3
0
Tuesday 30 Apr 2013 23:29

پیپلز پارٹی کی یتیمی!

پیپلز پارٹی کی یتیمی!
تحریر: ابن آدم راجپوت

عام انتخابات کی انتخابی مہم تو کوئی شک نہیں کہ جاری ہے مگر اس گہما گہمی میں پیپلز پارٹی جیسی کسمپرسی کسی دوسری جماعت کی نہیں ہے۔ پاکستان میں عوامی جمہوری نظام کے بانی اور 1973ء کے متفقہ آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاءالحق کی حکومت کے دوران پھانسی کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ مگر پاکستان کی دو بار وزیراعظم رہنے والی خاتون لیڈر کی 27 دسمبر 2007ء کو بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد عملی طور پر پارٹی قیادت ان کے شوہر آصف علی زرداری کے ہاتھوں میں آئی۔ مگر جو حشر پیپلز پارٹی کی تنظیم کا انہوں نے کیا ہے، شاید اس کا ابھی تک کسی کو احساس نہیں ہوا۔ موصوف نے آتے ہی بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں کو سائیڈ لائن کرنا شروع کیا۔ مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کرنے کے بعد مکر گئے اور یوسف رضا گیلانی کے نام وزارت عظمٰی کا قرعہ نکلا۔ پھر آصف علی زرداری نے خود کو صدر مملکت بنوا لیا۔ اس سے اپنے مقدمات میں تو فائدہ حاصل کر لیا مگر خود اس وقت ایوان صدر میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

آصف علی زرداری کی سیاست تو مشہور ہے ہی، مگر اب جو صورت حال نظر آرہی ہے۔ اس میں کہیں نظر نہیں آرہا کہ پیپلز پارٹی کا قائد اور سرپرست کون ہے؟ ان دنوں ہر جماعت انتخابی مہم اپنے قائد کی قیادت میں چلا رہی ہے۔ مگر پیپلز پارٹی کا کوئی والی وارث ہے ہی نہیں۔ صدر آصف علی زرداری عدلیہ کی پابندی کے باعث انتخابی مہم نہیں چلاسکتے۔ بلاول بھٹو زرداری پاکستان پیپلز پاٹی کے سرپرست اور چیئرمین ہیں۔ مگر وہ بھی ابھی تک ایجنسیوں کی رپورٹس کے بعد ڈر کر بیٹھ گئے ہیں۔ کہ کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، بلکہ اب تو یہ بھی پتہ چلا کہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں یہ بھی نہیں بتایا جائے گا کہ وہ کہاں ہیں۔ تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی گم قیادت ہوگی تو اس سے عوام کی وابستگی اور رابطوں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے اور اسی طرح عوام کا ان کی طرف ردعمل اور محبت بھی ہوگی۔

24 سالہ بلاول بھٹو زرداری کہا جاتا تھا کہ انتخابی مہم چلائیں گے۔ بینظیر بھٹو کی تصویر ہوگا اور لوگ بہت motivate ہوں گے۔ مگر لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ذہنی طور پر تیار ہوچکی ہے کہ آئندہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہوگی اور وہ اپوزیشن بینچوں پر بیٹھیں گے۔ اسی لئے پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر مخدوم امین فہیم، سیکرٹری جنرل اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی بھی انتخابی مہم کے قومی منظر نامے پر کہیں نظر نہیں آرہے۔ ہر کوئی کارنر میٹنگز میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کے تمام رہنما اپنی اپنی نشستوں کو بچانے میں مصروف ہیں۔ مگر کوئی بڑا جلسہ منعقد نہیں کر رہے۔ تاکہ عوام میں ایک جوش و جذبہ پیدا ہو۔ اس سے پیپلز پارٹی جیسی مضبوط تنظیم اب لگتا ہے کہ یتیم ہوگئی ہے اور جو اس کے وارث ہیں، وہ بھی نااہل نکلے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل اور جیالوں کی پہچان سینیٹر جہانگیر بدر کو پارٹی کی اندرونی سیاست نے اتنا زیادہ مایوس کیا ہے کہ وہ سینیٹ میں قائد ایوان کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ ان کی جگہ بابو نما سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کو سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا ہے۔ جو آئینی ماہر تو اچھے ہوں گے مگر لیڈر نہیں، کسی طور پر نظر نہیں آتے کہ انتخابی مہم کو چلا سکتے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے نتائج کیسے نکلیں گے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی عدم موجودگی میں ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سیاسی معاملات دیکھتی ہیں، مگر وہ نہ اپنے طور پر فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور نہ ہی مقرر کہ جن کی طرف پاکستانی عوام لپک کر آئیں گے اور ان کی شخصیت سے متاثر ہوکر الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں گے۔

پنجاب میں انتخابی مہم باقی تین صوبوں کے مقابلے میں بہتر جا رہی ہے۔ یہاں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان میڈیا میں اشتہارات اور جلسوں کے انعقاد کے حوالے سے خوب مقابلہ بازی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی تصویر تو الیکشن میں استعمال کر رہی ہے، جبکہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح جلسوں سے خطاب نہیں کر رہے۔ دہشت گردی کے ساتھ جلسے نہ کرنے کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گذشتہ پانچ سالوں میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی شرمندگی کی وجہ سے اب لوگوں سامنا نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ عوام پوچھتے ہیں کہ مہنگائی میں کمی ہوئی نہ لوگوں کو روزگار مل سکا۔ لوگوں کو سی این جی ملی اور نہ پٹرول سستا ہوا۔ جس سے عوام کو ذلت و خواری کے سوا کچھ میسر نہیں آیا تو کیسا جلسہ اور کیسی انتخابی مہم؟
خبر کا کوڈ : 259500
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

کل
اسلامی تحریک کا پیپلز پارٹی سے اتحاد، دانشمندانہ فیصلہ!
تحریر: ابن آدم راجپوت
Sunday 21 April 2013 10:15

آج
پیپلز پارٹی کی یتیمی!
تحریر: ابن آدم راجپوت
Tuesday 30 April 2013 22:59

شکر ہے دیر آید درست آید
United States
ppp ka intakaal ho chuka hai 11 may ko dafnanay ka eelaan ho ga.
اسلامی تحریک کا پیپلز پارٹی سے اتحاد، دانشمندانہ فیصلہ!
اور پیپلز پارٹی کی یتیمی! میں موازنہ کرنے والے کی ذہانت پر ماتم کرنا چاہیئے۔ اسلامی تحریک کے اتحاد ہونے اور پی پی پی کی انتخابی مہم نہ چلنے میں فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری پیشکش