0
Saturday 26 Oct 2013 15:15

ایران کا جوہری پروگرام اور اسرائیل کی نفسیاتی جنگ

ایران کا جوہری پروگرام اور اسرائیل کی نفسیاتی جنگ
اسلام ٹائمز- اسرائیل کی جانب سے وسیع پیمانے پر انجام پانے والی نفسیاتی جنگ اور منفی پروپیگنڈے نے ایران کے جوہری پروگرام پر سایہ ڈال رکھا ہے اور ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق ایران اور عالمی برادری میں انجام پانے والے مذاکرات کے مطلوبہ نتائج کے حصول میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ صہیونیستی لابیز کی جانب سے عالمی میڈیا پر اپنا اثرورسوخ جما کر آغاز کی گئی ہے۔ صہیونیستی لابیز عالمی میڈیا کے ذریعے دنیا کی رائے عامہ اور سیاستدانوں کو ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے خلاف اکسا رہی ہیں اور دنیا والوں کو ایران سے خوفزدہ کر کے ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق جاری مذاکرات کے نتیجہ خیز ثابت ہونے کو تقریبا ناممکن بنا دیا جائے۔ 

نفسیاتی جنگ یا Psychological War کی مختلف تعریفیں پیش کی گئی ہیں جن کا بغور جائزہ لینے کے بعد تین قسم کے نکتہ نظر سامنے آتے ہیں: پہلے نکتہ نظر کے مطابق نفسیاتی جنگ سے مراد ایک ملک کی جانب سے ایسے اقدامات ہیں جن کا مقصد فوجی، سیاسی اور اقتصادی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لائے بغیر دوسرے ملک کی عوام اور حکومت کے اعتقادات، افکار اور رویوں پر اثرانداز ہونا ہے۔ اس نکتہ نظر کے مطابق نفسیاتی جنگ کی بنیاد اور حقیقی عنصر پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔ 
 
دوسرے نکتہ نظر کے مطابق نفسیاتی جنگ ایسے وسیع تر اقدامات پر مشتمل ہے جن میں قتل و غارت اور شدت پسندی بھی شامل ہے تاکہ مدمقابل کو مرعوب کیا جا سکے اور وہ اپنے رویوں میں بنیادی تبدیلیاں ایجاد کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اس نکتہ نظر کے حامی خفیہ سرگرمیوں جیسے جاسوسی، بغاوت، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کی مختلف اقسام کو نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ 
 
تیسرے نکتہ نظر کی رو سے نفسیاتی جنگ برین واشنگ اور ہیپناٹزم جیسے حربوں پر مشتمل عمل ہے جس کا مقصد افراد کی شخصیت اور ان کے دماغ پر قبضہ اور تسلط جمانا ہے۔ لیکن سیاسی ماہرین کی نظر میں "نفسیاتی جنگ" کی کامل اور مختصر تعریف کچھ یوں ہے:
"نفسیاتی جنگ کا مطلب ایک یا چند میڈیا چینلز کے ذریعے عوام کے عقائد میں بنیادی تبدیلی ایجاد کرنا ہے"۔
بعض ماہرین نے نفسیاتی جنگ کے بارے میں پیش کی جانے والی مختلف تعریفوں کا خلاصہ یوں بیان کیا ہے:
"نفسیاتی جنگ افواہیں پھیلانا، شدید دباو والی فضا ایجاد کرنا، اپنے نکات ضعف اور دشمن کے نکات قوت کو چھوٹا کر کے پیش کرنا جبکہ دشمن کے نکات ضعف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا جیسے اقدامات پر مشتمل عمل ہے"۔ 
 
اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے دن سے ہی ایران کو خطے اور دنیا میں اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور اپنی پوری طاقت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہر قسم کی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اسرائیل خطے میں تنہا ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے ہمیشہ سے اس خوف کا شکار رہا ہے کہ کہیں خطے کے دوسرے ممالک بھی جوہری طاقت میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ لہذا اسرائیل کی پوری کوشش رہی ہے کہ خطے کے ممالک خاص طور پر ایران کے جوہری پروگرام میں مسلسل رکاوٹیں ایجاد کرتا رہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اسرائیل اور صہیونیستی لابیز نے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف انتہائی وسیع پیمانے پر زہرآلود پروپیگنڈے کی مہم اور نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اس پروپیگنڈے کے چند واضح نمونے ایران پر جوہری اسلحہ تیار کرنے کی کوشش کا جھوٹا الزام، ایران کے جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ اور انہیں قتل کی دھمکیاں، امریکہ اور یورپ میں صہیونیستی لابیز کی جانب سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے فوجی مقاصد کی خاطر ہونے کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ اور دیگر اقدامات کی شکل میں قابل مشاہدہ ہیں۔ 
 
گذشتہ چند سالوں کے دوران ایران اور 5 + 1 گروپ کے درمیان جوہری مذاکرات کا سلسلہ شروع ہے۔ اس گروپ میں چین، روس، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکا شامل ہیں۔ ان مذاکرات کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ کا پرامن راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے ایران کی جوہری سرگرمیوں کو غیرقابل اعتماد ظاہر کئے جانے کے سبب اب تک یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ ان مذاکرات کی ناکامی میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور بین الاقوامی صہیونیستی لابی کی خفیہ سرگرمیاں انتہائی بنیادی کردار کی حامل رہی ہیں۔ ان خفیہ سرگرمیوں کا مقصد ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ اور دنیا میں ایران فوبیا پھیلانا ہے۔ یہ نفسیاتی جنگ اور زہریلا پروپیگنڈہ ایران کے ساتھ عالمی طاقتوں کی ہر مذاکراتی نشست سے پہلے شروع ہوتا ہے، مذاکرات کے دوران جاری رہتا ہے اور مذاکرات ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔ اس صہیونیستی سازش کا سب سے بنیادی مقصد ایران پر سیاسی اور اقتصادی دباو ڈال کر اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرنا ہے اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو رہے تو فورا مذاکرات کو بے نتیجہ ختم کر دیتے ہیں۔ 
 
درحقیقت اس نفسیاتی جنگ کا سب سے اہم حصہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے انجام پاتا ہے جس کے دوران جھوٹے دعوے مطرح کرنے، حقیقت کو برعکس ظاہر کرنے اور حقیقت کے ایک چھوٹے حصے کو پوری حقیقت کے طور پر ظاہر کرنے جیسے ہتھکنڈوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ مدمقابل کو شدید سیاسی دباو کا شکار کیا جائے اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جائے۔ نفسیاتی جنگ کے ماہرین عالمی رائے عامہ کے نزدیک حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور انہیں غیرواقعی معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اصل حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عالمی میڈیا پر چھائی صہیونیستی لابی اس قدر مہارت سے جھوٹ بولتی ہے اور حقائق کو الٹا کر کے ظاہر کرتی ہے کہ عام افراد تو درکنار، سیاسی ماہرین کیلئے یہ تشخیص دینا مشکل ہو جاتی ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟
 
غیرمسلح جنگ یا سرد جنگ کا ایک انتہائی اہم شعبہ میڈیا اور انٹیلی جنس وار جانا جاتا ہے جو درحقیقت نفسیاتی جنگ کا ہی حصہ ہے۔ جو ملک نفسیاتی جنگ کا ہتھکنڈہ بروئے کار لاتا ہے وہ درحقیقت فوجی جنگ کے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتا ہے اور کم اخراجات کے ساتھ اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ نفسیاتی جنگ کا بنیادی مقصد رائے عامہ پر تسلط پیدا کر کے انہیں اپنی مرضی کی سمت میں گائیڈ کرنا ہے تاکہ اس طریقے سے مدمقابل کو شدید سیاسی دباو کا شکار کیا جا سکے۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ نفسیاتی جنگ مذاکرات کے کمرے سے باہر ہی انجام پا رہی ہو بلکہ بعض اوقات ممکن ہے دوطرفہ یا چندطرفہ مذاکرات کے دوران ہی کسی فریق کی جانب سے نفسیاتی جنگ کے ہتھکنڈے اپنائے جائیں۔ نفسیاتی جنگ کی بنیاد پروپیگنڈے اور شورشرابے پر استوار ہے۔ اس قسم کی جنگ کا اہم ترین ہتھکنڈہ پروپیگنڈہ ہے اور اصل میں نفسیاتی جنگ کی بنیاد پروپیگنڈہ ہی ہے۔ 
 
بین الاقوامی سطح پر انجام پانے والے کسی بھی قسم کے مذاکرات کے بارے میں شروع ہونے والی نفسیاتی جنگ کا اصلی مقصد مدمقابل مذاکراتی ٹیم پر اپنے مرضی ٹھونسنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات مدمقابل مذاکراتی ٹیم پر سیاسی دباو ڈالنے کیلئے قومی، نسلی اور حتی معاشرتی اختلافات پر مبنی ہتھکنڈے کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کے دوران مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ دعوی کیا ہے کہ ایرانی حکومت عوام پر اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کیلئے ایٹم بم کی مدد حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مغربی میڈیا کی جانب سے یہ دعوی پیش کئے جانے کا مقصد ایرانی حکومت اور ایرانی عوام کے درمیان جدائی اور فاصلہ ڈالنا ہے تاکہ اس طرح ایران کی مذاکراتی ٹیم پر سیاسی دباو بڑھایا جا سکے اور مذاکرات کے ذریعے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ 
 
کلی طور پر نفسیاتی جنگ تین قسم کی ہوتی ہے:
۱۔ ٹیکٹیکل (Tactical)،
۲۔ استحکامی (Consolidation) اور
۳۔ اسٹریٹجک (Strategic)۔
ٹیکٹیکل نفسیاتی جنگ کا زیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ مدمقابل کو ایسے اقدامات انجام دینے پر مجبور کر دیا جائے جس کا نتیجہ خود اس کے نقصان اور نفسیاتی جنگ انجام دینے والوں کے حق میں ظاہر ہو۔ اسٹریٹجک نفسیاتی جنگ درحقیقت ٹیکنیکل اور استحکامی نفسیاتی جنگ کے تسلسل کے طور پر اپنائی جاتی ہے۔ اسٹریٹجک نفسیاتی جنگ کے دوران مشترکہ مفادات کی حامل قوتوں کی پالیسیوں کا تعیین کیا جاتا ہے اور ان کی وضاحت کی جاتی ہے۔ اس کے بعد اپنی حامی قوتوں کو مضبوط بنانے اور مدمقابل قوتوں کے درمیان اختلافات اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ متحد قوتوں کے درمیان دوستی اور تعاون کو فروغ دینے اور دشمن قوتوں کے درمیان اختلافات کی شدت میں افزایش کے ساتھ ساتھ دشمن حکومت کے بنیادی ارکان پر حملہ اس قسم کی نفسیاتی جنگ کا اصلی مقصد جانا جاتا ہے۔ 
 
جب بھی دو ممالک کے درمیان شدید قسم کے سیاسی اختلافات رونما ہوتے ہیں تو اسٹریٹجک نفسیاتی جنگ سے بھرپور استفادہ کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی جنگ کی بہترین مثال ایران کے خلاف شدید اقتصادی پابندیوں کے سلسلے میں مغربی میڈیا کا بھاری پروپیگنڈہ اور مغربی ممالک کو ان پابندیوں میں ساتھ ملانے کی کوشش کے طور پر قابل مشاہدہ ہے۔ اس نفسیاتی جنگ کا اصلی مقصد ایرانی حکومت اور ایرانی عوام کے درمیان خلیج پیدا کرنا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی اور بین الاقوامی تعلقات یا International Relations کی وسعت میں اضافے کے نتیجے میں نفسیاتی جنگ کی اہمیت بھی دوچندان ہو چکی ہے اور آج کی دنیا میں سیاسی مذاکرات پر اثرانداز ہونے اور عوامی اعتقادات کو تبدیل کرنے کیلئے نفسیاتی جنگ کے حربوں کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سیاسی مذاکرات پر ایجاد ہونے والا دباو بالواسطہ طور پر مذاکرات کاروں کی جانب منتقل ہو جاتا ہے اور آخرکار ان عناصر پر آتا ہے جن کے مفادات ان مذاکرات سے جڑے ہوتے ہیں۔ سیاسی مذاکرات کے بارے میں آغاز کی جانے والی نفسیاتی جنگ کو مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ جیسے انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن، سیٹلائٹ، عوامی مظاہروں، عوامی اجتماعات، پوسٹرز، بینرز وغیرہ کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ 
 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو نفسیاتی جنگ مختلف ہتھکنڈوں جیسے مدمقابل مذاکراتی ٹیم کو اپنے اہداف سے دستبردار کرنے کیلئے اس پر براہ راست اثرانداز ہونے، حریف مذاکراتی ٹیم کو دباو کا شکار کرنے کیلئے رائے عامہ کی حمایت کے حصول یا مخالف ملک یا افراد پر نفسیاتی دباو ڈالنے کے ذریعے سیاسی مذاکرات کے عمل میں مطلوبہ اہداف کے حصول میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی مذاکرات پر اثرانداز ہونے کیلئے مختلف قسم کے طور طریقے اپنائے جاتے ہیں جیسے پروپیگنڈہ اور بین الاقوامی سطح پر افواہیں پھیلانا۔ یہ افواہیں مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی پھیلائی جا سکتی ہیں اور بعض ملکی عہدیداروں کے ذریعے بھی۔ اس کے علاوہ دوسرے ہتھکنڈے جیسے خبروں کی سنسرشپ، مذاکراتی ٹیم کو دھمکیاں دینا وغیرہ بھی بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ دھمکیوں کا راستہ مذاکرات پر اثرانداز ہونے کیلئے بدترین طریقہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور مدمقابل کی کامیابیوں کو کم اہمیت ظاہر کرنا، دھوکہ دہی سے کام لینا اور غلط معلومات فراہم کرنا بھی نفسیاتی جنگ کے ہتھکنڈے تصور کئے جاتے ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اور بین الاقوامی صہیونیستی لابی نے ایران اور مغربی ممالک کے درمیان انجام پانے والے جوہری مذاکرات پر اثرانداز ہونے کیلئے جو نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے اس کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:
 
1.    ایران کی مذاکراتی ٹیم کو دباو کا شکار کرنے کیلئے مطلوبہ رائے عامہ ہموار کرنا،

2.    مذاکرات کے ذریعے ایران کے مطالبات کو پورا ہونے سے روکنا اور رائے عامہ کو منحرف کرنا،

3.    ایران کے نئے اتحادی ممالک کو اس سے قریب ہونے سے روکنا،

4.    ایران کی حیثیت کو کمزور کرتے ہوئے اسے اپنے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کرنا،

5.    ایران کے اندر انٹی انقلاب عناصر کی حمایت کرنا،

6.    ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ انجام دینا اور یہ ظاہر کرنا کہ یہ پروگرام فوجی مقاصد کیلئے ہے۔ 
 
اس نفسیاتی جنگ کو صحیح طور پر سمجھنا ایران کی جانب سے جاری مذاکرات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ ہر قسم کی نفسیاتی جنگ کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے اجزاء، بروئے کار لائے گئے ہتھکنڈے، وسائل اور تمام پہلووں کا بغور جائزہ لیا جائے۔ آخر میں نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کرنے اور اسے بے اثر کرنے کے چند طریقے بیان کئے جا رہے ہیں۔ 
 
نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کیسے ممکن ہے؟
ہر قسم کی نفسیاتی جنگ کا مقابلہ کرنے کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے۔ 

1.    مذاکرات انجام دینے والے افراد کی جانب سے نفسیاتی جنگ سے مقابلے کیلئے مکمل طور پر ذہنی اور نفسیاتی آمادگی،

2.    نفسیاتی جنگ سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک طے شدہ موثر حکمت عملی کے مطابق عمل پیرا ہونا،

3.    رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنا: یہ انتہائی اہم نکتہ ہے۔ رائے عامہ کو اپنے نظریات و افکار کے ساتھ ہماہنگ کرنا انتہائی ضروری اور اس سے کسی صورت بھی چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ رائے عامہ جس کے پیچھے عوام قرار پا چکی ہوتی ہے کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کیلئے ایک سنہری موقع بھی بن سکتا ہے اور ایک انتہائی شدید خطرے میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے فتوے کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور انکے استعمال کو شرعی طور پر حرام قرار دیا ہے۔ یہی فتوا عالمی سطح پر اس سوچ کی پیدائش کا سبب بن سکتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے حصول کیلئے ہے۔ 

4.    ملک میں موجود دانشمند افراد کو مذاکراتی ٹیم سے مربوط کرنا اور انہیں مذاکراتی عمل میں اپنے ساتھ شامل کرنا۔ 

5.    دشمن کی نفسیاتی جنگ کا جواب نفسیاتی جنگ سے دینا اور دشمن کے منصوبوں کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے ان کے خلاف موثر اقدامات انجام دینا۔ مثال کے طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں "امن پسندی" کا نعرہ لگایا اور اکثر ممالک کی حمایت حاصل کرتے ہوئے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کو عالمی امن کیلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے گوشہ نشینی پر مجبور کر دیا۔ 
خبر کا کوڈ : 314424
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش