0
Sunday 26 Jan 2014 00:27

یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام

یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام
تحریر: ابو فجر

دہشت گردوں کیخلاف حالیہ آپریشن کے بعد ایک بحث چل نکلی ہے کہ پاکستانی حکومت کو ان ظالمان کیخلاف آپریشن کرنا چاہیئے یا نہیں، پاکستانیوں کی اکثریت اس حق میں ہے کہ فوری طور پر آپریشن شروع کر دیا جائے۔ اس اکثریت میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی شامل ہیں اور سول سوسائٹی بھی، یہاں تک کہ ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم پاکستان ایکس سروس مین ایسوسی ایشن نے بھی دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کا مطالبہ کر دیا ہے۔ پورے ملک سے اب آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ہیں ان آوازوں میں اتنی شدت آ گئی ہے کہ حکومت پہلی بار اس معاملے میں سنجیدہ دکھائی دے رہی ہے اور حکومتی وزراء کھلے عام اب طالبان کیخلاف بولنے کی ہمت کرنے لگ گئے ہیں۔

اس حوالے سے وزیراعظم نے بھی لوگوں کے ردعمل چیک کرنے کیلئے ٹویٹر پر ایک دو جملے ایسے لکھے ہیں جن سے وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ طالبان کے حامیان کیا ردعمل دکھاتے ہیں، خیر یہ تو ضمنی سی بات تھی اصل بات یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت نے طالبان کیخلاف سٹینڈ لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ نوبت آنا ہی تھی، آخر کوئی کب تک جنازے اٹھاتا رہتا، کب تک لاشیں دفناتے رہتے، کب تک میتوں پر بین کئے جاتے رہتے، ناحق خون کی اپنی تاثیر ہوتی ہے اور شہید کی موت ہمیشہ قوم کی حیات ہوا کرتی ہے۔ کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے لاہور اور لاہور سے پشاور تک خون آشام تاریخ ہے کہ رقم ہوتے ہوتے تھکنے کا نام ہی نہیں لیتی، آئے روز حملے، آئے روز بم دھماکے، آئے روز دہشت گردی، پاکستان تو جیسے میدان جنگ ہو۔

تقدیر کی بوڑھی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھے کہ لاشیں اٹھانے والے کندھے نہیں تھکے، دہشت گردوں کی بندوقیں خاموش ہو گئیں۔ گردنوں نے ایک بار پھر خنجر پر فتح حاصل کی، دہشت گرد نامراد ٹھہرے اور ناحق خون سربلند ہوا، قوم کو آج بھی فخر ہے کہ شہداء کی وارث ہے، پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں اور وطن کی سلامتی اور بقا کیلئے اس سلسلہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ جو قیام پاکستان کے وقت اس تحریک آزادی کے مخالف تھے، وہ آج دفاع پاکستان کے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں، جو قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے وہ آج اسی قائداعظم کے پاکستان کو باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں۔ اپنے مفادات کیلئے انہوں نے ہمیشہ وطن کی سالمیت کو قربان کیا ہے۔ روز اول سے ہی یہ پاکستان دشمنوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں۔ قوم متحد نہ ہوئی اور ان کا ناطقہ بند نہ کیا تو یہ اپنی عادت سے باز آنیوالے نہیں۔ ان کا باہمی اتحاد سے ہی سدباب کرنا ہو گا۔

جو جماعتیں اس وقت طالبان کی حامی ہیں ان میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) ہیں، ان میں جماعت اسلامی تو بڑھ چڑھ کر طالبان کی حمایت کر رہی ہے، تحریک انصاف میں گومگوں کی کیفیت ہے، کچھ طالبان کے حامی ہیں تو زیادہ طالبان کے مخالف، لاہور میں مجلس وحدت مسلمین کے دھرنے میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک ہوا، اس نے پہلی بار پی ٹی آئی کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ جس راستے پر چل رہے ہیں وہ مستقیم نہیں۔ مجلس وحدت اور آئی ایس او کے ان جوانوں کو سلام ہو، جنہوں نے چوہدری اعجاز اور عندلیب عباس کے طوطے اڑا دیئے۔ پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کو تو اپنی جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ وہ تو بھلا ہو ایم ڈبلیو ایم کی قیادت کا جس نے انتہائی مشکل سے نوجوانوں کو قابو کیا، ورنہ مشتعل نوجوانوں کے جذبات دیدنی تھے۔

ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کے ان جوانوں کے جذبات غلط بھی نہیں تھے۔ آخر کوئی کب تک لاشیں اٹھائے، ادھر لاشے پر لاشہ گر رہا ہے اور ادھر عمران خان طالبان کیساتھ ’’کچھ رعایت کرو‘‘ کی پالیسی پر کاربند ہیں۔ سیاست ایسے تو نہیں ہوا کرتی، سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت بن گئی ہے تو اس کو طالبان نے ووٹ نہیں دیئے، بلکہ عمران خان کی روشن خیالی کو دیکھتے ہوئے طالبان مخالفین نے ووٹ دیئے تھے کہ عمران خان اقتدار میں میں آ کر انہیں طالبان سے نجات دلائیں گے۔ انہیں یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آ کر طالبان کی وکیل بن جائے گی، بہرحال شیعہ نوجوانوں کے ردعمل نے پی ٹی آئی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس طرح دیگر طالبان کی حامی جماعتیں بھی اپنی اپنی پالیسی پر غور کر لیں اور اس کا سنجیدگی کیساتھ ازسرنو جائزہ لیں۔

جماعت اسلامی اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والی ایک دو چھوٹی چھوٹی مذہبی جماعتیں حکومت کو آپریشن سے باز رکھنے کیلئے بے پر کی اڑا کر قوم کو گمراہ کر رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ وزیرستان میں آپریشن کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ تاریخ میں جب بھی وزیرستان پر چڑھائی کرنے کا کسی نے سوچا، اسے عبرت ناک انجام سے دو چار ہونا پڑا، وزیرستان اور قبائلی علاقوں کو تو انگریز بھی فتح نہیں کر سکے تھے، یہ حکمران کس باغ کی مولی ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بنیاد پر دو چار مولوی ملک میں شور مچائے پھرتے ہیں۔ ان میں سب سے بلند آواز منور حسن صاحب کی ہے۔ راقم سید منور حسن صاحب سمیت دیگر ان کے ہم نواؤں سے دستہ بستہ ملتمس ہے کہ حضور آپ قوم کو گمراہ نہ کریں، علماء کا کام لوگوں کو روشن راستہ دکھانا ہوتا ہے، گمراہی کے اندھیروں میں لا پھینکنا نہیں ہوتا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن پٹھانوں کیخلاف نہیں ہو رہا بلکہ وہاں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ ان علاقوں میں ملکی و غیر ملکی دہشت گرد اور شدت پسند پناہ گزین ہیں۔ ان علاقوں میں ہونیوالے ڈرون حملوں میں بھی طالبان کے لیڈر ہی نشانہ بنے ہیں اور جن کو آپ بےگناہ اور معصوم شہری کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی تھی۔ تو ہماری فوج ان دہشت گردوں کیخلاف آپریشن کر رہی ہے، پختونوں کیخلاف نہیں، قوم کو گمراہ نہ کریں۔

سید منور حسن سمیت ان کے دیگر ہم نواؤں سے یہ بھی کہوں گا کہ حضور والا، ہماری فوج پاکستان کی فوج ہے، یہ ہماری اپنی فوج ہے، اس کے جوان ہمارے ہی بھائی بندے ہیں۔ وہ کبھی اپنے ہی ملک کیخلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ فوج ملک کے دفاع کیلئے ہوتی ہے ملک کی تباہی کیلئے نہیں، اس لئے فوج کے کردار کو داغدار کرنے کی پالیسی ترک کر دیں تو بہتر ہی ہو گا، آپ کی پالیسی سے فوج کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے، آپ نے فوج کے مورال کو ڈسٹرب کر دیا تو کل کلاں اگر آپ کا ازلی و نسلی دشمنی بھارت آپ پر چڑھائی کر دے تو آپ کا دفاع کس نے کرنا ہے؟ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن تو لاٹھیاں لے کر لڑنے سے رہے، یہ بھی صرف پنجاب یونیورسٹی میں ہی دہشت دکھا سکتے ہیں، یونیورسٹی سے باہر یہ بھی بھیگی بلی ہی ہوتے ہیں۔ انہوں نے انڈیا سے کیا لڑنا، تو وہاں یہی فوج ہی آپ کے کام آئے گی۔ 65ء اور 71ء کی جنگوں میں فوج نے ہی بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا تھا۔ اس لئے جانے دیں اور فوج کو بدنام نہ کریں۔ عوام تو سادہ ہیں جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں اسی عطار کے لونڈے کے پاس دوا لینے بھی پہنچ جاتے ہیں۔

قبلہ منور حسن صاحب! اللہ ایک بار پھر آپ کو جماعت کی امارت نصیب کرے جس کے چانس دکھائی بھی دے رہے ہیں، آپ قوم کو سیدھا راستہ دکھائیں۔ انہیں گمراہ نہیں کریں۔ قوم کو بتائیں کہ شمالی وزیرستان میں ہونے والا آپریشن دہشت گردوں کیخلاف ہے، ان طالبان کیخلاف ہے جو پاکستان کی رٹ کو تسلیم نہیں کرتے، جو پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ اس لئے فوج کو اس کا کام کرنے دیں۔ ملک سے دہشتگردی ختم ہونے دیں۔ اور اگر آپ نہیں چاہتے ہیں کہ ملک میں امن ہو تو کھل کر سامنے آ جائیں کہ آپ ہی دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ آپ نے ہی انہیں افرادی قوت فراہم کی ہے۔ آپ ہی کی دی ہوئی لائن پر وہ کارروائیاں کرتے ہیں تو بات بھی بنے، کھل کر سامنے آ جائیں، دوہرا معیار آپ جیسے جید عالم کو زیب نہیں دیتا۔ یہ سلسلہ درست نہیں، کھل کر ایک طرف ہو جائیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ
عجیب تیری سیاست، عجیب تیرا نظام
یزید سے بھی مراسم، حسین کو بھی سلام
خبر کا کوڈ : 345064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش