2
0
Friday 15 Mar 2013 23:25
قائد وہ جو ملت کو بحران سے نکالے

اہل تشیع کا قتل عام جاری رہا تو کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے، علامہ عابد الحسینی

اہل تشیع کا قتل عام جاری رہا تو کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے، علامہ عابد الحسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کا تعلق پاراچنار سے ہے۔ ہائی سکول سے لیکر مدرسہ جعفریہ، نجف اشرف اور پھر قم میں شہید حسینی کے مسلسل کلاس فیلو رہے۔ اسکے علاوہ سیاسی تحریک میں بھی انکے بااعتماد ساتھی  رہے۔ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل اور ایک طویل عرصہ تک آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے، 20 مارچ 1997ء کو سینیٹ کا ممبر منتخب ہوکر ایوان بالا میں شیعہ ملت کی نمائندگی کی۔ موصوف نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1980ء میں خواتین کے مدرسہ (دارالزھراء) کی بنیاد رکھی، جس سے اب تک سینکڑوں طالبات فارغ ہوکر ملک کے طول وعرض میں واقع مدارس دینیہ میں تدریس میں مصروف ہیں۔ اسکے علاوہ انہوں نے 1991ء میں طلباء کے لئے آیۃ اللہ خامنہ ای کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔ 1999ء میں پاراچنار سٹی میں دارالزھراء کی ایک برانچ بھی کھولی ہے۔ ماضی میں ملکی سیاست میں کافی رول رہا، جبکہ اس وقت پاراچنار کی سیاست میں گہرا رول ہے۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ملک کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، ملک میں اس وقت خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے، اس حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے، کس کو اسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، ملک میں آج کل جو صورتحال چل رہی ہے اس حوالے سے لوگوں کا یہی خیال ہے کہ لشکر جھنگوی یا طالبان ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ مگر میرا خیال اس سے کچھ مختلف ہے۔ دیکھیں جب تک صاحب اقتدار کی مدد شامل نہ ہو، تنہا طالبان یا لشکر جھنگوی کچھ نہیں کرسکتے۔ اس میں ہمارے ذمہ دار صاحب اقتدار ٹولے کا برابر ہاتھ ہے۔ ہماری حکومت سے لیکر فوج کے بعض متعصب افسران تک، سب اس میں شامل ہیں۔ اگرچہ فوج ایک مقدس ادارہ ہے، اس میں صحیح فرض شناس افراد بھی موجود ہیں، تاہم اسی کے اندر طالبان اور لشکر جھنگوی کے افراد بھی گھسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب حکومت ان کی زبردست حامی ہے، انکی کھلی چھٹی کی وجہ سے ہی یہ سارا کھیل جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے حکومت پر ان کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے، اگر حکومت کی مدد انکے شامل حال ہوتی تو خود حکومت کے اپنے افراد بھی تو برابر مر رہے ہیں، ایسا کیسے ممکن ہے؟
علامہ عابد حسینی:
میں نے کہا کہ حکومت میں اور اسی طرح فوج میں اچھے افراد بھی موجود ہیں۔ لیکن ان میں جو شرپسند ہیں یا شرپسندوں کے حامی ہیں، انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اپنے فوجیوں یا سرکاری افراد کو ماریں۔ وہ انکے بھائی بیٹے تھوڑے ہیں جو اس پر انکا دل دکھے، جبکہ حکومت کے اندر ایسے افراد کے ہونے کا اعتراف تو حکومت خود بھی کئی مرتبہ کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں کئی فوجی افسران کو پکڑا بھی گیا ہے، لیکن بیرونی تعاون حاصل ہونے اور خود اندر سے بڑوں کی سپورٹ حاصل ہونے کی وجہ سے اس ٹولے کو کھلی چھوٹ حاصل ہے، انکے حامی اندر بھی ہوجائیں تو فوراً رہا ہو جاتے ہیں، کوئی انہیں نہیں چھیڑ سکتا، کیونکہ انکے بیرونی آقاؤں کے ناراض ہونے کا امکان ہے، اور ہمارے قائدین کبھی اسکے متحمل نہیں ہوسکتے۔

اسلام ٹائمز: بیرونی آقاؤں سے آپ کی مراد امریکہ اور اسرائیل ہیں یا کوئی اور؟
علامہ عابد حسینی:
ہاں ایک حد تک تو یہ بھی شامل ہیں، مگر اس وقت پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس مشن کو جاری رکھنے میں امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی سعودی عرب ہے۔ اب مسلمان ممالک میں ایسے گھناؤنے امور سرانجام دینے کے لئے امریکہ کو خود دخل اندازی کی چندان ضرورت نہیں رہی، بلکہ ان کاموں کیلئے سعودی عرب تنہا ہی کافی ہے، اسے صرف امریکی ڈکٹیشن کی ضرورت ہے۔ آجکل دیکھیں شام، بحرین وغیرہ کی صورتحال، جہاں سعودی عرب کھلم کھلا مداخلت کر رہا ہے۔ لہذا ہمارے ہاں دہشتگردی کے جتنے بھی واقعات ہوتے ہیں، انکی ڈکٹیشن سعودی عرب سے ملتی ہے، جبکہ سعودی عرب کو ایسی ڈکٹیشن اپنے آقا امریکہ سے ملتی ہے۔
 
دوسری طرف ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک کے حکمران ایک طرف امریکہ کو ناراض نہیں کرسکتے اور انہیں نہ نہیں کہہ سکتے اور یہ کہ ملک کی سالمیت کو مزید خراب نہ کرو۔ اور دوسری طرف سعودی عرب کا ہمارے حکمرانوں پر اتنا اثر و رسوخ ہے کہ آج کل ہمارے لیڈران اپنی سیاست کا سرٹیفیکیٹ یا تو امریکہ سے حاصل کرتے ہیں یا سعودی عرب سے۔ آپ دیکھیں، پرویز مشرف، نواز شریف یا کوئی بھی ہو۔ وہ یہاں سے سلامتی کے ساتھ نکلنے اور پھر واپس پاکستان آنے کے لئے سعودی عرب ہی کی ضمانت حاصل کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ بات تو سب جانتے ہیں، جس کا اقرار پرائیویٹ چینلوں پر بھی ہوچکا ہے کہ سعودی عرب ہمارے ملک کے حالات کو خراب کر رہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے ڈر سے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آپ کیا تجاویز دیں گے۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہمارے حکمران جب تک آزاد نہیں ہو جاتے، جب تک غلامی کی زنجیروں کو توڑ نہیں ڈالتے، یہ حالات جوں کے توں رہیں گے۔ لیکن اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوسکتے ہیں، حکمرانوں کی خاموشی یا اس سے بھی بالاتر انکی مسلسل سرپرستی میں ہونے والے قتل عام سے ایک نیا حادثہ رونما ہونے کا زبردست اندیشہ ہے۔ وہ یہ کہ شیعہ قوم شاید خود ہی اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لئے قیام پر مجبور ہوجائے، اسکے بھی مختلف طریقے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ خود ہتھیار اٹھائیں، اور دہشتگردوں یا دہشتگردوں کے علی الاعلان اور خاموش حمایتیوں کا قلع قمع کر دیں، یا اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھائیں اور اپنی بقاء کیلئے کسی بیرونی ملک کی مدد طلب کریں، کیونکہ جب ایک انسان خود ڈوبنے لگتا ہے تو اسے اپنی ذات کے سوا اہل و عیال کی بھی فکر نہیں رہتی، یہ صورتحال بہت بھیانک ہوسکتی ہے۔ 

ایسی صورتحال میں یہ بھی ممکن ہے کہ خود اہل تشیع اور ملک میں پہلے سے موجود آزادی کی تحریک چلانے والے، سب اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں اور پاکستان سے اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کر دیں۔ یا پھر کسی اور ملک سے الحاق کا اعلان کر دیں۔ ایسی صورتحال میں پھر حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہوگی، کیونکہ اہل تشیع اس ملک کی کوئی معمولی آبادی نہیں بلکہ لگ بھگ 5 کروڑ افراد پر مشتمل ہیں، جو اس ملک کو مکمل جام کرسکتے ہیں۔ حکومت ایک وزیرستان کو سنبھال نہیں سکتی۔ فاٹا کو سنبھال نہیں سکتی۔ تو اس پانچ کروڑ آبادی کو کیسے کنٹرول کرسکے گی۔ لہذا یہ بات ملک کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ ہمارے سامنے بنگلہ دیش کی مثال موجود ہے۔ وہاں کی عوام بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار تھی۔ انکو انصاف نہیں مل رہا تھا تو انہوں نے ایک دشمن ملک کی مدد حاصل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا، کیونکہ انہیں ملک کے اندر رہ کر اپنی بقاء مشکل محسوس ہو رہی تھی۔
 
میرے خیال میں ملک کے صاحبان اختیار کو کسی طرح یہ سمجھانا نہایت ضروری ہے کہ اس سے پہلے کہ اہل تشیع خود میدان جنگ میں کود پڑیں، تم خود ہی اپنے آقاؤں کو اپنی مجبوری سے آگاہ کرو دو، کہ خدا را اب بس کرو۔ ہم مزید اندرونی خانہ جنگی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لہذا میرے خیال میں جب انکی توجہ آنے والے حالات کی طرف مبذول کرائی جائے تو ممکن ہے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی لاکر ملک کے حالات کو ٹھیک کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ خود اہل تشیع کی ذمہ دار تنظیموں کو بھی چاہئے کہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، جیسے انہوں نے حالیہ دنوں میں ملک گیر دھرنے دیئے اور پاکستان میں اپنے وجود کو منوایا ہے، اسی طرح آئندہ بھی میدان میں حاضر رہیں۔ عوام کے ساتھ ہمارے علماء کو بھی چاہئے کہ اپنے اختلافات کو بھلائیں، آپس میں مل بیٹھ کر اہل تشیع کے وجود کو ختم کرنے والی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
 
بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی ہم ان باتوں میں لگے ہوئے ہیں، یہ شخص فلاں گروپ کا ہے۔ فلاں قائد ہے، فلاں نہیں ہے۔ بابا چھوڑو، وہی قائد ہے جو اس ملت کو بحران سے نکال سکے، اور اب اگر میں خود یہ دعویٰ کروں کہ میں قائد ہوں یا حتٰی مجھے کوئی قائد کہے بھی، لیکن جب میں قوم کی کشتی کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا تو مجھے قائد کہنے سے کیا فائدہ۔ میں کسی کے خلاف بات نہیں کر رہا، بلکہ میرا یہ مقصد ہے کہ آج عوام کے لئے وہی قائد ہے، بلکہ میرا بھی وہی قائد ہے، جو اس مظلوم اور بے سہارا ملت کی کشتی پار کراسکے۔

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب، آپ ملک کی ایک موثر شخصیت ہیں۔ پاکستانی علماء کی اکثریت آپ کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ملک میں موجود مذھبی تنظیموں کو متحد کرنے میں آپ کیا رول ادا کرسکتے ہیں۔؟
علامہ عابد حسینی:
اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ میں ایک لحاظ سے ملکی سیاست سے بالکل الگ تھلگ بیٹھا ہوا ہوں، اسکے علاوہ پاراچنار میں اندرونی مسائل اتنے ہیں کہ متاسفانہ ملک کی صورتحال پر صرف احتجاجی مظاہرہ یا دھرنے کی حد تک مدد کرسکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کرم ایجنسی سے باہر جانے یا اندر آنے کے راستے بھی اجازت نہیں دے رہے۔ دشمن نے راستوں کا ایسا حال کر رکھا ہے، کئی دفعہ باہر جانے کا ارادہ کیا، مگر پاراچنار کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے بعض اپنے لوگوں نے ہی اس کی مخالفت کی ہے۔ تاہم اگر کچھ ایسے حالات نظر آئے اور ہمیں رول ادا کرنے کیلئے کہا گیا تو ہم ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: آنے والے انتخابات کے بعد اگر پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ نون کی حکومت بنتی ہے تو کیا دہشتگردی پر قابو پانے میں مسلم لیگ نون کامیاب ہوجائے گی، یا دہشتگردی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
اس حوالے سے میرا اپنا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت آنے پر شاید حالات ٹھیک ہوجائیں،کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کی تقریباً 54 فیصد آبادی پر مشتمل سب سے گنجان آباد صوبہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت کافی حد تک امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ دہشتگرد انکے اپنے ہی ہاتھ میں ہیں۔ لہذا انکی حکومت آجائے تو اپنی حکومت کو بدنامی سے بچانے کے لئے شاید وہ دہشتگردوں کو کسی بڑی آفر کے ذریعے قانع کرلیں، اور پانچ سال تک دہشتگردی روکنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اسکے علاوہ سعودی حکمران، جو نواز شریف کے رشتہ دار اور بڑے اتحادی ہیں، نواز شریف کی حکومت کو بدنامی سے بچانے اور اسکی حکومت کو سب اچھا کی سند عطا کرنے کی خاطر شاید اپنے وفادار دہشتگرد گروہوں سے کہیں کہ اب کچھ وقفہ کر لو، اور جب حکومت تبدیل ہوجائے تو پھر جو مرضی ہے کرنا۔
خبر کا کوڈ : 246799
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Alama Sahib ne Sachi batain ki hain.Allah Pak in ka saya hamaray saron pe kaim daim rakhay. Amin!
بزرگ علماء کو بھی انکی تقلید کرنی چاہئے۔
تکبر سے پٹ کر مثبت قدم اٹھا کر تمام علماء کو چاہئے کہ وہ ہر نیک اقدام کی حمایت کریں اگر حمایت کی توفق نہیں تو کم از کم مخالفت کی سیاست چھوڑیں۔
ہماری پیشکش