٹل البستان کے استقبالیہ ڈیسک پر سہ پہر تین بجکر پچیس منٹ پر پہنچے جوں ہی وہ استقبالیے سے اپنے کمرے دو سو تیس میں جانے کے لئے لفٹ پر سوار ہوئے تو دو یورپی شہری جو پہلے سے ہوٹل کی لابی میں موجود تھے انکے ہمراہ لفٹ میں سوار ہوئے اور المبحوح کے ساتھ اسی فلور پر اتر گئے۔انہوں نے غیر محسوس طریقے سے مبحوح کا کمرہ نمبر دیکھا اور نیچے آکر کمرہ نمبر 230 کے عین سامنے والا کمرہ نمبر 237 بک کرا لیا۔مبحوح کے سامنے والا کمرہ لیکر انہوں نے حماس کے رہنما کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔دوبئی پولیس کی تحقیقات کے مطابق مبحوح جب رات کے ساڑھے آٹھ بجے چہل قدمی کے لئے ہوٹل سے باہر آئے تو یہ دونوں پر اسرار گورے جو انکے ساتھ لفٹ میں سوار ہوئے تھے اور انکے دو دوسرے ساتھی مبحوح کے کمرے میں داخل ہو کر گھات لگا کر بیٹھ گئے۔حماس کے رہنما جب چہل قدمی کے بعد کمرے میں پہنچے تو یہ چاروں ان پر جھپٹ پڑے اور انکا گلا گھونٹ دیا۔المبحوح تین بجکر سترہ منٹ پر دوبئی ائیرپورٹ سے ہوٹل کے لئے روانہ ہوئے تھے اور تقریبا" چھ گھنٹے کے بعد ان کا مردہ جسم البستان ہوٹل کے کمرہ نمبر 230 میں بے حس و حرکت پڑا تھا۔
دوبئی پولیس کی تفتیش اور ابھی تک سامنے آنے والی تحقیقات بالخصوص CCTV کیمروں کی فلموں سے پتہ چلتا ہے کہ اس پر اسرار قتل میں گیارہ افراد براہ راست ملوث تھے یہ افراد جن میں ایک عورت بھی شامل تھی مختلف فلائٹوں سے دوبئی پہنچے اور سب الگ الگ ٹیکسیوں میں ہوٹل البستان پہنچے۔ان سب کی خصوصیت یہ تھی کہ ان میں سب کے سب نقد خرچ کر رہے تھے اور کوئي بھی کریڈٹ کارڈ استعمال نہیں کر رہا تھا ہوٹل میں قیام کے دوران انہوں نے کئی بار وگ لگا کر اور مختلف قسم کی عینکیں و غیرہ لگا کر اپنے حلیے بھی تبدیل کئے۔ان کا چیف پیٹر ایلونگر( peter elvinger) تھا جس نے فرانسیسی پاسپورٹ پر سفر کیا۔ان دہشت گردوں کے پاس برطانیہ،ائرلینڈ اور چند دوسرے یورپی ممالک کے پاسپورٹ تھے یہ گیارہ کے گیارہ افراد واردات کے بعد دوبئی پولیس کو جھانسہ دیکر دوبئی ائیرپورٹ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔لیکن ان کی مدد کرنے والے دو فلسطینی دوبئی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔جن کے نام جمال شحبیر اور احمد علی حسنین بتائے  گے ہیں۔
دوبئی پولیس کے سربراہ خلفان تمیم کے مطابق یہ تمام کاروائی موساد کے ذریعے انجام پائي ہے اور ان گیارہ افراد کے ٹیلی فونی رابطوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا مرکز آسٹریا تھا۔دوبئی کے سیکورٹی ذرائع کے مطابق المبحوح کے قتل میں بلواسطہ اور بلاواسطہ مجرمین کی تعداد چھبیس بنتی ہے جن میں اکثریت یورپی شہریوں کی ہے۔دوبئی پولیس نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا ہے کہ واردات سے پہلے یہ نقد رقوم استعمال کرتے رہے ہیں لیکن واقعے کے بعد گیارہ کے گیارہ افراد نے امریکی بینک " میٹا بینک" کا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا جس سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ امریکی حکام بھی اس کاروائي سے باخبر تھے اور انہوں نے اس ٹیم کی مالی امداد کے لئے امریکی سرمایہ فراہم کیا تھا واقعے کے فورا" بعد الشرق الاوسط نے اپنی دیرینہ دشمنی کو ظاہر کرنے کے لئے ایران پر الزام لگایا کہ وہ اس واردات میں ملوث ہے تاہم دوبئی پولیس کی بروقت کاروائی اور سنجیدگي نے نہ صرف الشرق الاوسط کے جھوٹ کی قلعی کھول دی بلکہ انسانی حقوق کا دعوی کرنے والے یورپی ممالک کی دہشت گردانہ ماہیت کو بھی دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف زبان سے انسانی حقوق، شہری آزادیوں اور جمہوریت کا دعوی کرتے ہیں وگرنہ حقیقت میں انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی دوسرا ان کا ثانی نہیں ہے۔
محمود المبحوح کے قتل کا سراغ لگانے کے حوالے سے دوبئی پولیس کی کارکردگی واقعا" قابل ستائش ہے البتہ جو بات سمجھ نہیں آ رہی ہے وہ عرب امارات کے حکمرانوں کی اس قتل کے حوالے سے دوبئی پولیس کو دیئے جانے والے اختیارات اور آزادی ہے۔عرب ملکوں کے حکمران تو یورپی ملکوں کے حکمرانوں بالخصوص امریکہ کے اشارے کے بغیر سانس بھی نہیں لیتے انہوں نے اپنی پولیس کو کیسے اجازت دے دی کہ وہ یورپی پاسپورٹوں پر سفر کرنے والوں گوروں کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کریں یہ ایک سربستہ راز ہے جو وقت آنے پر آشکار ہو گا ہم دوبئی کے حکمرانوں کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی قومی غیرت اور دوبئی میں قانون کی حکمرانی کو دوسرے اسلامی ممالک کے لئے بھی ایک نمونہ عمل قرار دیتے ہیں جہاں امریکی اہلکار بلیک واٹر اور ذی کمپنی کے نام پر دندناتے پھر رہے ہیں لیکن ان کی ہر طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔کیا پاکستان دوبئی سے بھی زیادہ کمزور ہے کہ وہ امریکی اہلکاروں کے سامنے آواز تک اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔
امریکی کبھی ڈرون حملے کرتا ہے کبھی پاکستانی شہریوں کو دن دھاڑے اٹھا کر لے جاتا ہے،کبھی پاکستان کی بیٹیوں کو بغیر کسی جرم کے عقوبت خانوں میں رکھتا ہے لیکن پاکستانی حکام ایٹم بم کا مالک ہونے اور لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھنے کے باوجود اسکے سامنے بھیگي بلّی بنے رہتے ہیں۔
دوبئی والوں نے حماس کے کمانڈر کے قتل کو دوبئی میں قتل کرنے کو اپنے لئے چیلنج سمجھا اور انہوں نے یورپ سے تمام تر دوستیوں اور اقتصادی و ٹیکنالوجی کے قریبی تعلقات کے باوجود نہ صرف سخت احتجاج کیا ہے بلکہ بعض خبری ذرائع کے مطابق انہوں نے یہودیوں کی دوبئي آمد پر پابندی عائد کر دی ہے اگر یہودیوں پر پابندی کی خبر حقیقت پر مبنی ہے تو دوبئی حکومت کے اس اقدام پر انہیں سلام پیش کرنا چاہئے۔
ہم اپنی بات کا اختتام پاکستان کے کثیرالاشاعت اخبار جنگ کے ایک کالم سے کرتے ہیں جس میں کالم نگار پاکستانی حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے:
حضور والا! عمل کرنا سیکھنا ہے تو اپنے اس برادر اسلامی ملک سے سیکھئے جن کے مغرب سے تعلقات آپ سے کہیں زيادہ بہتر اور وسیع ہیں،جنہوں نے اپنے ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لئے صرف جدید طریقے ہی اختیار نہیں کیے بلکہ اغیار سے ان کی صلاحیت اور استعداد سے بھرپور فائدہ اٹھایا البتہ جب قانون کی حکمرانی کی سوال اٹھا تو انہوں نے اپنے ملک میں یہودیوں کا داخلہ یہ کہہ کر بند کر دیا کہ " دہشت گردوں اور قاتلوں کی ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے " ۔۔۔ حماس کے رہنما محمودالمبحوح کے قتل کی تحقیقات کے نتیجے میں جب یہ عقدہ کھل کر سامنے آیا اور ہر زاویے سے ثابت ہو گیا کہ اسرائیل کے وزير اعظم اور انکے ناجائز ملک کا خفیہ ادارہ موساد اس بہیمانہ کاروائی میں ملوث ہے تو وہ امریکہ یا برطانیہ سے ڈرے نہیں،آپ کی طرح خوف نہیں کھایا،تعلقات کے خراب ہونے کارونا نہیں رویا،اوبامہ یا براؤن کیا سوچیں گے یہ سوچ کر رات بھر کروٹیں نہیں بدلیں،بین الاقوامی برادری کہیں بائيکاٹ نہ کر دے اس تصور سے جان نہیں نکلی بلکہ انتہائی عزم،یقین اور اعتماد کے ساتھ دبئی حکومت نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ " چونکہ ہمارے ملک میں گھس کر حماس کے ایک رہنما کو قتل کیا گيا ہے اور تحقیقات کے بعد اب یہ شک یقین میں بدل چکا ہے کہ اس کاروائي کے پیچھے موساد اور اسرائیلی وزیر اعظم کا براہ راست ہاتھ تھا لہذا یہودیوں کا داخلہ آج سے اس ملک میں بند کیا جاتا ہے اور یہی نہیں بلکہ ہم اقوام متحدہ سے درخواست کرتے ہیں کہ محمود المبحوح کے قتل میں ملوث بن یامین اور موساد کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا جائے ۔یہ ہے قانون کی حکمرانی،دینی غیرت اور اپنے ملک سے محبت۔
خبر کا کوڈ : 21968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش