1
0
Tuesday 16 Apr 2013 10:19

انتخابات کا بائیکاٹ مناسب نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے، علامہ عابد حسینی

انتخابات کا بائیکاٹ مناسب نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کا تعلق پاراچنار سے ہے۔ 1968ء میں گورنمنٹ کالج پاراچنار سے ریگولیر ایف ایس سی کے بعد والد مرحوم کی خواہش پر کالج چھوڑ کر مدرسہ میں داخلہ لیا، موصوف ہائی سکول سے لیکر مدرسہ جعفریہ، نجف اشرف اور پھر قم میں شہید حسینی کے بااعتماد ساتھیوں میں رہے۔ وطن لوٹنے کے بعد بھی سیاسی تحریکوں میں انکے بااعتماد ساتھی رہے۔ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل اور ایک طویل عرصہ تک آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے، 20 مارچ 1997ء کو سینیٹ کا ممبر منتخب ہوکر ایوان بالا میں شیعہ ملت کی نمائندگی کی۔ موصوف نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1980ء میں خواتین کے مدرسہ (دارالزھراء) کی بنیاد رکھی، جس سے اب تک سینکڑوں طالبات فارغ ہوکر ملک کے طول و عرض میں واقع مدارس دینیہ میں تدریس میں مصروف ہیں۔ اسکے علاوہ انہوں نے 1991ء میں طلباء کے لئے آیۃ اللہ خامنہ ای کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ 1999ء میں پاراچنار سٹی میں دارالزھراء کی ایک برانچ بھی کھولی ہے۔ ماضی میں ملکی سیاست میں کافی رول رہا، جبکہ اس وقت پاراچنار کی سیاست میں گہرا رول ہے۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ملک میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: انتخابات میں باقاعدہ طور پر حصہ لینے یا انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے حوالے سے آپ کی نظر کیا ہے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
انتخابات میں حصہ لینے سے کوئی بھی جمہوریت پسند انکار نہیں کرسکتا۔ جو بھی فرد، نسل، فرقہ یا تنظیم اپنے حقوق کا اصولوں اور قانون کے تحت دفاع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو اسے انتخابات سے گزر کر اسمبلیوں میں پہنچنا ہوگا اور وہاں جاکر ہی اپنے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کرسکیں گے، لہذا بندہ بائیکاٹ کے حق میں نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت اہل تشیع کی دونوں بڑی تنظیموں ایم ڈبلیو ایم اور شیعہ علماء کونسل کی جانب سے انتخابات کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، اس حوالے میں اپنی نظر بیان کریں۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
کسی جماعت یا باقاعدہ تنظیم کو تو چھوڑو، ہر فرد کو انفرادی طور پر بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی جماعت کے ساتھ مل کر یا اپنی ذاتی حیثیت سے آزادانہ الیکشن لڑیں۔ لہذا الیکشن میں حصہ لینا دونوں جماعتوں کا آئینی حق ہے۔ کسی کو کسی پر اس سلسلے میں اعتراض کا حق نہیں پہنچتا۔ 

اسلام ٹائمز: دونوں جماعتوں کے بیک وقت کسی ایک ہی حلقہ انتخاب سے الیکشن میں حصہ لینے کو آپ کیسا سمجھتے ہیں، اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
میں کون ہوتا ہوں، جو کسی چیز کو جائز یا ناجائز قرار دوں، تاہم اتنا کہوں گا کہ آئینی لحاظ سے تو دونوں کو حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی حلقے سے الیکشن لڑیں، ہاں حق رکھنے کے باوجود دونوں کا بیک وقت ایک ہی حلقے سے الیکشن لڑنا اپنی کمیونٹی کا مذاق اڑانا ہے۔ اس سے ایک تو آپس میں دوریاں اور نفرتیں بڑھ جائیں گی اور پھر وہ نفرتیں ایک عرصہ برقرار رہیں گی، جسکا ہمیں تجربہ ہے۔ پاراچنار میں 1997ء کے انتخابات اور پھر 2002ء کے انتخابات سے فضا بہت ہی آلودہ ہوگئی تھی، جو کافی عرصہ تک اسی آلودہ حالت میں برقرار رہی اور اسی کی وجہ سے اب ہم نے خود انتخابات ہی کو خیرباد کہہ دیا ہے، کیونکہ جب انتخابات سے فائدے کی بجائے علاقے کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اسے ترک کرنا ہی اولیٰ ہے۔ اسکے علاوہ ایک ہی حلقے سے دو امیدواروں کے انتخاب لڑنے سے مخالف امیدوار کو موقع ملے گا اور وہ آسانی سے کامیابی حاصل کرسکے گا۔ لہذا دونوں تنظیموں کو جذبات سے ہٹ کر نہایت ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرنا چاہئے۔ الیکشن کو کبھی بھی اپنی انا کا مسئلہ نہ بنائیں، بلکہ اپنے حقوق کے مستقبل کو ملحوظ خاطر رکھ کر مناسب فیصلہ کریں۔ 

اسلام ٹائمز: ایسی صورتحال میں جب ہر تنظیم اپنا امیدوار برقرار رکھنے پر مصر رہے اور کوئی بھی اپنا امیدوار بٹھانے پر آمادہ نہیں ہے، پھر آپ کیا مشورہ دینگے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
اس وقت میرا مشورہ یہ ہے کہ پھر یہ دیکھا جائے کہ اس انتخابی حلقے میں کس تنظیم کا ووٹ بینک زیادہ ہے، اور لوگ کس کو قبول کرتے ہیں۔ تو اسی کے امیدوار کو برقرار رکھا جائے، جبکہ دوسرا ودڈرا کرے۔ اسکے علاوہ اس طرح بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ہر تنظیم اپنا اپنا جلسہ کرائیں۔ جسکا جلسہ کامیاب ہو، صرف اسی کو تنہا الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ ایسا نہ ہو کہ کسی تنظیم کے اس علاقے میں صرف کابینہ کی حد تک دو چار افراد ہوں اور وہ الیکشن لڑنے پر مصر رہے۔ 

اسلام ٹائمز۔ کرم ایجنسی میں بھی اس وقت الیکشن کمپین زوروں پر ہے۔ آپ نے اپنی طرف سے کوئی امیدوار کھڑا کیا ہے؟ یا کسی امیدوار کی حمایت کر رہے ہیں۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
میں نے تو کافی عرصہ سے کرم میں ہونے والے الیکشن سے خود کو لاتعلق رکھا ہے۔ ہم نے پہلی مرتبہ 1990ء کے الیکشن میں ڈائریکٹ دلچسپی لی، اس وقت کرم ایجنسی کا ایک ہی حلقہ تھا اور یہاں سے کسی شیعہ امیدوار کا جیتنا بالکل ناممکن تھا۔ تو اس وقت ہمارے دوستوں نے بہت محنت کی اور انکی محنتوں سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے (طوری قوم کے) امیدوار سید یوسف حسین کو کامیابی ملی، مگر وہ بھی بعد میں قوم کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکے۔ تاہم یہاں تک تو ہوا کہ مخالف فریق کو شکست دینے میں ہم پہلی دفعہ کامیاب ہوگئے۔ پھر میں نے بذات خود اور ہمارے دوستوں نے ایک بار پھر 2002ء میں علامہ جواد ہادی کی حمایت کی، جو ایک مناسب امیدوار ہونے کے علاوہ عالم دین، بہترین مقرر اور ایک کامیاب سیاستدان تھے۔ لیکن بدقسمتی سے نسلی تعصب کو ہواد دے کر انکے خلاف اتنی نفرت پھیلائی گئی کہ ایک طرف تو خاص منصوبہ بندی کے تحت انہیں ہرایا گیا، جس میں باقاعدہ حکومت اور حکومت نواز قوتوں کی آشیر باد حاصل تھی، جبکہ دوسری جانب کرم ایجنسی میں نفرت کا ایسا بیج بو دیا گیا جسے ختم کرنا بہت مشکل ہوگیا۔ تاہم اس بیج کو ختم کرنے ہی کی نیت سے پھر ہم نے آئندہ الیکشن میں ڈائریکٹ حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ لہذا ہم صرف اسی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتے کہ اس سے فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ ڈائریکٹ تو الیکشن میں حصہ نہیں لے رہے تو موجودہ امیدواروں میں سے آپ کس امیدوار کو مناسب اور موزوں سمجھتے ہیں۔ آپ کی نظر میں کون یہاں کے حقوق کا بہتر انداز میں دفاع کرنے کے قابل ہے۔؟ 
عابد حسینی:
میرے خیال میں کرم ایجنسی سے کوئی ایسا امیدوار ہونا چاہئے جو فقط ایک فرد نہ ہو بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک ملت ہو اور یہ کہ وہ اپنی ذات میں ایک نظام یا ایک پارٹی ہو، ایسی جراتمند شخصیت ہو، جو ایوان میں پاراچنار کے مسائل کے لئے بلافاصلہ اور بلا تردد آواز اٹھا سکے۔ ایسی صفات کا حامل شخص میرے خیال میں فی الحال ہمارے پاس میسر نہیں، اور یہ کہ موجودہ تمام امیدوار ایسا کام شاید نہ کرسکیں۔ تاہم اب بہتر و بہترین کی بات چھوڑ کر مناسب کی بات پر آتے ہیں، تو عرض یہ ہے کہ کوئی فاتر العقل اور نہایت نامناسب امیدوار بھی خود کبھی یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ اسکا فلاں پہلو کمزور ہے، یا اسکے مقابلے میں فلاں امیدوار زیادہ مناسب ہے۔ 
اس سلسلے میں میرا مشورہ یہ ہے کہ کرم ایجنسی کے عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں، انہیں خود سوچنا چاہئے کہ کون انکے حقوق کا دفاع بہتر طریقے سے کرسکتا ہے۔ موجودہ تمام امیدوار کرم کے باشندے ہیں، سب انہیں جانتے ہیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ اس سلسلے میں میری ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ہمارے بہت سارے مسائل ہیں۔ ہم پورے طور پر دشمن کے محاصرے میں ہیں۔ ہمیں ایک ایسے امیدوار کی حمایت کرنا چاہئے جو پوری جرات کے ساتھ مقامی انتظامیہ کے ساتھ، صوبائی حکومت کے علاوہ مرکزی حکومت کے ساتھ بات کرسکے۔ کسی بہرے، گونگے کا انتخاب نہ کریں جو مسائل کو آگے لے جانے کی جرات ہی نہ کرسکتا ہو۔ 

اسلام ٹائمز۔ انتخابات کے حوالے سے پاکستانی عوام خصوصاً اہلیان کرم کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے۔؟ 
علامہ عابد حسینی:
پورے ملک کی عوام کو چاہئے کہ اپنے علاقے سے ایسے بندے منتخب کریں جنکا ماضی صاف ہو، انکے ہمدرد ہوں، اگر انکو ایسا کوئی مناسب بندہ نہیں ملتا تو زیادہ بروں میں سے کم برے کا انتخاب کریں۔ خصوصاً تکفیریوں کے مقابلے میں امن پسند، مہذب، محب وطن افراد کو چنیں، خواہ کسی دوسری پارٹی یا مکتب فکر کے افراد ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ علاقے کی عوام سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنی ضمیر کی آواز سنیں۔ فرقہ ورانہ اور نسل پرستانہ جذبات سے بالکل دور رہیں۔ کوئی جذباتی فیصلہ نہ کریں، کیونکہ ایک تو اب ہم ایسی چیزوں کے متحمل بھی نہیں ہوسکتے۔ ہم پر پانچ سال کیسے گزرے، ہم نے کتنی مصیبتیں جھیلیں۔ چنانچہ خود بغیر کسی تعصب کے فیصلہ کریں، سب کو اللہ تعالٰی نے عقل سلیم دی ہے، خود جانتے ہیں کہ کون مناسب ہے اور کون مناسب ترین۔ چنانچہ ووٹ ڈالتے وقت پورے اطمینان اور کھلے دماغ سے فیصلہ کریں، بعد میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں۔
خبر کا کوڈ : 254406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam ho is mardi mujahid pr, aur khoda is marde mujahid ka saya hamesha hamary saroon pr qaim rky.
q k sirf yahi aik mrd mujahd hai jo na kabi bikta hy na jukta hy
ہماری پیشکش