0
Thursday 19 Dec 2013 16:01
حکومت نے پرویز مشرف سے زیادہ ڈرون حملوں کی اجازت دیدی ہے

حکمرانوں نے دہشتگردی کے عفریت کو نہ روکا تو آگ رائیونڈ پہنچ جائیگی، رحمت وردگ

دشمن بزدل ہے، عراق اور افغانستان کی طرح ہمارے ملک پر چڑھائی کرتے ہوئے ڈرتا ہے اسی لئے چھپ کر بیٹھ پر وار کر رہا ہے
حکمرانوں نے دہشتگردی کے عفریت کو نہ روکا تو آگ رائیونڈ پہنچ جائیگی، رحمت وردگ
رحمت خان وردگ تحریک استقلال کے مرکزی صدر ہیں، ممتاز سیاست دان ہیں، بے باک اور مدلل گفتگو کی وجہ سے میڈیا کی مقبول اور ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ ضلع اٹک سے تعلق رکھتے ہیں، آج کل کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ وقت کراچی میں ہی گزارتے ہیں، پارٹی کے معاملات بھی کراچی میں ہی بیٹھ کر چلاتے ہیں، ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، دہشت گردی کی حالیہ لہر کو حکمرانوں کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکمران اگر سنجیدہ اور مخلص ہو جائیں تو مسائل حل ہو جائیں گے، امریکہ کی پالیسیوں پر ہمیشہ بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ فوری مذاکرات کے حامی ہیں۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے قائل ہیں، جیو اور جینے دو کے اصول کو مانتے ہیں، فرقہ واریت کے خلاف ہیں، متعصب علماء کو پسند نہیں کرتے، عالم باعمل کی قدر کرتے ہیں، گذشتہ روز لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کے ساتھ گفتگو کی، جو ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                

اسلام ٹائمز: دہشت گردی کی حالیہ لہر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
رحمت خان وردگ: دہشت گردی کی یہ لہر افسوس ناک بھی ہے اور تشویش ناک بھی، افسوسناک اس لئے کہ اس میں قیمتی علماء کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کراچی میں مجلس وحدت مسلمین کے دیدار علی جلبانی ہوں یا لاہور میں بربریت کا نشانہ بننے والے دونوں مکاتب فکر کے علما، مولانا شمس معاویہ اور علامہ ناصر عباس، دونوں اہم شخصیات تھیں۔ تشویش ناک اس لئے کہ ہمارے ادارے سوئے ہوئے ہیں، وہ کچھ بھی نہیں کر رہے، حتیٰ اس سے بڑھ کر اور کس بات پر ماتم کیا جائے کہ ایس ایس پی لاہور کہہ رہا ہے کہ ہمارے علم میں بھی نہیں تھا کہ علامہ ناصر عباس لاہور میں مجلس پڑھ رہے ہیں۔ بھئی جو مجلس ہوتی ہے اس کے کارڈ تو تقسیم نہیں ہوتے، اس کے اعلان کے لئے لوگوں کی آگاہی کے لئے اشتہار لگائے جاتے ہیں، بینرز نصب کئے جاتے ہیں تب لوگوں کو پتہ چلتا ہے اور لوگ مجلس میں شریک ہوتے ہیں، عام شہریوں کو پتہ تھا کہ شادمان کے قومی مرکز میں مجلس ہے، اور وہاں پولیس اہلکار بھی ڈیوٹی پر موجود تھے لیکن شرمناک بات ہے کہ ایس ایس پی کہہ رہا ہے ہمیں علم نہیں تھا کہ علامہ ناصر عباس آف ملتان لاہور میں مجالس پڑھ رہے ہیں، اگر ایس ایس پی جس کے ذمہ شہر کی سکیورٹی ہے اس کی معلومات کی یہ حالت ہے تو اسے اپنی عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیئے، ایسا بندہ پولیس جیسے محکمے میں نوکری کرنے کے قابل ہی نہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس لہر میں شیعہ اور سنی ملوث نہیں، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ مولانا شمس معاویہ کو شیعوں نے قتل کیا ہے اور علامہ ناصر عباس کو سنیوں نے مارا ہے۔ بلکہ ان دونوں واقعات میں آپ غور کریں کہ طریقہ واردات بالکل ایک جیسا ہے، مولانا شمس معاویہ کے بھی سر اور گردن میں گولیاں ماری گئیں اور ڈرائیور اور ساتھی کو کچھ بھی نہیں کہا گیا، اسی طرح علامہ ناصر عباس کے واقعہ میں بھی علامہ صاحب کو ہی ٹارگٹ کیا گیا، ان کے ڈرائیور اور شاگرد کو خراش تک نہیں آئی، یہ طریقہ واردات ایک ماہر اور منجھے ہوئے شوٹر کا ہو سکتا ہے اور یہ شوٹر صرف بلیک واٹر اور سی آئی اے کے پاس ہیں۔ آپ اگر تھوڑا سا پیچھے جائیں اور مزنگ چوک میں سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں جو قتل ہوئے ان کو دیکھیں تو وہ بھی بالکل اسی انداز میں نشانہ بنے جیسے مولانا شمس اور علامہ ناصر عباس بنے ہیں۔ یعنی ریمنڈ ڈیوس نے سر اور گردن پر گولیاں ماریں، اور ہر بندے کو چار چار گولیاں ماری گئیں، ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ کے سے لے کر علامہ ناصر عباس تک جتنے بھی واقعات ہوئے تمام کا طریقہ واردات ایک ہے اور یہ صرف بلیک واٹر ہی کر سکتی ہے۔ میرے خیال میں اس کا مقدمہ اس شخص کے خلاف درج ہونا چاہیئے جس نے بلیک واٹر کے لئے امریکیوں کو ہزاروں کی تعداد میں ویزے الاٹ کر دیئے تھے۔ آج بلیک واٹر کا نیٹ ورک ہمارے پورے ملک میں موجود ہے مگر ہمارے سکیورٹی ادارے نہ جانے کہاں ہیں؟ ہماری حکومت خود بھی غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے اور میاں برادران نے دہشت گردی کے اس عفریت کو نہ روکا تو یہ آگ رائے ونڈ تک بھی پہنچ جائے گی اور پھر پانی سر سے گزر چکا ہو گا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ سیاسی صورت حال کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

رحمت خان وردگ: دیکھیں جی، جہاں تک سیاسی صورت حال کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی گھمبیر ہے، کیوں کہ نواز لیگ کی حکومت سے عوام نے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں، ملک میں ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔ موجودہ حکومت کے پانچ ماہ اور سابقہ حکومت کے پانچ سال کا موازنہ کیا جائے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ سابقہ حکومت نے مہنگائی کے بم گرائے تھے اور موجودہ حکومت نے مہنگائی اور بے روز گاری ایٹم بم گرا دیئے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جس طرح سابقہ حکومت کو صرف پانچ سال پورے کرنے کی فکر تھی اسی طرح موجودہ حکومت کا بھی پورے پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنے کا پروگرام ہے۔ عوام کے مسائل اور ملکی صورت حال سے ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پانچ ماہ کے دوران ملک میں بڑے بڑے واقعات ہوئے مگر وزیراعظم ہر بار باہر ہی ہوتے ہیں۔ یوم عاشور پر راولپنڈی میں جو کچھ ہوا یہ پنجاب حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اسلام ٹائمز: جیسے لاہور کے واقعات میں خارجی فیکٹر ہے ایسے ہی کہا جا رہا ہے کہ سانحہ راولپنڈی بھی منظم سازش کے تحت ہوا اور اس میں بھی بیرونی ہاتھ ہی ملوث ہے؟

رحمت خان وردگ: بھائی صاحب، یہ ٹھیک ہے اس میں بیرونی ہاتھ ہی ملوث ہے، لیکن کیا ہم یہ کہہ کر آرام سے بیٹھ جائیں کہ اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ہے۔؟ کیا حکومت کی یہی ذمہ داری ہے کہ اگر کوئی اندرونی فیکٹر ہے تو دو چار بندے سنیوں اور دو چار شیعوں کے پکڑ کر اندر کر دیئے دو چار دن اخبارات میں شور ڈالا کہ جی ہم نے ملزم گرفتار کر لئے ہیں، جلد کیفر کردار تک پہنچا دیں گے، چند روز بعد وہ سارے بےگناہ ثابت ہو جاتے ہیں اور خاموشی سے انہیں رہا کر دیا جاتا ہے، یہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں ہوتی ہیں کہ فرضی طور پر ہی دو چار بندے اٹھا لو تاکہ عوام کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور کوئی اس پر بات نہ کرے، اب راولپنڈی سانحہ کے حوالے سے جتنے بھی شیعہ حضرات کی گرفتاریاں ہوئی تھیں انہیں رہا کیا جا رہا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ان کا اس واقعہ میں کوئی عمل دخل ثابت ہی نہیں ہوا۔

تو یہ گرفتاریاں صرف عوامی ردعمل کی شدت کو کم کرنے کے لئے ہوا کرتی ہیں یہ حکمران اور ادارے ڈرامہ کرتے ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہے، تو بیرونی ہاتھ کو کس نے روکنا ہے، یا وہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو دکھائی ہی نہیں دیتا؟ بھئی بیرونی مداخلت ہے تو روکوِ، آپ کس مرض کی دوا ہو، آپ کو کس لئے عوام نے ووٹ دیئے ہیں، اگر آپ کی پولیس فورس نااہل ہے تو فارغ کر دو اور نئے بندے لے آؤ میرٹ پر بھرتیاں ہوتیں، اقربا پروری نہ کی جاتی، پیسے لے کر نوکریوں کی نیلامی نہ کی جاتی تو آج امن و امان کی صورت حال یہ نہ ہوتی۔ جو کونسلر بننے کے بھی قابل نہیں ہوتا، پولیس افسر کا بھائی ہو تو وہ بھی ایم پی اے بن جاتا ہے۔ تو یہ صورت حال نہیں ہونی چاہیئے۔ اداروں کا کام ہے بیرونی ہاتھ ہی اندرونی بدامنی کا ذمہ دار ہے تو اس ہاتھ کو توڑ دیا جائے۔ حکومت سیاسی مصلحتوں کا شکار نہ ہو، ورنہ عوامی مسائل میں اضافہ ہو گا اور سٹرکوں پر نکلنے والے احتجاجی جلوسوں کا رخ اقتدار کے ایوانوں کی طرف ہو گیا تو یہ جمہوریت رہے گی نہ یہ جمہورے بچیں گے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت معاشی ترقی کے لئے بڑے بڑے دعوے کر رہی ہے کہ ہم نے یہ اقدامات کئے ہیں، ملک میں جلد ہی دودھ کی نہریں بہنے لگ جائیں گی، آپ بھی کاروباری شخصیت ہیں، کیا کہیں گے؟

رحمت خان وردگ: آپ نے خود ہی جواب دے دیا، معاشی ترقی تب ہو گی جب آپ اقدامات کریں گے۔ معاشی ترقی یا معاشی صورتحال ملک میں اس وقت بہتر ہوتی ہے جب ملک میں پانی بجلی اور گیس وافر مقدار میں ہوں، اس سلسلہ میں سب سے آسان سب سے جلدی بجلی دینے والا منصوبہ کالا باغ ڈیم ہے، مگر اسے سیاسی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یہ چیزیں ہوں گی تو دیہات کی 75 فیصد آبادی کو روزگار میسر آئے گا جس سے نہ صرف ملک ترقی کرے گا بلکہ شہروں میں آبادی کی نقل مکانی کا رجحان بھی کم ہو جائے گا۔ پھر شہروں کے مسائل بھی خود بخود کم ہو جائیں گے۔ آپ دیکھیں کہ میانوالی سے کلور کوٹ، دریا خان، جھنگ، بھکر، لیہ، منکیرہ، ہرنولی، خوشاب اور سرگودھا کے احاطے کئے ہوئے تھل میں لاکھوں ایکڑ اراضی بے کار پڑی ہے۔ اسے پانی و بجلی اور گیس فراہم ہو جائے تو یہ مٹی سونا اگلنے لگ جائے، پھر جنوبی پنجاب میں چھوٹے ڈیم بنا کر زرعی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے حکمرانوں کو چاہیئے کہ دیہاتوں میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کریں دیہی آبادی ترقی کرے گی تو اس ملک کی معاشی صورت حال میں بہتری آئے گی اور ملک مضبوط ہو گا۔

اسلام ٹائمز: کہتے ہیں ملک میں خرابی کی جڑ پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسیاں تھیں؟

رحمت خان وردگ: آپ فوجی آمر کہہ سکتے ہیں، جنرل پرویز مشرف کے فوجی کمانڈر ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے جمہوری ادوار سے موازنہ نہ کیا جائے۔ آپ کو وہ دور عوام کے لئے بہتر محسوس ہو گا۔ اس دور میں اور آج کے دور میں مہنگائی کی صورت حال دیکھیں، پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں دیکھیں، ڈالر کی شرح کو دیکھیں، جمہوری حکومتوں میں تو یہ سب کچھ اس دور سے بہتر ہونا چاہیئے تھا۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف نے جس طرح ڈرون حملوں کی اجازت دی، کیا ان کی وجہ سے دہشت گردی جیسے مسائل پیدا نہیں ہو رہے؟

رحمت خان وردگ: آپ انہیں مسائل کی ایک وجہ کہہ سکتے ہیں، واحد وجہ نہیں، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں کیوں کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت ان کے خلاف ہے اور انہیں اچھا نہیں سمجھتی، ویسے آپ کو یاد ہو گا، جب میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں تھے تو وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ پرویز مشرف نے ڈرون حملوں کی اجازت دی، لیکن ہم جب اقتدار میں آئیں گے تو ہم قوم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ان ڈرون حملوں کو روکیں گے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ڈرون حملوں کی اجازت امریکہ کو پہلے سے زیادہ دیدی گئی۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب یہ ڈون حملے پاکستان کی حدود میں ہو رہے ہیں، اور عوام کیساتھ غلط بیانی کی جا رہی ہے۔ امریکی دورے اور اوباما سے ملاقات کے بعد میاں صاحب کا یہ بیان آیا کہ ملاقات کے دوران ڈرون حملے روکنے اور عافیہ صدیقی کی رہائی کے متعلق بات ہوئی ہے لیکن اسی رات دس بجے امریکہ کی وزارت خارجہ نے ان دونوں باتوں کی نفی کر دی کہ صدر اوباما اور نواز شریف ملاقات میں یہ دونوں باتیں نہیں ہوئیں، میری نواز شریف سے استدعا ہے کہ وہ قوم سے جھوٹ نہ بولیں یہ ان کے لئے بہتر ہو گا۔

اسلام ٹائمز:پرویز مشرف کے خلاف حالیہ مقدمات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

رحمت خان وردگ: میرے نقطہ نظر سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ حکومت کی ناکامی کا بہت بڑا ثبوت ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1977ء کے مارشل لاء اور 1999ء کے مارشل لاء میں جو ان کے مشیر تھے یا معاون تھے جنہوں نے ان آمروں کو سپورٹ کیا تھا ان سب پر آرٹیکل چھ لاگو کیا جائے، تو اس مارشل لاء میں میاں نواز شریف، گورنر پنجاب کی صوبائی کابینہ میں مشیر خزانہ تھے، اور چوہدری نثار علی خان سمیت سب لوگ اس میں شامل تھے، ان کیساتھ ساتھ ان تمام ججوں پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہوتا ہے جنہوں نے نظریہ ضرورت کے تحت ان مارشل لاؤں کو جائز قرار دیا تھا۔ تب ہی اتفاق کے تقاضے پورے ہوں گے۔ میں کہتا ہوں کہ حکمران عقل کے ناخن لیں، پنجاب سے چوتھی لاش سندھ نہ بھیجی جائے اس کے بہت خوفناک نتائج ہوں گے۔ جن کا موجودہ حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشت گردی کی کوئی بھی واردات ہوتی تو طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مردہ زندہ ہو جاتا ہے یہ سب کیا ہے؟

رحمت خان وردگ: دیکھیں جی طالبان کیساتھ مذاکرات کا بہت ڈھونڈرا پیٹا گیا۔ حالانکہ یہ سب سے بڑا جھوٹ اور فراڈ ہے۔ اور اسی جھوٹ اور فراڈ نے امریکہ کو موقع فراہم کیا کہ اس نے ڈرون حملے میں طالبان کا اہم کمانڈر مار دیا۔ جس کے بعد طالبان نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم اپنے چار کمانڈر مروا چکے ہیں اور تمام کمانڈروں کو مروانے میں پاکستانی حکومت ملوث ہے، میں سمجھتا ہوں حکومت مذاکرات کے لئے نیک نیت ہی نہیں ورنہ اے پی سی میں جب حکومت کو کلی اختیار دے دیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات کرے تمام جماعتیں اس کی حمایت کریں گی تو کیا وجہ تھی کہ حکومت نے لیت و لعل سے کام لیا۔

اسلام ٹائمز: آپ حکومت کی بدنیتی کو کیسے واضح کریں گے؟

رحمت خان وردگ: یہ بڑی سیدھی اور سمجھ میں آنے والی بات ہے، اگر حکومت نیک نیت ہوتی تو فوری طور پر مولانا خان محمد شیرانی کی قیادت میں مذاکراتی وفد تشکیل دیتی جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو شامل کیا جاتا اور یہ وفد طالبان سے بلاتاخیر مذاکرات کا آغاز کر دیتا۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں بدنیت ہے، ورنہ سارے اختیارات ہوں، تمام جماعتوں کی اخلاقی حمایت حاصل ہو پھر بھی مذاکراتی عمل آگے نہ بڑھایا جائے تو یہ بدنیتی نہیں تو کیا ہے؟

اسلام ٹائمز: وفد کی قیادت مولانا شیرانی ہی کیوں کرتے۔ ان میں کوئی خاص بات ہے یا طالبان ان کا زیادہ احترام کرتے ہیں؟

رحمت خان وردگ: اس لئے کہ مولانا شیرانی ایک پختون ہیں، دوسرے ان کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اس حوالے سے طالبان کے بالکل کسی قسم کے تحفظات نہیں ہیں اور تیسرے یہ کہ مولانا شیرانی اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے اور اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے علماء نے ان کی سربراہی قبول کر رکھی تھی، چوتھے یہ کہ ان کا تعلق مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی سے ہے۔ طالبان جن کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ فوری طور پر مذاکرات شروع نہ کرنے کے نتیجہ میں حکومت بدنام ہوئی، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے میڈیا میں طالبان کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی لیکن کام اس کے برعکس کیا جس سے امریکہ نے فائدہ اٹھایا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے نیٹو سپلائی روکنے کیلئے جو دھرنا پروگرام شروع کیا اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

رحمت خان وردگ: نیٹو سپلائی روکنے کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس سے نیٹو ممالک ناراض ہو جاتے ہیں، حکومت یہی تاویل پیش کرتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ کیوں کہ اگر نیٹو ممالک کا یہی موقف درست ہے کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے افغانستان آئے ہیں یعنی امریکہ اور یورپ کو القاعدہ سے بچانا ان کا مقصد ہے تو پھر انہیں نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیئے۔ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، یہ سراسر انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ اس لئے انسانی حقوق کا پرچم اٹھانے والے نیٹو ممالک خود امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ فاٹا میں ڈرون حملے بند کرے کیوں کہ ان حملوں میں بےگناہ عورتیں اور بچے مر رہے ہیں۔ نیٹو ممالک کے اس اقدام سے مانا جائے گا کہ وہ واقعی انسانی حقوق کے ماننے والے ہیں۔ میں تحریک انصاف کے کارکنوں سے بھی کہتا ہوں کہ وہ نیٹو سپلائی لانے والے ٹرک ڈرائیوروں کو زدوکوب نہ کریں، کیوں کہ ان کا قصور نہیں، یہ مزدور ہیں، ٹرک یا کنٹینر کا مالک ان کو جہاں بھیجے گا یہ وہیں جائیں گے۔ میں ٹرک اور کنٹینر مالکان سے بھی کہتا ہوں کہ وہ قومی مفاد میں یہ سپلائی ازخود روک دیں، کیوں کہ ڈرون حملوں میں بےگناہ لوگ مر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آخر میں قوم کو کوئی پیغام دینا چاہیں تو۔۔۔؟؟

رحمت خان وردگ: جی میں اپنی پوری قوم سے یہی کہوں گا کہ ہم اس وقت عالمی سازشوں کے گرداب میں ہیں، دشمن جو پاکستان کا بھی دشمن ہے اور اسلام کا بھی دشمن ہے، ہماری سلامتی کے درپے ہے اور ہم اس دشمن کا مقابلہ باہمی اتحاد سے کر سکتے ہیں، میری پوری قوم غیرت مند ہے، میں ان غیور افراد سے یہی کہوں گا کہ شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی، سندھی پنجابی، پختون بلوچ کے حصار سے نکل کر صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچیں، جب ہم اس طرح متحد ہو گئے اور ایک لڑی میں جمع ہو گئے تو دشمن کے عزائم خود بخود خاک میں مل جائیں گے۔ قوم بیداری کا مظاہرہ کرے اور دشمن کی سازشوں کو پھانپے، دشمن بزدل ہے، عراق اور افغانستان کی طرح ہمارے ملک پر چڑھائی کرتے ہوئے ڈرتا ہے اسی لئے چھپ چھپ پر بیٹھ پر وار کر رہا ہے، اس کا مقابلہ صرف اور صرف حاضر دماغی اور بیداری و ہوشیاری سے ہی ممکن ہے، دشمن ہمارے ملک میں خانہ جنگی چاہتا ہے، شیعہ اور سنی کو دست و گریبان کرنا چاہتا ہے اور اگر ہمارے علماء اور ہمارے غیور عوام ذمہ دارانہ کردار ادا کریں تو دشمن کو ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے آنکھیں کھلی رکھیں۔ پاکستان پائندہ باد۔
خبر کا کوڈ : 332077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش