10
0
Thursday 21 Mar 2013 14:23

اونٹ یا اونٹنی؟

اونٹ یا اونٹنی؟
تحریر: عون علوی
aownalavi@yahoo.com 
 
سرزمین عراق کا ایک باسی شام کی سرحدوں پر اپنے اونٹ پر بیٹھ کر کہیں جا رہا تھا۔ ایسے میں اس نے دور سے شامی فوج کو آتے دیکھا۔ وہ فوج ایک خون آشام جنگ سے واپس آرہی تھی۔ آہستہ آہستہ فوج اس عراقی کے نزدیک پہنچی۔ شامی فوج صفین کے میدان میں عراقی افواج کے ہاتھوں زخم تو کھا ہی چکی تھی، ایک شامی نے آگے بڑھ کر اس عراقی کا اونٹ چھین لیا۔ عراقی نے امیر شام کے دربار میں اونٹ کے غصب کی شکایت کی۔ اس نے جب کہا کہ شامی فوجی نے اس کا اونٹ ہتھیا لیا ہے تو شامی نے کہا کہ وہ اونٹنی اس کی اپنی ہے۔ حاکم شام نے گواہ طلب کئے تو شامی نے پچاس گواہ فراہم کئے، سب نے یہی گواہی دی کہ اونٹنی شامی فوجی کی ہی ہے۔ امیر شام نے فیصلہ شامی کے حق میں دے دیا اور کہا کہ تمام شواہد کی روشنی میں اونٹنی شامی کی ہی ہے۔
عراقی سراپا احتجاج ہوا اور اس نے کہا اے امیر یہ اونٹی نہیں اونٹ ہے جو کہ میرا ہے۔ امیر شام نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ فیصلہ تو ہوچکا لہذا خاموش ہو جاؤ۔ عراقی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا اور ناچار واپس چلا گیا۔ کچھ دیر بعد امیر شام نے اسے اپنے دربار میں بلایا اور کہا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ وہ اونٹنی نہیں اونٹ تھا۔ میں تمہیں اس اونٹ کی دو برابر قیمت ادا کرتا ہوں۔ جب عراق واپس جاؤ تو علی (ع) کو میرا یہ پیغام دینا کہ میرے پاس ایسے ایک لاکھ سپاہی ہیں جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں کرسکتے۔ میں نے بدھ کے روز اس لشکر کو نماز جمعہ پڑھائی اور کسی نے اعتراض تک نہ کیا۔ میں اسی لشکر کے ساتھ علی (ع) کے ساتھ جنگ کروں گا۔
واضح رہے کہ جنگ صفین کے دوران معاویہ نے بدھ کو یہ کہہ کر نماز جمعہ پڑھا دی کہ ہم جنگ پر جا رہے ہیں اور جمعہ کو ہمارے پاس وقت نہیں ہوگا، لہذا آج ہی نماز جمعہ ادا کر لیتے ہیں۔ اس کے لشکریوں نے بغیر کسی چون و چرا کے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی۔

جی ہاں! شخصیت پرستی انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ وہ انسان سے قوت فکر چھین لیتی ہے۔ محبوب شخصیت نے جو کہہ دیا، شخصیت پرست انسان آنکھیں بند کرکے اسے تسلیم کر لیتا ہے۔ وہ افکار کو حق اور باطل کی کسوٹی پر نہیں پرکھتا۔ اس کے نزدیک حق و باطل کا معیار شخصیت رہ جاتا ہے، بلکہ اس میں حق و باطل کو پرکھنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ سوچنا چھوڑ دیتا ہے۔ اگر اس کی پسندیدہ شخصیت رات کو دن اور دن کو رات کہے تو وہ سمعاً و طاعتاً کہہ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔

شخصیت پرست انسان اونٹ اور اونٹنی کے درمیان فرق کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر وہ کبھی سوچتا بھی ہے اور کسی نتیجے پر بھی پہنچتا ہے اور اس کی پسندیدہ شخصیت مخالف رائے دے دیتی ہے تو بھی وہ بغیر چون و چرا کے اس کی رائے کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اندھی تقلید میں وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ اس کے سامنے اگر بدیھی ترین چیزوں کا بھی انکار کر دیا جائے تو وہ احتجاج نہیں کرتا۔ دین میں تحریف بھی کی جائے تو اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ نماز سے بسم اللہ نکالی جائے یا بدھ کو جمعہ پڑھا جائے، لشکر اسلام پر فرات کا پانی بند کیا جائے یا عمار جیسے جلیل القدر صحابی کو قتل کیا جائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

جب شخصیت پرست انسان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ تمہاری پسندیدہ شخصیت کا فلاں قول یا فعل فلاں آیت قرآنی یا فرمان معصوم (ع) سے ٹکراتا ہے یا فلاں مسلم عقلی قانون کے مخالف ہے تو وہ قرآنی آیات اور معصومین (ع) کے فرمان تک کی تاویل کرنے لگتا ہے۔ یہ تاویل بھی اس کی اپنی نہیں ہوتی، کیونکہ وہ خود تو کچھ سوچتا ہی نہیں۔ وہ تو ایک کیسٹ کی مانند ہوتا ہے جس پر جو ریکارڈ کر دیا جائے وہ اس سے ہٹ کر کچھ نہیں بولتی۔ لہذا اگر کہا جائے کہ نبی (ص) کی حدیث ہے کہ عمار(رض) کو باغی گروہ قتل کرے گا۔ تو وہ تاویل پر اتر آتا ہے۔ جو تاویل اسے رٹائی جاتی ہے وہی بیان کرنے لگتا ہے۔ کہتا ہے عمار (رض) کو علی (ع) جنگ کے لئے لائے ہیں، لہذا علی (ع) ہی اس کے قاتل ہیں۔

نظام امامت و ولایت کو شخصیت پرستی نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ شخصیت پرستی کا نتیجہ تھا کہ جب اہل شام کو اطلاع ملی کہ علی (ع) مسجد میں شہید کر دیئے گئے ہیں تو انہیں تعجب ہوا کہ علی (ع) اور مسجد! کیا علی (ع) نماز بھی پڑھتے تھے؟ بہت سارے لوگوں نے صرف اس لئے کربلا میں امام حسین (ع) کا ساتھ نہیں دیا کہ ان کے قبیلے کا سردار امام عالی مقام (ع) کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ آج بھی کئی لوگ رہبر معظم کے فرامین کی تو تاویل کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنی پسندیدہ شخصیات کے بیانات پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔

شخصیت پرستی کا ناسور ہمارے ملک میں بھائی سے بھائی کو لڑا رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ہم ایک ہی دین کے پیروکار ہیں، ایک ہی کتاب کے ماننے والے ہیں، آئمہ اثنا عشر (ع) کی امامت کے قائل ہیں، ولایت فقیہ پر عقیدہ رکھتے ہیں، دن رات ولی فقیہ کا نام لیتے نہیں تھکتے، لیکن آپس میں دست و گریباں ہیں۔ کیوں؟ کیا ہم میں نظریاتی اختلاف ہے؟ نہیں! صرف شخصیت پرستی ہے جو ہماری قوم کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور ہمیں ایک نہیں ہونے دے رہی! اگر ہم شخصیت پرستی کے مرض میں اسی طرح مبتلا رہے تو وہ دن دور نہیں کہ ہم اونٹ اور اونٹی میں تمیز کرنے کی صلاحیت بھی کھو دیں۔
خبر کا کوڈ : 248096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Aown Bhai kia baat hai.....! Bohat piyara nihayat shandar aur nihayat eham masla jis ne Dunya ko kia kia barbadi nahi di??? Dil se likha hoa sach pe mabni article hai. Hamaien Shakhsiyat parasti ko chourna ho ga aur Haqiqat parasti ko apna kr Haqt Parast ban,na ho ga. Afsos ki baat hai keh ba,z loag jin ko ba,z logon ne afzaliyat khudsakhta di hoi hai woh is marz me buri tarhan giraftaar hain.
Mohammad wasim Ali.
United States
احسنت، عون بھائی بھت اچھا آرٹیکل ہے، خدا آپ کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے ۔ واقعاً ہمیں حق پرست بننا چاہیے نہ کہ شخصیت پرست ۔ بفرمان مولا علی (ع): اعرف الحق تعرف اھلہ
Best Mashalah. ......Shakast parsti shirk e khafi ki eik shakal hai
Iran, Islamic Republic of
شہرت کمانے کا آسان اور سستا طریقہ آج کل یہ ہے کہ آغا جواد نقوی صاحب پر تنقید کی جائے اور ان کے شاگردوں کو شخصیت پرست کہا جائے۔
Iran, Islamic Republic of
نکتہ۔۔۔آج بھی کئی لوگ رہبر معظم کے فرامین کی تو تاویل کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنی پسندیدہ شخصیات کے بیانات پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
United States
بھائی جان کالم میں کہاں آغا جواد یا ان کے شاگردوں کا نام لیا گیا ہے۔ آپ کو اپنی داڑھی میں تنکا کیوں نظر آرہا ہے؟
Europe
بھائی جان میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ پاکستان میں شخصیت پرستی بہت زیادہ ہے، کچھ لوگ اسی وجہ سے بدنام ہوگئے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ خود شخصیت پرست ہیں، لیکن دوسروں کو بہت واعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اپنے اعمال و کردار پر نظرثانی کا موقع فراہم کر کے ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عنایت فرمائے۔
United States
کیا خوبصورت جملہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے :
آج بھی کئی لوگ رہبر معظم کے فرامین کی تو تاویل کرتے نظر آتے ہیں لیکن اپنی پسندیدہ شخصیات کے بیانات پر نظرثانی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔
Zabar dast bhai jan kia bat hay
اے کاش آپ اپنا جائزہ لیتے تو یہ راز کھلتا کہ آپ بھی افسوسناک شخص پرستی کے شکار ہیں۔ کسی ملک کے مخصوص حالات کے لئے وضع کیا گیا سیاسی نظریہ کیسے ایمانیات میں شمار ہوسکتا ہے۔
ولایت فقیہ کا سیاسی نظریہ پیش کرنے والے اس کی تا ئید میں کوئی آیت پیش کرسکے ہیں نہ کوئی صحیح روایت۔
ویسے بھی یہ بحث ایران سے باہر غیر متعلقہ ہے۔ البتہ اگر کوئی اس کا علمی جائزہ لے تو پتہ چلے گا کہ ادھر بھی اونٹنی کو اونٹ بنانے کی مثال صادق آتی ہے۔
متعلقہ خبر
ہماری پیشکش