0
Monday 28 Nov 2011 12:22

محرم الحرام کو پرامن گزارنے کیلئے شیعہ سنی متحد ہیں، خطرہ صرف دہشتگردی سے ہے، علامہ رمضان توقیر

محرم الحرام کو پرامن گزارنے کیلئے شیعہ سنی متحد ہیں، خطرہ صرف دہشتگردی سے ہے، علامہ رمضان توقیر
شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صدر اور ایم ایم اے دور حکومت کے مشیر وزیراعلٰی، علامہ رمضان توقیر کا بنیادی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، آپ نے 1954ء کو ڈی آئی خان کے گائوں حاجی مورہ میں مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے ہی حاصل کی، والدین کی بیٹے کو عالم دین بنانے کی خواہش پر آپ دینی تعلیم کے حصول کیلئے جامعتہ النجف کوٹلی امام حسین ع میں داخل ہوئے، اس کے بعد آپ نے اپنے گائوں میں کچھ عرصہ تک امام جمعہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، آپ کی حصول علم کی تشنگی بڑھتی گئی، جس کیلئے آپ انقلاب اسلامی ایران کے وقوع پذیر ہونے کے بعد قم مقدس تشریف لے گئے اور وہاں 6 سال تک تعلیم حاصل کی، زمانہ طالب علمی میں ہی ملت کی تحریکی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کرنا شروع کر دی، قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کے دور میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی ضلعی صدارت سے باقاعدہ خدمات کا آغاز کیا، اس کے بعد تحریک کی صوبائی نائب صدارت اور پھر 1993ء میں صوبائی صدارت کی ذمہ داریاں آپ کو سونپی گئیں، 4 سال بعد تحریک کے مرکزی رہنماء کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے، اس کے بعد آپ تحریک کے صوبائی صدر منتخب ہوئے اور تحریک جعفریہ اور پھر اسلامی تحریک پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے صوبائی صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے علامہ رمضان توقیر کیساتھ محرم الحرام، خیبر پختونخوا کے موجودہ حالات اور اہل تشیع کو درپیش مشکلات کے تناظر میں انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے استفادہ کیلئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز:علامہ صاحب، سب سے پہلے یہ بتایئے گا کہ محرم الحرام کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی جانب سے کئے گئے سکیورٹی انتظامات سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟ 
علامہ رمضان توقیر:بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ حکومت کی طرف سے پشاور، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان حساس ترین علاقے قرار دیئے گئے ہیں، جہاں تک بات شیعہ سنی کی ہے، تو الحمد اللہ یہ مسئلہ کہیں نہیں ہے، اس وقت پاکستان کو جو چیز تباہ و برباد کر رہی ہے وہ دہشتگردی ہے، دہشتگردی میں کوئی سنی شیعہ کا مسئلہ نہیں ہے، اہل سنت اور ان کی مساجد پر بھی خودکش حملے ہو رہے ہیں، اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں پر بھی خودکش حملے ہو رہے ہیں، شیعہ سنی متحد ہیں، 20 نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اہل سنت اور اہل تشیع نے ایک بہت بڑا مشترکہ پروگرام منعقد کیا تھا، دونوں مکاتب فکر کے سرکردہ افراد نے اس میں شرکت کی، میڈیا میں بھی اس کی بھرپور کوریج ہوئی، اس موقع پر اہل تشیع اور اہل سنت کی جانب سے پرعزم اعلان کیا گیا کہ ہم ملکر محرم الحرام کو بااحسن طریقہ سے منائیں گے، البتہ خطرہ دہشتگردی کا ہے، جو لوگ پاکستان، اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ان سے خطرات ضرور ہیں، اس کے لئے انتظامیہ بھی کوششیں کر رہی ہے اور ہم نے اپنے طور پر بھی اہل سنت اور اہل تشیع کے نوجوانوں کو انتظامات حوالے کئے ہیں، تاکہ دہشتگردوں کا راستہ روکا جا سکے۔

اسلام ٹائمز:خیبر پختونخوا میں محرم الحرام کے دوران فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لئے کیا آپ کی دیگر مکاتب فکر کے علماء کرام اور مذہبی رہنمائوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر:تقریباً پورے صوبے میں اکثر علماء کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے، ہنگو جو کہ حساس ترین علاقہ ہے اور وہاں کافی عرصہ سے کشیدگی پائی جاتی ہے، میری کوشش ہے کہ برادر محترم سینیٹر مولانا گل نصیب صاحب سے رابطہ کر کے ہم وہاں ایک پروگرام منعقد کریں، جہاں تک ڈیرہ اسماعیل خان کا تعلق ہے تو وہاں انتظامیہ کیساتھ میٹنگز جاری ہیں، ہمیں قوی امید ہے کہ انشاءاللہ سنی شیعہ کے حوالے سے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی، دہشتگرد جو سنی اور شیعہ دونوں کے دشمن ہیں، ان کا راستہ انشاءاللہ ہم مل جل کر روکیں گے اور محرم الحرام کو پرامن طریقہ سے منائیں گے۔

اسلام ٹائمز:پاکستان میں شیعہ علماء کونسل کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین اور دیگر شیعہ تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہیں، آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا محرم الحرام کے حوالے سے آپ کی تنظیم کے دیگر شیعہ تنظیموں کے رہنمائوں سے بھی رابطے ہوئے ہیں۔؟
علامہ رمضان توقیر:بالکل جی، ہمارے ان کے ساتھ رابطے ہیں، تنظیمیں بننا کوئی عیب نہیں ہے، اختلاف نظر حسن ہوتا ہے اس سے ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں، البتہ کشیدگی، انتشار اور ایک دوسرے کے پائوں کھینچنا اچھی بات نہیں ہوتی، ہمارے مجلس وحدت مسلمین کے دوستوں کے ساتھ بھی روابط اور ملنا جلنا ہے، کوئٹہ میں 28 اکتوبر کو ہم نے مشترکہ پروگرام کیا، ہم وہاں اکٹھے تھے، شہداء کے گھر ہم اکھٹے گئے، رابطے ہیں، انشاءاللہ آگے بھی ایک دوسرے سے تعاون رہے گا۔

اسلام ٹائمز:پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ ادوار میں اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات پیش آئے، اس حوالے سے مقدمات کی موجودہ پوزیشن کیا ہے اور کیا انتظامیہ کی جانب سے کسی قسم کا تعاون کیا گیا۔؟
علامہ رمضان توقیر:جو ہمارے مشترکہ دشمن ہیں ان کے آلہ کار بن کر کچھ نادان دوستوں نے ٹارگٹ کلنگ جیسی حرکات کی ہیں، اکثر ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عدالتوں سے ہٹ کر اپنے طور پر جرگوں کے ذریعے فیصلے کئے جائیں، اکثر واقعات میں ہم فیصلے کر چکے ہیں اور آئندہ بھی ہمارا یہی پروگرام ہے، کیونکہ خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ سلسلہ زیادہ تھا، اس حوالے سے انتظامیہ اور ڈی آئی جی سطح تک ہماری بات چیت ہو چکی ہے کہ ہم مل جل کر آئندہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھیں۔

اسلام ٹائمز:خیبر پختونخوا میں گزشتہ چند سالوں کے مقابلہ میں امن و امان کی صورتحال اب قدر بہتر ہے، دہشتگردی کے واقعات پر بعض مذہبی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ اس عمل میں امریکی ایجنسیاں ملوث ہیں، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر:ساری دہشتگردی امریکہ کی پیداوار ہے، امریکہ نے روس کو نیچا دکھانے کیلئے طالبان بنائے، آج بھی امریکہ کا ان لوگوں کیساتھ رابطہ ہے، یہ سب ڈرامہ ہے، ان لوگوں نے پاکستان کو تباہ کیا ہوا ہے، ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا پاکستانی حکمرانوں کو عقل اور غیرت دے کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں تو نہ دہشتگردی ہو گی اور نہ ہی کوئی مشکلات ہوں گی، یہ تمام تر مسائل امریکہ کی غلامی کے اثرات ہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ کی اطلاعات کے مطابق پارا چنار کی موجودہ صورتحال کیسی ہے اور کیا حال ہی میں ہونے والے امن معاہدہ کے کوئی مثبت نتائج برآمد ہو سکیں گے یا پھر ماضی کی طرح اہل تشیع آبادی ایک بار پھر محصور اور راستے بند رہیں گے۔؟
علامہ رمضان توقیر:مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ بہتری آئے گی، پارا چنار کے علماء اور عمائدین نے صبروتحمل اور پاکستان سے وفاداری کا مظاہرہ کیا، سالہا سال راستے بند رہے، پاراچنار کے اہل تشیع کو دوسرے ملک سے ہو کر اپنے ملک کے دیگر حصوں میں آنا پڑا، یعنی 7 گھنٹے کے سفر کو انہیں 7 دنوں میں طے کرنا پڑا، لیکن انہوں نے کوئی ایسا کردار ادا نہیں کیا جو پاکستان کی کمزوری کا باعث بنے، ہم پاک فوج او ر پولیٹیکل انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پاراچنار کے لوگوں کو پاکستانی ہونے کے ناطے زندگی کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں، پارا چنار کے لوگ بیدار اور پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور وہ اچھے انداز میں معاملات کو ڈیل کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز:آپ کے خیال میں پاراچنار کے حالات خراب کرنے میں کس کا کردار ہے۔؟
علامہ رمضان توقیر:پاراچنار کے حالات خراب کرنے میں حکومت کا کردار ہے، حکومت اگر ٹھیک ہو تو کوئی مسئلہ اور مشکل نہیں، اس کے علاوہ بیرونی مداخلت بھی ہے، پارا چنار ایک ایسا خطہ ہے جہاں انقلاب ایران کے خیر خواہ موجود ہیں، امریکہ ہر اس جگہ پر حملہ کرے گا جو بلاتفریق سنی شیعہ ایران اور اسلام کے ساتھ وابستہ ہوں، جو لوگ اتحاد بین المسلمین کیلئے کام کر رہے ہوں، امریکہ ان کیلئے روڑے اٹکائے گا۔

اسلام ٹائمز:شیعہ رہنماء کی حیثیت سے آپ محرم الحرام کے موقع پر پاکستان کی ملت تشیع کو اتحاد و اتفاق کے حوالے سے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ رمضان توقیر:میں ملت تشیع خصوصاً علماء کرام کی خدمت میں نہایت دست بدستہ عرض اور اپیل کروں گا کہ آج پوری دنیا مشکلات کا شکار ہے، خصوصاً ملت تشیع اور سب سے زیادہ پاکستان کی ملت تشیع، اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت اور ایک دوسرے کا احترام کریں، اختلاف ہوتے رہتے ہیں، لیکن بہت سے کام ہیں جو کرنے ہیں، مختلف تنظیمیں بے شک بنیں لیکن کام کریں، ایک دوسرے کی ٹانگیں نہ کھینچیں، کسی کی کردار کشی نہ کریں، احترام اور باہمی اخوت و محبت کیساتھ رہیں، جب بھی ملت تشیع کی عزت و وقار کا مشترکہ مسئلہ درپیش آئے تو اس کو حل کرنے کیلئے اپنے اپنے پلیٹ فارم پر کوشاں رہیں۔

اسلام ٹائمز:امام حسین ع کی جانب سے اللہ تعالٰی کی راہ میں دی جانے والی عظیم ترین قربانی کے حوالے سے آپ کن خیالات کا اظہار کرنا چاہیں گے۔؟
علامہ رمضان توقیر:دیکھیں، امام حسین ع کی قربانی ایک ایسی لازوال قربانی او ر کامیابی ہے، جس کے متعلق امام بت شکن رہ نے فرمایا کہ تلوار پر خون کی کامیابی ہے، آج سے 14 سو سال پہلے یزید نے کامیابی کے جشن منائے تھے، لیکن امام حسین ع کا خون ایسا کامیاب ہوا کہ جب بھی کوئی مظلوم آواز اٹھاتا ہے تو وہ کربلا کو سامنے رکھ کر آواز اٹھاتا ہے اور خون کیساتھ کامیابی حاصل کرتا ہے، آج یزید ایک گالی بن چکا ہے اور خون ناحق کامیاب اور زندہ باد ہے اور انشاء اللہ تاقیامت زندہ باد رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 117685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش