0
Monday 30 Nov 2015 19:39

کرپشن میں ملوث بلوچستان کے بعض سابق وزراء کیخلاف جلد کارروائی کرینگے، طارق محمود ملک

نیب کی تمام تر کارروائی میرٹ کے مطابق ہوتی ہے
کرپشن میں ملوث بلوچستان کے بعض سابق وزراء کیخلاف جلد کارروائی کرینگے، طارق محمود ملک
میجر (ر) طارق محمود ملک قومی احتساب بیورو (نیب) بلوچستان کے موجودہ ڈی جی (ڈائریکٹر جنرل) ہے۔ آپ 28 جنوری 2015ء کو اس عہدے پر تعینات کئے گئے۔ اس سے قبل آپ ڈی جی انویسٹیگیشن ہیڈ کوارٹر نیب کے طور پر بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ طارق محمود ملک نیب میں گذشتہ 15 سالوں سے ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہے۔ میجر (ر) طارق محمود ملک سے نیب کی مجموعی کارکردگی اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں کرپشن کیسز میں پیشرفت کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب عدالت، ایف آئی اے اور کسٹم سمیت دیگر اداروں کی موجودگی کے باوجود نیب کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
طارق محمود ملک:
اس بات میں‌ کوئی شک نہیں کہ 1947ء سے اینٹی کرپشن کے قوانین اس ملک میں بنائے جاچکے ہیں۔ انہی قوانین کی بنیاد پر ہم نے ادارے بھی بنائے۔ خاص طور پر ایف آئی اے کے نام سے وفاقی سطح پر ایک ادارے کی تشکیل اہم اقدام تھا۔ اس وقت یہ سوچ تھی کہ صوبائی اور ملکی سطح پر جتنے بھی اینٹی کرپشن ادارے ہیں، انہیں منظم کرکے ایک پلیٹ فارم سے منسلک کیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی اس سوچ کو انتہائی تقویت ملی۔ ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے اینٹی کرپشن ایپکس ادارہ بنایا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ جب یہ اینٹی کرپشن ادارے بنیں، تو 2003ء میں ایف آئی اے کے دو ڈیپارٹمنٹس کرائم ونگ اور اکنامک کرائم ونگ کا ملاپ نیب کی صورت میں ہوا۔ اس وقت صوبائی اور وفاقی سطح پر آپ ایک قانون متعارف کرانا چاہ رہے تھے کیونکہ اس وقت پاکستان میں ایک ہی جرم کی کئی سزائیں ہیں۔ ایف آئی اے کے ذریعے اگر آپ جائیں تو ہوسکتا ہے کہ آپکو دو یا تین سال کی سزا ہو۔ جبکہ اگر نیب کورٹ میں‌ اسی جرم کا ٹرائل ہو، تو اسکی سزا چودہ سال ہوگی۔ تو بنیادی طور پر قوانین کو ایک کرنا اور کرپشن کیخلاف ایپکس ادارے کا قیام اسکی اصل وجہ تھی۔ اسکے بعد 2008ء میں ہم نے ایف آئی اے کے دونوں کرائم ونگ اور اکنامک کرائم ونگ کو واپس ایف آئی اے کے سپرد کردیا۔ آج ایف آئی اے اور نیب وفاقی سطح پر تحقیقاتی ایجنسیاں ہیں، جو کہ باہم کام کر رہے ہیں۔

لیکن یہ بات میں‌ بتاتا چلوں کہ دیگر اداروں کی بنسبت نیب کے قوانین مضبوط ہیں۔ نیب کے قوانین میں ایسی چیزیں بھی شامل ہیں، جوکہ ایف آئی اے کے قوانین میں شامل نہیں۔ مثال کے طور پر ایف آئی اے صوبائی ملازمین کیخلاف کارروائی نہیں کرسکتی اور ایف آئی اے نجی ملازمین کیخلاف بھی کارروائی نہیں کرسکتی۔ جبکہ نیب کو یہ تمام اختیارات حاصل ہیں۔ اسی طرح اگر صوبائی سطح پر احتساب کا کوئی ادارہ ہے، تو وہ وفاقی لیول پر کارروائی نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے آج نیب وہ واحد ادارہ ہے جسکے پاس ملکی سطح پر یہ اختیارات موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ کئی سالوں سے نیب سمیت دیگر اداروں کی موجودگی کے باوجود کرپشن کا خاتمہ اس انداز میں نہیں ہوا، جس طرح عوام چاہتی تھی۔؟
طارق محمود ملک:
کرپشن ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ جب تک ہر شخص ذاتی طور پر اپنی اصلاح نہیں کرتا، کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح جب تک ادارے مضبوط نہیں ہونگے، احتسابی عمل کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہمارے قوانین میں ایسی خامیاں موجود ہیں، جسکا فائدہ اٹھا کر بدنظمی پھیلائی جاتی ہے۔ لہذٰا جب میں اور آپ اپنے آپ سے اس عمل کو شروع نہیں کرتے، تو اسکا خاتمہ بہت مشکل ہے۔ آپ اسے کم کرسکتے ہیں، لیکن اسکا مکمل خاتمہ آسان نہیں۔ اس سے بڑھ کر مسائل ریکارڈ کے حوالے سے بھی ہیں۔ اب 1985ء سے قبل بہت سارے ایسے کیسز ہیں، جنکے حوالے سے کوئی دستاویزات موجود نہیں۔ ان میں ملوث لوگ مر گئے یا ان سے متعلق ریکارڈز کو جلا دیا گیا۔ اب یہاں پر سب سے بڑا المیہ وائٹ کالر کرائم میں ہے۔ آپ یوں نہیں کرسکتے کہ اسے ایک دو دن میں ختم کردیں۔ 2008ء سے لیکر 2012ء تک ہمارے بہت سے کیسز بیک لاس (Back Loss) میں چلے گئے، جسکی وجہ سے تمام کیسز ہمارے ادارے سے باہر ہوگئے۔ اب ہر آفیسر کے پاس ستر یا اسی ہزار کیسز موجود ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کیس کو ڈیل کرنا یقیناً ممکن نہیں۔ اب دوبارہ نیب اس قابل ہوچکی ہے کہ چار پانچ سال قبل پرانے کیسز کو ریکور کرسکے۔

اسلام ٹائمز: کیا نیب بھی دیگر اداروں کی طرح سیاسی دباؤ کا شکار رہتی ہے۔؟
طارق محمود ملک:
میرے خیال میں یہ ایک غلط سوچ ہے۔ میں 2000ء سے لیکر اب تک نیب میں کام کر رہا ہوں اور مجھے تو آج تک کسی نہیں کہا کہ آپ اس سیاسی جماعت کے کیسز کو دیکھیں اور دوسرے جماعت کو چھوڑ دیں۔ ہم بلاتفریق کام کرتے ہیں اور میرٹ کے حساب سے جس کیخلاف کیسز ہوں، کارروائی کرنی ہے۔ اب وائٹ کالر کرائم میں یہ مسئلہ ہے کہ وہاں ثبوت کافی مشکل سے ملتے ہیں۔ اب کسی بھی شخص کیخلاف اگر آپ ٹرائل کورٹ میں کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب بہت سے ایسے کیسز ہیں جس میں شروع میں‌ تو ہمیں ثبوت مل جاتے ہیں، لیکن بعدازاں ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اس کیسز کو ختم کرنا پڑتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کسی بھی سیاسی یا انتظامی شخص کیخلاف اگر کرپشن کے چارجز ہوں، تو وہ نیب کیساتھ سودے بازی یا (Pre-Bargaining) کرکے کیس کو ختم کردیتا ہے۔؟
طارق محمود ملک:
سودے بازی کا لفظ اس میں آپ استعمال نہیں کرسکتے۔ اب مثال کے طور پر امریکی قوانین میں پری بارگیننگ کا تصور ہے۔ اسکے اپنے فوائد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس سے کسی بھی کیس کی مدت کو آپ کم کردیتے ہیں۔ یعنی کورٹس میں یا ٹرائل میں جو کوشش ہوتی ہے، اس سے آپ بچ جاتے ہیں۔ جو بھی نقصان ہوا ہوتا ہے، اسکا ازالہ ہوجاتا ہے۔ جبکہ اسی طرح کیسز میں ملوث جو عناصر ہوتے ہیں، انکی گرفت بھی آسانی ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے غلط انداز میں سودے بازی کہنا غلط ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص نے کرپشن کے ذریعے ایک ارب کی جائیداد بنائی ہوئی ہے تو کیس ثابت ہونے پر اس سے ایک ارب روپے واپس وصول بھی کر لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کرپٹ عناصر کیخلاف ثبوت نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔؟
طارق محمود ملک:
اس میں بہت سارے عوامل کار فرما ہیں۔ لیکن جو اہم مسئلہ ہے وہ یہ کہ مغربی ممالک میں اگر آپ ایک پیسہ بھی کہی سے لاتے ہیں یا بھیجتے ہیں تو اسکا ریکارڈ ہونا لازمی ہے۔ جبکہ ہمارے پاس یہ سسٹم موجود نہیں۔ کس کے پاس کتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے، اسکی خبر کسی کو نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا نیب صرف گرفتاری ہی کرتی ہے یا پیسے لیکر افراد کو چھوڑنے کے علاوہ بھی کوئی طویل المدتی پالیسی وجود رکھتی ہے۔؟
طارق محمود ملک:
ہمارے ادارے میں‌ تین ونگز کام کرتے ہیں۔ ایک تو تحقیقاتی حصہ ہے جو مختلف افراد کے حوالے سے ہمیں معلومات فراہم کرتی ہے، اور اسی بنیاد پر انکی گرفتاری ہوتی ہے۔ دوسرا ادارہ عوام میں کرپشن کیخلاف آگاہی فراہم کرتا ہے۔ لہذٰا ہم نہ صرف گرفتاری کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں اس بیماری کے خاتمے کے حوالے سے دیگر اقدامات بھی اٹھا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جب آپ کسی سیاسی جماعت کے کسی فرد پر کرپشن کیسز کرتے ہیں تو آپ پر سیاسی انتقام کے الزامات کیوں لگائے جاتے ہیں۔؟
طارق محمود ملک:
بلاتفریق کارروائی کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ آپ یہ نہیں کرسکتے کہ ایک ہی لمحے میں 100 آدمیوں کیخلاف کارروائی شروع کردیں۔ دوسرا یہ کہ جب بھی ہمارے پاس کسی سے متعلق شکایت آئے گی، تو تب ہی ہم اسکے خلاف کارروائی کرسکیں گے۔ لہذٰا یہ کہنا کہ ہم کسی کیخلاف سیاسی پریشر کی وجہ سے کارروائی کر رہے ہیں، تو یہ غلط ہوگا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں کرپشن کے حوالے سے اب تک آپ نے کونسی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔؟
طارق محمود ملک:
بلوچستان میں ہمیں دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک یہ کہ بلوچستان میں جتنے بھی ادارے ہیں، ان میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ادارے بھی مضبوط نہیں ہیں۔ استعداد کی کمی کیوجہ سے ہمارے کام اس انداز میں نہیں ہورہے، جس انداز میں ہونا چاہیئے۔ جو بھی کسی سیٹ پر بیٹھتا ہے تو اپنے گذشتہ آفیسر کی طرح کام کرنا شروع کردیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت کے وزراء کیخلاف نیب نے کرپشن کیسز کا آغاز کیا تھا، انکا کیا بناء۔؟
طارق محمود ملک:
ان کیخلاف اب بھی ہم کیسز چلاء رہے ہیں۔ میڈیا کو بھی اس حوالے سے معلوم ہے کہ جب بھی ہمارے ایگزیکٹیو بورڈ کا اجلاس ہوتا ہے، تو اس میں ہونے والے فیصلوں کو ہم عوام کیساتھ شئیر بھی کرتے ہیں۔ اب ایشو یہ ہے کہ کسی بھی کیس کو شروع کرنے سے قبل ہم یہ نہیں کہتے کہ مذکورہ بندہ کرپشن میں ملوث ہے۔ جب تک تمام تر قانونی کارروائی پوری نہیں ہوتی اور وہ شخص واقعی میں مجرم ثابت نہیں ہوتا، ہم عوام کو اسکا نام یا اسکے حوالے سے ہونے والی پیشرفت سے آگاہ نہیں کرسکتے۔ بلوچستان کے بعض وزراء اور سرکاری اداروں کے سابق سربراہوں کیخلاف کیسز موجود ہیں، اور بہت جلد ان کیخلاف کارروائی کرینگے۔

اسلام ٹائمز: پرائیوٹ سیکٹر کیخلاف آپ کیا کارروائی کرتے ہیں۔؟
طارق محمود ملک:
پرائیوٹ سیکٹر میں ہم ان اداروں کیخلاف کارروائی کرسکتے ہیں جنکا لین دین حکومت کیساتھ ہو، یا انکے کسی عمل سے عوام کو نقصان پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 501357
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش