0
Saturday 15 Nov 2014 20:22

داعش، پرانے شکاری کا نیا جال

داعش، پرانے شکاری کا نیا جال
تحریر: تصور حسین شہزاد

داعش کے خوف کے بادل پاکستان پر بھی چھائے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ادھر لبنانی تنظیم حزب اللہ نے کہا ہے کہ دولت اسلامیہ عراق و شام خطے کے مسلمانوں کے لئے اسرائیل سے بڑا خطرہ ہے اور بعض عرب و مغربی ممالک شام میں جاری تنازع کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں تنظیم کے رہنما محمد فنیش نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ میں ان کے مقاصد مغربی طاقتوں سے مشترک ہیں۔ دوسری طرف شام کے علاقے کو بانی میں کرد جنگجو نے مرکزی شاہراہ پر حملہ کر کے داعش کی سپلائی لائن کاٹ دی۔ داعش نے شام میں سونا چاندی اور تانبے سے کرنسی سکے بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ داعش نے اپنے سربراہ ابوبکر البغدادی کی ہلاکت کی اطلاعات کے بعد ان کی آڈیو جاری کر دی ہے، ادھر عراق کے نائب صدر نوری المالکی نے کہا ہے کہ امریکیوں نے عراق کی سرزمین پر ناکامی کے بعد داعش اور النصرۃ کی صورت میں اپنی نئی سازش شروع کی۔ داعش کے نام سے شدت پسند تنظیم کے وجود نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا کے رکھ دیا ہے۔ 

اب اس کی چاپ شام و عراق سے نکل کر خلیج کے دیگر ممالک کے بعد پاکستان میں محسوس کی جا رہی ہے۔ جس کے بارے میں بہت زیادہ چوکس ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم تو دہشت گردی کے اژدھے کے ڈسے ہوئے ہیں اور تاحال اس کے ساتھ ہمارے سینگ اتنے بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم لاکھ کوشش کے باوجود ابھی تک اس عفریت سے جان چھڑانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے، حالانکہ اب تو ہماری فوج پوری طرح شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی لیکن شمالی وزیرستان سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ گزین دہشت گرد اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمیں افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان میں اس مسئلہ کی طرف بھی توجہ دلانا ہو گی کیوں کہ دونوں ملکوں میں قیام امن کے لئے دہشت گردی کا ہر سطح پر خاتمہ ناگزیر ہے اور اس کے لئے دونوں ہمسایہ ممالک کو زمینی حقائق کے مطابق ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لئے باہمی تعاون کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دولت اسلامیہ جیسی باوسائل دہشت گردی تنظیم تیزی سے اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ اب خود امریکی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ عراق و شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف کارروائیاں کسی حد تک نتیجہ خیز ثابت ہونے کے باوجود اس کی مزاحمت کے سامنے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک طویل اور مشکل مہم کا سامنا ہے۔

امریکی فورسز گذشتہ 3 ماہ سے داعش کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ امریکی صدر باراک اوباما دعویدار ہے کہ داعش کے عراق میں شدت پسندوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے جبکہ کچھ علاقوں میں جنگجوؤں کو پسپا بھی کیا گیا ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے فضائی حملوں نے تنظیم کے قائدین اور اس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم یہ مانے بنا چارہ نہیں کہ اب بھی عراق و شام کے بڑے حصے پر شدت پسند تنظیم داعش کا اثر و نفوذ باقی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق داعش کے پاس 31 ہزار جنگجو ہیں۔ جن کے مقابلے کے لئے عراق میں اس وقت 14 سو امریکی فوجی موجود ہیں۔ جبکہ مزید 1500 فوجی وہاں بھیجے جا رہے ہیں۔ لیکن تاحال عراق میں موجود امریکہ فوجی صرف مشاورتی اور تربیتی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ یہ الگ بات کہ داعش کے خلاف کارروائی پر امریکہ روزانہ 80 لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے ہی امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے یہ مہم جاری رکھنے کے لئے کانگریس سےمزید ساڑھے 5 ارب ڈالر جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔

دوسری طرف عراقی فوجیوں کی مدد کے علاوہ داعش کے خلاف کارروائی میں امریکی حکمت عملی کا اہم حصہ تنظیم کی مالی مدد کا خاتمہ کرنا ہے۔ اس وقت داعش مشرقی شام سے حاصل شدہ تیل کی فروخت سے روزانہ 10 لاکھ ڈالر کما رہی ہے جس سے اس کو بڑے پیمانے پر جدید ترین خطرناک تباہ کن ہتھیار خرید کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ اسی تناظر میں حزب اللہ لبنان نے داعش کو خطے کے مسلمانوں کے لئے اسرائیل سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ کیوں کہ داعش نے شام میں سونے چاندی اور تانبے سے کرنسی سکے بنانے کا عندیہ دے کر اپنی جگہ ایک باقاعدہ ریاست کے وجود میں آنے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ بھی ایک ایسی انتہا پسند ریاست جس کے کوئی حدود وقیود نہیں۔ کیوں کہ وہ پورے عالم اسلام کو خصوصاً اور ساری دنیا کو عموماً اپنے دائرہ عمل میں لانے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کے لئے اس کے شدت پسند لیڈر جس راستے پر گامزن ہیں وہ پوری دنیا کے لئے چیلنج ہے مگر مقام افسوس ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی آگ میں مسلمان ممالک کو جھونکنے والے خود ہی اس جلتی پر تیل بھی ڈالتے ہیں۔

اس ضمن میں عراقی نائب صدر نوری المالک کی یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ امریکیوں نے عراق کی سرزمین پر ناکامی کے بعد داعش اور النصرۃ کی صورت میں اپنی نئی سازش شروع کی ہے۔ کیوں کہ ہم خود اس تجربے سے گزر چکے ہیں کہ روس کی افغانستان میں مداخلت کے بعد جن جنگجوؤں کو امریکہ نے مجاہدین کہہ کر ان پر ڈالروں کی بارش کی تھی لیکن پھر ایک وقت میں یہی مجاہدین طالبان بن کر رونما ہوئے تو دہشت گرد قرار پائے اور ایک دہائی سے امریکہ انہیں تباہ کرنے کے لئے ہماری تباہی کا سامان کئے جا رہا ہے۔ دوسری طرف وہ ہم پر اعتبار بھی نہیں کر رہا الٹا اس کے ادارے پاکستان کو بدنام کرنے اور دفاعی حکمت عملی پر مجبور کئے دے رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس ساری صورت حال کو اس کے درست تناظر میں لے کر ٹھوس حفاظتی انتظامات نہ کئے تو پاکستان دشمن قوتوں کا نیا جال ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ خطرناک پھندہ ثابت ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 419661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش