4
0
Monday 14 Jan 2013 19:52

گرتی لاشیں، زبردست طاقت لیکن عدم تشدد ۔۔ ایسے ہوتے ہیں علی (ع) کے نوکر!

گرتی لاشیں، زبردست طاقت لیکن عدم تشدد ۔۔ ایسے ہوتے ہیں علی (ع) کے نوکر!
تحریر: سردار تنور حیدر بلوچ 
 
دنیا میں جنگ جیتنا تو آسان ہے لیکن امن کے ذریعے فتح حاصل کرنا اس سے کہیں مشکل ہے۔ یہ وہ کارنامہ ہے جو علمدار روڈ کوئٹہ پر ایک سو کے قریب اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کر ہزارہ شیعہ قبائل نے انجام دیا ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں ہر روز زخم کھانے والے شہر کوئٹہ کے شہداء کے پاک لہو کا اثر تھا کہ لندن سے لیکر سپر مارکیٹ اسلام آباد تک اور شمالی علاقہ جات اور کرم ایجنسی کی وادیوں سے لیکر پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے سمندر کے ساحل تک ہر آنکھ اشکبار تھی اور دل رنج و غم سے مخمور تھے۔ راولپنڈی کے دس روزہ نو زائیدہ بچے سمیت پاکستان کے باضمیر پیر و جوان اور مرد و زن گھروں سے اس طرح باہر نکلے کہ ملک کی ہر شاہراہ اور چھوٹے بڑے راستے کو علمدار روڈ بنا دیا۔ پاکستان کی فضاء کوئٹہ یکجہتی کونسل کی تائید اور حمایت میں لبیک یاحسین (ع) کے نعروں سے گونجتی رہی۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے کھل کر ملت مظلوم پاکستان کے درد کو اپنا دکھ قرار دیا اور لاہور، اسلام آباد، ملتان، کراچی اور کوئٹہ میں پرامن احتجاج میں شامل ہو کر ہزارہ مظلوموں کے مطالبات کی تائید کی۔

جس وقت پاکستانی میڈیا رپورٹ کر رہا تھا کہ پورے ملک کے چوک، چوراہوں، سڑکوں اور شاہراہوں پر شیعہ سنی بچے، خواتین، جوان اور بزرگ کوئٹہ میں ہونے والی بربریت پر احتجاج کر رہے ہیں اور تمام سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیات اور دانشوروں سمیت سول سوسائٹی دھرنوں میں شریک ہے، عین اسی وقت قاتل تکفیری گروہ لشکر جھنگوی کا سرغنہ ملک اسحاق کراچی میں دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی راہنماوں کے ساتھ مل کر دہشت گرد جماعت سپاہ صحابہ کے جلسے میں بلا روک ٹوک قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج کر رہا تھا کہ کوئٹہ میں صرف ایک جھلک دکھلائی گئی ہے اور میں نے اپنا دفتر بند نہیں کیا اور سب جانتے ہیں کہ میں تقریر کا فن تو نہیں جانتا لیکن جو (قتل و غارت گری کا) فن میں جانتا ہوں، وہ مجھے بھولا نہیں اور اب دنیا دیکھے گی کہ پاکستان میں میدان لگے گا تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی۔
 
لیکن شہدا ء کے مقدس لہو کا کیسا اثر ہے کہ جس وقت اپنی تقریر کے دوران ملک اسحاق سپاہ صحابہ کے جلسے میں بندوقیں لہرا کر کافر کافر کے نعرے لگوا رہا تھا، اس وقت گورنر ہاوس لاہور کے سامنے جماعت اسلامی کے منور حسن، کھاریاں میں لیاقت بلوچ، کوئٹہ میں تحریک انصاف کے عمران خان، ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی اور کراچی میں جماعت اسلامی کے محمد حسین محنتی سمیت تمام چھوٹے بڑے شہروں میں شیعہ سنی راہنما ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر امت مسلمہ کے جسد واحد ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔

پاکستان کی تاریخ نے پہلی بار ایسا دیکھا ہے کہ ایک سو سے زائد لاشیں سامنے پڑی ہیں اور کوئٹہ میں ملت تشیع کی مائیں، بہنیں اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی میتیں سامنے رکھ کر رو رہی ہیں۔ ان کی تائید اور حمایت میں قریہ قریہ اور شہر شہر شیعہ خواتین اور مرد اپنے بچوں کو ساتھ لیکر سخت سردی میں سڑکوں پر اس طرح بیٹھے ہیں کہ جیسے شہداء کی لاشیں کوئٹہ میں نہیں بلکہ پاکستان کے ہر شہر اور ہر بستی میں ان مظاہرین کے سامنے رکھی ہوں اور ہر جگہ ویسا ہی دکھ اور غم و غصے کا سماں ہو، جیسا کوئٹہ میں۔ لیکن چار دنوں میں کہیں بھی نہ کوئی پتہ ٹوٹا نہ کسی کو نقصان پہنچایا گیا، بلکہ دنیا کو یہ فرق سمجھایا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان سے ہمیں ایسی محبت ہے اور یہ اسکے جلوے ہیں کہ احتجاج اپنی جگہ پوری استقامت کے ساتھ جاری ہے، لیکن یہ وطن مقدس امانت بھی اور ہماری ذمہ داری بھی۔

1980ء میں علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت میں وفاقی سیکریٹیریٹ کے سامنے کامیاب احتجاج کے بعد اس پرامن لیکن پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین احتجاج کے ذریعے ملت تشیع پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس وطن کی خاطر اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے تو پیش کرسکتے ہیں لیکن ہمارے دیس میں امن و انصاف کی جگہ دہشت اور انتہا پسندی کا راج ہو، یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے، کیونکہ دین اور وطن کی حفاظت ہر مسلمان کا دینی فریضہ بھی اور قومی ذمہ داری بھی۔ زمانے کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملت تشیع کے فرزند اگر عدم تشدد کے راستے پہ چلتے ہوئے وقت کے فرعون کو دو دن میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو بالکل اسی شان و شوکت کے ساتھ وطن کی سلامتی کی خاطر امریکی، اسرائیلی اور بھارت نواز تکفیری دہشت گردوں کے خلاف قیام بھی کرسکتے ہیں۔ سانحہء کوئٹہ کے موقع پر پورے ملک میں دھرنے اور مظاہرے دراصل پاکستان کے عزاداروں اور امام حسین (ع) کے شیعہ سنی پیروکاروں کا پیغام ہے تکفیری دہشت گردوں کے نام، کہ اب کوئی نیا میدان نہیں لگے گا، میدان تو چودہ سو سال سے لگا ہوا ہے، لیکن مسلمان دین اور وطن کے وجود کی خاطر عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہو کر ملک توڑنے کے راستے پر کبھی نہیں چلیں گے۔
 
اسلام اور دین کی خاطر اس وقت کا استعمار تو ہمہ وقت اپنی سازشوں میں مصروف ہے ہی، لیکن پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی پر چڑھائی کرنے والا یزید کا لشکر واپس نہیں گیا، بلکہ چودہ سو سال سے اس کا ظلم و بر بریت جاری و ساری ہے، اور تکفیری دہشت گردوں کی یہ فوج آج بھی عالم اسلام کو تاراج کر ر ہی ہے، لیکن پوری دنیا کی طرح پاکستان کے کونے کونے میں حسینی (ع) فوج کے جوان بھی موجود ہیں اور بی بی زینب (س) بنت علی (ع) کی پیروکار مستورات بھی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یزید کی سپاہ انسانیت کے ہر اصول سے عاری ہے اور حسینی (ع) لشکر کے شانے پہ اسلام اور انسانیت کی اقدار کی بھاری ذمہ داری ہے۔ تکفیری دہشت گردوں کا ہتھیار بارود، دھماکے، قتل وغارت اور تخریب کاری ہے، لیکن شیعہ سنی حسینی (ع) مظلومین کی مجبوری امن، عدم تشدد، قانون اور رواداری ہے۔

اسلام کے حقیقی پیروکار جانتے ہیں کہ اسلام پہلے دن سے خانوادہء نبوت کے احسانات کا ممنون ہے، اسی لیے تو علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
 اسلام کے دامن بس دو ہی تو چیزیں ہیں 
اک ضرب یدااللہیٰ، ایک سجدہ شبیری
جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے زور بازو سے مولائے خیبر شکن نے اسلام کے وجود کی حفاظت کی، اسی طرح آج بھی عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان حیدری جوانوں کے دلیری اور استقامت کے بل بوتے پر باقی ہے۔ جس طرح اسلام مال خدیجہ (س) کا قرض دار ہے، اسی طرح تخلیق پاکستان سے آج تک اہلبیت (ع) کے پیروکاروں کا سرمایہ وطن کے استحکام کی ضمانت ہے۔ جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت بی بی فاطمہ(س) اور حضرت محسن (ع) کی شہادت کے باجود مولا علی (ع) نے خون جگر پی کرسکوت اختیار فرما کر اسلام کے وجود کی حفاظت کی، بالکل ایسے ہی علمدار روڈ کوئٹہ پر چھیاسی جنازے اپنے سامنے رکھ کر عدم تشدد کے ذریعے ہی احتجاج کا راستہ اختیار کرکے وطن کی بقاء کی جنگ میں بے مثال کا میابی حاصل کرکے پاکستان کے شیعہ ہزارہ مظلومین نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسے ہوتے ہیں علی (ع) کے نوکر۔ ولایت کے پیروکاروں کی یہ استقامت اعلان کر رہی ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب شاہ خیبر شکن کے حقیقی وارث (ع) اپنے نانا (ص) کی فوج لیکر دوبارہ لوٹیں گے، نہ صرف حق کا بول بالا ہوگا بلکہ کربلا سے لیکر علمدار روڈ کوئٹہ تک تمام شہداء کے قاتلوں کے سر قلم کیے جائیں گے اور مومنین کے قلوب تسکین پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 231210
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

معذرت کے ساتھ۔

یہ شعر کچھ یوں ہے کہ

اسلام کے دامن میں بس اسکے سوا کیا ہے؟
اک ضربِ ید اللٰہی، اک سجدہءشبیری!

اور یہ علامہ اقبال کا نہیں، وقار انبالوی کا شعر ہے۔
United States
Really there is no word to explain anything for this great victory of humanity and Muslims, but i want to say that:
SHIA SUNNI BHAI BHAI
DUSHMAN KI SHAMAT AAI.
Salam Ya Hussain!
ملت تشیع پاکستان کو سلام
اور صرف اتنا کہوں گا یاد رکھیں اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
millat ne is me 2 kamyabian hasil ki hen 1 dakhli or ak kharji,kharji ye ke is ne queta ke ak firhon ko sarnugoon kia or poori dunya me apni taqat ka loa manwaya or dakhli ye ke tamam ahzab o groups ko aps men akhta kr dia he
منتخب
ہماری پیشکش