0
Tuesday 1 Oct 2013 00:55

بارہ سالہ معصوم فلسطینی بچہ محمد الدرہ، مزاحمت اور یکجہتی کا نشان

بارہ سالہ معصوم فلسطینی بچہ محمد الدرہ، مزاحمت اور یکجہتی کا نشان
تحریر: صابر کربلائی 
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان، ریسرچ سکالر)


ایک بارہ سالہ معصوم فلسطینی بچے محمد الدرہ کی درد ناک داستان ہے جسے سننے کے بعد ہر انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے، یوں تو دیکھا جائے تو اسرائیلی تاریخ معصوم بچوں کے قتل سے بھری پڑی ہے لیکن شہید محمد الدرہ کی شہادت ایک عظیم داستان رکھتی ہے اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس شہید کی شہادت کو براہ راست کیمرے میں فلمایا گیا ہے۔ یہ محمد الدرہ ہے جس کی عمر بارہ سال ہے، 30 ستمبر 2000ء کی بات ہے یہ فلسطینی تحریک آزادی کے لئے شروع ہونیو الے دوسرے انتفاضہ کا دوسرا روز تھا کہ محمد الدرہ اور اس کے والد جمال الدرہ جو کہ نہتے تھے لیکن غاصب صیہونی اسرائیلی فوجیوں نے دونوں باپ بیٹوں کو غزہ میں بیہمانہ انداز میں قتل کر دیا، اتفاق کی بات ہے کہ اس وقت انتفاضہ کی تحریک کو فلمانے کے لئے فرانس ٹو کا ایک فرلانس کیمرہ مین طلال ابو رحمہ موجود تھا اور پورے واقعہ کو اس نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر کے رہتی دنیا تک غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خطرناک عزائم اور بد نما چہرے کو عیاں کر دیا۔ واضح رہے کہ اس حادثے میں محمد الدرہ کے والد زخمی ہوئے تھے۔ 

30 ستمبر 2000ء میں شہید ہونے والا معصوم فلسطین بچہ تو دار فانی سے کوچ کر گیا لیکن فلسطین اور حریت پسندوں کے لئے مزاحمت کا راستہ چھوڑ گیا اور خود بھی مزاحمت کا نشان بن گیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی محمد الدرہ شہید کو فلسطینی مزاحمت کا ایک نشان سمجھتے ہیں جس نے اسرائیلی درندوں کی خطرناک بندوقوں کی گولیوں کو اپنے سینے پر اس خاموشی سے برداشت کر لیا کہ چیخ بھی نہ سکا یا شاید اس کو درد محسوس ہی نہ ہوا ہو۔ شہید الدرہ کی شہادت کا واقعہ فلم کے مطابق اس طرح ہے کہ غاصب صیہونی فوجی وحشیانہ فائرنگ کر رہے ہیں جبکہ محمد الدرہ زور زور سے روتا ہوا اپنے والد کی گود میں چھپنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس معصوم بچے کو کیا خبر کہ کبوتر اگر آنکھیں بند بھی کر لے تو بلی اسے کھا ہی جاتی ہے، اور پھر معصوم بچے کو پے در پے کئی گولیاں لگیں جو اس کے جسم میں پیوست ہوتی چلی گئیں، فلم میں دکھایا گیا ہے کہ محمد الدرہ جو کہ شاید اسرائیلیوں کی پہلی ہی گولی سے شہید ہو چکا تھا اس کو بار بار اسرائیلیوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا او ر اس کا بےجان جسم گولیوں کے لگنے سے جھٹکے کھاتا ہوا صاف دیکھا جا سکتا تھا، اسی طرح اپنے بیٹے کو بچانے کے لئے جمال الدرہ کو دکھایا گیا ہے جو اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسرائیلیوں نے جمال الدرہ کو بھی نہ بخشا اور اس کے جسم میں بھی کئی گولیاں اتار دیں۔ 

محمد الدرہ شہید کے گھر والے ایک مہاجر کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں اور آج بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ شاید انہیں انصاف ملے، کیا اتنی بڑی دنیا میں کہ جہاں انصاف کے نام پر عالمی ادارے قائم ہیں جہاں انصاف کے نام پر ہزاروں تنظیمیں بنا دی جاتی ہیں، کیا کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم پوری دنیا میں موجود نہیں ہے جو بارہ سالہ معصوم بچے محمد الدرہ کی شہادت اور اس کے والد کی شہادت پر ان کے گھر والوں کو انصاف فراہم کرے؟ کیا دنیا سے انصاف کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو محمد الدرہ کی والدہ آج بھی پوری دنیا کے سامنے اٹھا رہی ہیں، وہ ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ ان کے بارہ سالہ کمسن بچے کا کیا قصور تھا کہ اسرائیلی فوجیوں نے بےدردی سے قتل کر دیا؟ کیا محمد الدر ہ کا قصور یہ تھا کہ وہ فلسطینی بچہ تھا؟ اگر وہ امریکی یا اسرائیلی بچہ ہوتا تو دنیا میں کہرام مچا دیا جاتا، لیکن کیونکہ وہ ایک فلسطین بچہ تھا اس لئے دنیا اسے بھول گئی ہے۔
 
شہید محمد الدرہ کی والدہ کہتی ہیں کہ میں اس دن اپنے گھر میں تھی اور مجھے علم تھا کہ محمد اپنے والد کے ہمراہ باہر گیا ہے، میرے لئے یہ کافی پریشان کن بات تھی کہ وہ دوپہر گزر جانے کے بعد تک گھر نہیں لوٹے تھے، اور ہم سن رہے تھے کہ اسی روز اسرائیلیوں نے کافی لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا تھا، عین اسی وقت میری آنٹی ہمارے گھر پہنچی، میں ٹی وی دیکھ رہی تھی، میں نے ٹی وی پر ایک تصویر دیکھی اور کہا یا اللہ خیر، یہ بچہ میرے بیٹے محمد سے کتنی مشابہت رکھتا ہے، میری خالہ نے کہا کہ اٹھو تمھیں نماز ادا کرنی چاہیئے نماز کا وقت ہو چکا ہے، میں نے نماز بھی ختم نہ کی تھی کہ کوئی ہمارا دروازہ بہت زور زور سے پیٹ رہا تھا، میں نے جا کر دروازہ کھولا اور دیکھا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا شاید میرے خوف سے وہ ڈر کر بھاگ گئے ہوں، اس کے بعد پھر کسی نے دوبارہ دروازے پر دستک دی تو میں نے جلدی سے کھول دیا اور دیکھا تو باہر گلی میں کافی سارے لوگ جمع تھے اور کہہ رہے تھے کہ شاید جمال الدرہ اسرائیلی فوجیوں کی گولیوں سے زخمی ہو گئے ہیں۔

والدہ کہتی ہیں ابھی بھی میرے دماغ میں اپنے بیٹے محمد کی شہادت کا خیال نہیں تھا، میں اندر جا کر رونے لگی، اتنی دیر میں کافی لوگ گھر میں جمع ہو گئے اور تدفین کے لئے انتظامات کرنے لگے جیسے ہمارے گھر میں کوئی انتقال کر گیا ہو، بہت سے لوگ گھر میں جمع تھے اور اچانک ان میں سے کسی ایک نے مجھ سے کہا ’’ محمد شہید ہو گیا ہے‘‘۔ اس وقت میرے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ میرے بیٹے کو گھر لایا جا رہا تھا اور سب لوگ گھر میں جمع تھے اور انتظار کر رہے تھے۔ اچانک میں نے پوچھا کہ محمد کے والد کہاں ہیں؟ کسی نے کچھ جواب نہ دیا، کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ میرا شوہر کہاں ہیں حتیٰ رات کو دس بجے میں نے ٹی وی اسکرین پر اپنے بیٹے کی شہادت کی فوٹیج دیکھی لیکن میں نہ دیکھ سکی اور ٹی وی بند کر دیا گیا، اس کے بعد میں نے وہ ویڈیو اس وقت تک نہیں دیکھی جب میں اردن میں اپنے شوہر کو دیکھنے کے لئے گئی جو کہ کافی سنجیدہ حالت میں زیرعلاج تھے، ام محمد کہتی ہیں غزہ واپس آنے کے بعد میں روزانہ وہ ویڈیو جس میں میرے بیٹے کو اسرائیلی فوجی شہید کر رہے ہیں دیکھا کرتی تھی اور اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک فرانس کی عدالت نے فیصلہ نہ سنا دیا اور اسرائیلی فوجیوں کو مجرم ٹھہرایا گیا۔ شہید کی ماں کہتی ہیں اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمارے بیٹے کو شہید قرار دیا اور مجھے شہید فرزند کی ماں قرار دیا، مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے کہ وہ ظلم کے مقابلے میں مزاحمت کا نشان ہے۔ 

بارہ سالہ معصوم فلسطینی بچے کے والد جمال الدرہ کہتے ہیں کہ افسوس کی بات ہے کہ کسی فلسطینی اعلیٰ عہدیدار نے میرے بیٹے کے قتل کے حوالے سے اسرائیل کے خلاف لڑے جانے والے کیس میں مدد نہیں کی، ان کا کہنا ہے کہ یہ میرا ذاتی کیس نہیں بلکہ یہ فلسطینیوں کے حقوق اور فلسطینی بچوں کے حقوق کا مسئلہ ہے، محمد الدرہ شہید صرف میرا بیٹا نہیں بلکہ سرزمین فلسطین کا بیٹا تھا، اور وہ ان سب کے لئے مزاحمت کا نشان ہے جو مظلوم بنا دئیے گئے ہیں۔ شہید محمد الدرہ کا بھائی ایاد کہتا ہے کہ میں اس وقت چودہ برس کا تھا اور میں نے کبھی زندگی میں کسی معصوم بچے کو براہ راست ٹی وی پر گولیوں کا نشانہ بنتے نہیں دیکھا تھا جس طرح میں نے اپنے بارہ سالہ بھائی محمد کو دیکھا، محمد اس روز اپنے والد کے ساتھ کار خریدنے کے لئے گھر سے نکلا تھا لیکن راستے میں ہی اسرائیلی بھیڑیوں نے اسے اپنی سفاکیت کا نشانہ بنا ڈالا۔ 

محمد الدرہ کی شہادت کے بعد پوری دنیا میں یکم اکتوبر کو فلسطینی بچوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے، امید ہے کہ بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی عالمی تنطیمیں ایسے اقدامات ضرور کریں گی جس کے باعث مزید فلسطینی بچوں کا مستقبل سیاہ نہ ہو اور وہ زندگی کی بہاروں سے لطف اندوز ہو سکیں، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ غاصب صیہونی اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں اور عہد کریں نشان مزاحمت شہید محمد الدرہ کے ساتھ کہ شہید کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا اور فلسطین جلد آزاد ہو گا اور پوری دنیا سے قافلے القدس میں پہنچ کر نماز ادا کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 306965
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش