0
Friday 23 Sep 2016 15:22
مشرق وسطٰی کے ٹرمائل کا ذمہ دار مغرب ہے، یہ اسی کا ہی پیدا کردہ مسئلہ ہے

مسلم لیگ نون کی حکومت پاک ایران گیس منصوبہ مکمل کرکے رخصت ہوگی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

مسلم لیگ نون کی حکومت  پاک ایران گیس منصوبہ مکمل کرکے رخصت ہوگی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، ریٹائرڈ جنرل عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں اور اس وقت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیدوار کے چیئرمین بھی ہین۔ اسلام ٹائمز نے حالیہ ملکی اور عالمی حالات پر ان سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بھارت میں دہشتگردی کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہونے جا رہا تھا، کہیں یہ دنیا کی توجہ کشمیر ایشو سے ہٹانے کیلئے تو نہیں تھی۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
جی بالکل میں نے اسی شام ہی اپنے ٹوئٹ میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس کی نشاندہی کر دی تھی، بھارت کے پاس مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم کو چھپانے کیلئے کچھ نہیں تھا، وہ دفاعی پوزیشن پر آگیا تھا، ایسے وقت میں یہ واقعہ ہو جانا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے، میرے حساب سے انہوں نے یہ دھماکہ خود کرایا ہے، بھارت نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ دیکھیں یہ دہشتگردی کا واقعہ ہوگیا ہے اور باہر جو پاکستان مخالف محاذ بنا ہوا ہے، اس کی توجہ حاصل کرنا بھی ایک مقصد تھا، میرے خیال میں خود ہی بارود کو آگ لگائی، ان کا خیال تھا کہ ہلاکتیں کم ہوں گی لیکن وہ زیادہ ہوگئیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جن لوگوں کی بھارتی فورسز آنکھیں نکال رہی ہے، انہوں نے ردعمل میں ایسا کیا ہو، کیونکہ ان کی تو دنیا ہی اجڑ گئی ہے، لہذا یہ امکان بھی موجود ہے۔ اس کو بھارت بےشرمی کے ساتھ بلوچستان کے ساتھ مماثلت قرار دے رہا ہے، خود بھارت کے اندر سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں کہ بلوچستان کی مثال دیکر آپ اپنا کیس کمزور کر رہے ہیں، خود امریکہ نے یہ کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا تسلیم کیا ہوا حصہ ہے، اس لئے ہم اس پر بات نہیں کرنا چاہتے، بات تو ان کو کرنی چاہیئے کشمیر کی۔ دیکھیں بھارتی فورسز کی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بربریت پر ہم بات کرتے ہیں، اصل میں مسئلہ اور بیماری کیا ہے؟ ہم انڈیا کو رائٹ آف سیلف ڈی ٹرمینیشن نہیں دینا چاہتے، یہ اصل بیماری ہے، اس پر اقوام متحدہ کو بھی پکڑنا چاہیئے۔ اگر ہم اس پر بات نہیں کریں گے، یہ وہاں اپنی بربریت جاری رکھیں گے، یہ انسانی حقوق کیخلاف کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 47 ہے، جس پر 14 اگست 1948ء میں دستخط ہوئے، امریکہ، کینڈا، چائنہ، برطانیہ، بیلجیم اور کولمبیا جو اس معاملے کو لیکر یو این او گئے تھے۔ یہ وہ ممالک تھے جو انسانی حقوق کے حوالے سے آگے آئے تھے۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں بھارتی وزیراعظم نہرو لیکر گئے، جس پر یہ قرارداد سامنے آئی تھی۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں دنیا کے ضمیر کو جگانے کیلئے یہ بات کرنی چاہیئے کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، نمبر دو اقوام متحدہ کے چارٹر جس کے آرٹیکل ون اور ٹو ہے اس کی بھی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، بھارت نے ایسے کالے قوانین بنا رکھے ہیں، جو تمام انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے علاوہ پاکستان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں، بلوچستان سے ہریبار مری، کراچی سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور تیسری جانب سے افغانستان نے سفارتی سطح پر محاذ کھولا ہوا ہے، ایسی صورت میں پاکستان کا کیس کمزور ہوگا یا مضبوط۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دیکھیں الطاف حسین ایک غدار وطن ہے، اس پر اس کی پارٹی بھی اسے چھوڑ گئی ہے، اس لئے اس کی بات میں اب اتنا دم نہیں رہا، اس کے پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ اس کے "را" سے تعلقات ہیں۔ افغانستان کی سرزمین کو بھارت استعمال کر رہا ہے۔ چک ہیگل جو امریکی سیکرٹری ڈیفنس رہے ہیں، اس نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت افغانستان کو استعمال کر رہا ہے۔ کلبھوشن یادیو ہمارے پاس بہت بڑا ثبوت ہے۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو بلوچ قوم نے سڑکوں پر نکل کر مودی کے پتلے جلائے ہیں۔ تامل ٹائیگر اور دیگر گروپس تو ملکوں کے اندرونی معاملات ہوتے ہیں، ہر ملک میں ایسے گروپس ہوتے ہیں، لیکن آزادی کی تحریکوں کو اس طرح تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ کشمیر کے ایشو کو لوکل بغاوت سے نہیں ملا سکتے۔ اقوام متحدہ سمیت سب مجبور ہیں کہ کشمیریوں کو ان کا حق دیں۔

اسلام ٹائمز: سینیٹر فرحت اللہ باہر کہتے ہیں کہ پاک فوج کا دہشتگردوں کیساتھ گٹھ جوڑ ہے جبکہ آپ کہتے ہیں یہ ظلم ہے۔ اسی طرح باہر سے بھی اسی سے ملتے جلتے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اس میں کتنی صداقت ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
پاکستان کے لوگ محب وطن اور کلئیر ہیں، جو کہتے ہیں کہ فوج کا دہشتگردوں سے گٹھ جوڑ ہے اور ملک میں جتنی بھی بیماریاں ہیں، اس کی ذمہ دار فوج ہے، یہ وہ لوگ کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ آپ کو پتہ ہے کہ کے پی کے میں ریفرنڈم کرانا پڑا، وہ پارٹیاں جن کے لیڈر افغانستان اور جلال آباد میں دفن ہیں، انہوں نے آج تک پاکستان کے وجود کو نہیں مانا۔ کچھ ہیں جو آج بھی اسمبلی کے فلور پر یہ کہتے ہیں کہ افغانستان کی سرحدیں کے پی کے تک آتی ہیں۔ کچھ ہیں جن کے تعلقات بھارت کے ساتھ ہیں، ایک خاتون تھی جس نے پاک فوج کے خلاف کتاب لکھی تھی، جس کے مسودے کا ایک ایک حرف انڈین ہائی کمیشن سے آتا تھا، یہ ایک انتہا ہے۔ دوسری انتہا وہ ہے جو کہتے ہیں کہ اقتدار پر قابض ہو جاو، یہ کہتے ہیں فوج ملک چلائے، اصل میں یہ لوگ قائد اعظم کے فرمودات کی نفی کرتے ہیں، یہ دونوں انتہائیں ہیں، جو لوگ پاک فوج پر تنقید کرتے اور دہشتگردوں سے گٹھ جوڑ ظاہر کرتے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے، 99 فیصد لوگ پاک فوج کی عزت کرتے ہیں، پاک فوج ایک مستقل حلقہ نہیں ہے، آرمی چیف تین سال کیلئے آتا ہے، جو لوگ جی ایچ کیو کی دیوار پھلانگ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، وہ ملک اور ادارے کے ساتھ بھی ظلم کرتے ہیں۔ وہ پھر سیاستدان بن جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ فوجی کبھی نہ آئیں، اگر سیاست دان ساتھ نہ دیں، اگر عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت ان کا ساتھ نہ دیں۔ اس وقت پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ پوری قوم اس منصوبے پر ایک ہے، کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اس پر اتفاق کیا کہ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اب ہمیں جھاڑ پڑے گی کہ تم نے یہ کیا ہے۔ کچھ لوگ جو ملک کے اندر اور باہر ہیں، وہ پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں، وہ ابھی دوسروں کی لائن پر چل رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے سی پیک کی بات کی ہے، اسوقت مشرقی روٹ پر زبردست انداز میں کام جاری ہے لیکن مغربی روٹ پر کوئی کام نہیں ہو رہا، یہی وجہ ہے کہ آج کے اخبارات بھی اٹھا کر دیکھیں کہ اے این پی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے کہ مغربی روٹ کو رد کیا جا رہا ہے، انکے تحفظات کو کیوں دور نہیں کیا جا رہا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
یہ وہ آوازیں ہیں جن کا فلسفہ یہی ہے کہ میں نہ مانوں، احسن اقبال نے واضح بتایا ہے کہ انہوں نے وزیراعلٰی کے پی کے اور بلوچستان کو مطئمن کر دیا ہے، مغربی روٹ کے پہلے جو لنک ٹوٹے ہوئے ہیں، ان کی تعمیر ضروری ہے، اس کے بعد اس کو دو رویا پھر تین رویا کریں گے۔ یہ ہزاروں کلومیٹر کا پروجیکٹ ہے۔ یہ ایک سڑک نہیں بلکہ قوس قزا ہے، اس میں توانائی سمیت متعدد پروجیکٹس ہیں۔ ہمارے مفاد میں ہے کہ مغربی روٹس کو مکمل کریں، تاکہ وہاں ترقی ہوسکے، ہم نے صوبوں پر چھوڑا ہے کہ وہ فزبیلیٹی رپورٹس بنائیں اور بتائیں کہ وہ اپنے صوبوں میں کیا کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان جہاں سے 600 کلومیٹر کراس کرکے یہ منصوبہ دیگر صوبوں کیساتھ لنک کریگا، ان کو کچھ نہیں دیا جا رہا، انکو بتانے کیلئے وفاقی حکومت کے پاس کچھ نہیں ہے، نہ انکے تحفظات کو سنا جا رہا ہے۔ آخر کیوں۔؟

لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
گلگت بلتستان میں سڑک بنے گی، یہاں ٹوریزم فروغ کرے گا، عطا آباد جھیل کے ساتھ ٹنل بنا دی گئی ہے، ان علاقوں کے قریب بھی اقتصادی زون بنیں گے، یہاں بھی ترقی ہوگی۔ البتہ میں یہی کہوں گا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے تحفظات دور ہونے چاہیئں، ان کو سننا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف عالمی محاذ، دوسری جانب تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان پانامہ معاملہ پر تنازعہ، ملک کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں۔ حکومت اس معاملے کو حل کیوں نہیں کرتی۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دیکھیں یہ تو سوال تحریک انصاف سے کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کو یہ جواب دینا چاہیئے کہ جب بھارت پر جنگی جنون سوار ہے، ہمارے طیارے ائیربیسز پر تیار کھڑے ہیں، ہمیں ہر حالت میں تیار رہنے کی ضرورت ہے، دشمن اسی طرح سی پیک پر اٹیک کر رہا ہے، وہ نہیں چاہتا کہ یہ منصوبہ مکمل ہو، عالمی سطح پر پاکستان مخالف قوتیں اپنا کام کر رہی ہیں، ایسے میں یہ ڈیڑھ انچ کی مسجد کس کے فائدے میں ہے۔؟ رائیونڈ میں احتجاج میں کون دلچسپی رکھتا ہے۔؟ اس میں عوامی دلچسپی کوئی نہیں ہے، آپ پارلیمنٹ میں بات کریں، میڈیا پر بات کریں، اچھی بات ہے۔ آپ اعلان کریں کہ ہم کشمیر کاز اور سی پیک پر ایک ہیں، ڈیڑھ سال بعد الیکشن ہونے جا رہے ہیں، اس کی تیاری کریں۔ آپ نے 35 ضمنی الیکشن میں سے 30 حلقوں میں شکست کھائی ہے، یہ پبلک کا ٹرینڈ ہے، عوام سمجھتی ہے کہ اگر کسی کے پاس کوئی صلاحیت ہے تو وہ نون لیگ ہے، جس کے پاس ایسی ٹیم ہے جو ملک کو بہترین انداز میں چلا سکتی ہے۔ باقی جماعتیں دیکھ لیں، زرداری صاحب پانچ سال تک بنکر میں بیٹھے رہے، پیچھے راجہ پرویز اشرف جیسے لوگ ملک چلا رہے تھے، انرجی کا کوئی ایک منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ حتیٰ کوئی انویسٹمنٹ کیلئے تیار نہیں تھا، جاتے ہوئے انہوں نے ایران گیس پائپ لائن منصوبہ سائن کر دیا۔ تین سال انہوں نے کچھ نہیں کیا، لیکن جاتے ہوئے ایران گیس پائپ لائن پر کام کا آغاز کیا جبکہ اس وقت ان حکومت کی معیاد ہی ختم ہوچکی تھی۔

اسلام ٹائمز: اب تو آپکی حکومت کو بھی چار سال ہونے کو ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ اس منصوبے پر کام شروع نہیں کیا، جبکہ ایران کی سرحد تک پائپ لائن بچھ چکی ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
وجہ یہ ہے کہ منصوبے پر امریکہ کی پابندیاں لگیں تھیں، اب جب پابندیاں ہٹائی گئیں تو اب بھی ہمیں فورس کیا جا رہا ہے کہ یہ منصوبہ نہ کریں۔ اب ایران پر مکمل پابندیاں ہٹ گئی ہیں، وزیر پیٹرولیم کو میں نے خود سنا ہے کہ اب ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ بھی چلے گا اور ٹاپی منصوبے پر بھی کام کریں گے۔ تمام منصوبوں پر کام ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی حکومت جاتے جاتے ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کام کرکے چلی گئی، جبکہ اب آپ لوگ بھی وہی کام کر رہے ہیں، چار سال ہونے کو ہیں، پھر الیکشن کا سال آجائے گا پھر یہ منصوبہ اگلی حکومت کو منتقل ہو جائیگا، تو آپکی اور پیپلزپارٹی کی حکومت میں فرق کیا رہ گیا ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دیکھیں ٹائم تو لگتا ہے نا، مجھے یقین ہے کہ اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے، میں نے خود سینیٹ میں سنا ہے کہ اس منصوبے پر کام شروع کیا جا رہا ہے، ہم یہ منصوبے مکمل کرکے جائیں گے، آپ کی لوڈشیڈنگ ختم کرکے جائیں گے۔ ہم نے سب کو گیس دینی ہے۔ ایران پاکستان گیس منصوبہ اگلی حکومت پر چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ میاں صاحب تاحال مستقل وزیر خارجہ نہیں لگا سکے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان تنہائی کا بھی شکار نظر آتا ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
وزیر خارجہ مستقل ہونا چاہیئے، لیکن جو مشیروں کا انتظام ہے کہ وہ بھی درست ہے، جن کو لگایا گیا ہے وہ بھی تعلیم یافتہ ہیں اور تجربہ کار لوگ ہیں۔ اس لئے یہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہے، پارلیمنٹ میں بھی اس پر بات ہوتی رہتی ہے، البتہ یہ وزیراعظم پر ہے کہ وہ مستقل وزیر خارجہ لگائیں۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: کلبھوشن یادیو کا معاملہ، اسکی ٹائمنگ اور ٹوئٹ جیسے مسائل، اس پر فرحت اللہ بابر نے بھی کہا کہ فوج کیجانب سے ہونیوالے ٹوئٹ خارجہ تعلقات پر اثرانداز ہوتے ہیں، آپ اس بات پر اتفاق کرتے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
میں اتفاق کرتا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ فوج کو ایسے امور پر ٹوئٹ نہیں کرنے چاہیئے، جس سے خارجہ تعلقات اور ڈپلومیسی متاثر ہو۔ کبھی بھی فوج کی طرف سے ایسا کام نہیں ہونا چاہیے، جس سے سیاسی قیادت زیر سوال آئے۔ ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ہم اپنے دائرے میں رہیں، کوئی بھی ایسا کام نہیں ہونا چاہیئے جس سے ملک کا سر جھک جائے۔

اسلام ٹائمز: یک قطبی نظام پاش پاش ہونے کو ہے، ترکی نے خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی کر دی، چائنہ، روس اور ایران نئے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے ہیں، کہہ سکتے ہیں کہ نیا محاذ سامنے آگیا ہے، ایسے میں پاکستان کو کس کیساتھ کھڑا ہونا چاہیئے۔ آیا پرانے بےوفا اتحادی امریکہ کیساتھ یا خطے کے ممالک کے ساتھ۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
آپ کا بہت ہی اچھا سوال ہے کہ دنیا کی گلوبل جیوپولیٹکس تبدیل ہو رہی ہے، ان میں نئی الائنمنٹس ہو رہی ہیں، پہلے انڈیا سویت یونین کے ساتھ تھا، اب چائنہ سامنے آ رہا ہے، ایک نئی طاقت بن رہا ہے، ایسے میں بھارت چائنہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، اسلحہ بھی خرید رہا ہے۔ روس تھوڑا الگ ہوا ہے، ہمارے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوگئے ہیں، ہم ایس سی او کے ممبر بن گئے ہیں، سنٹرل ایشیا ری پبلکن کے ساتھ اچھے تعلقات ہوگئے ہیں، ان چیزوں کو بہتری کی طرف لے جا رہے ہیں، ہم اس اتحاد کے ساتھ ہیں، امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی خراب نہیں کرنا چاہتے، البتہ امریکہ کی بےوفائی کا ایک ریکارڈ ہے، بھارت اس وقت چائنہ کیخلاف محاذ بنا رہا ہے، لیکن اس کا فوکس پھر بھی پاکستان ہے۔ تمام اسٹرائیکس پاور پاکستان کیخلاف ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل راشد محمود روس گئے ہوئے تھے، لگتا تو یہی ہے کہ روس کے قریب ہو رہے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
جی بالکل!، یہ اچھا بیلنس ہے، چین ہمارا ہمسایہ ملک ہے، چین اس وقت چھیالیس بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ کر رہا ہے، ہمارے انرجی کے مسائل حل ہوں گے، اس میں بیرون ممالک کی انویسٹمنٹ ہے، اس منصوبے (اقتصادی راہدری) کو ایران، افغانستان اور حتٰی بھارت بھی استعمال کرسکتا ہے، سب اس میں شریک ہوسکتے ہیں، ساری معاشی سرگرمیاں پاکستان میں ہوں گی۔

اسلام ٹائمز:مشرق وسطٰی کی صورتحال پر کیا کہتے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
مشرق وسطٰی کے ٹرمائل کا ذمہ دار مغرب ہے، یہ اسی کا ہی پیدا کردہ مسئلہ ہے۔ چل کوٹ کی رپورٹ میں سب کچھ بتا دیا گیا ہے، اس نے کہا ہے کہ ٹونی بلیئر نے سفارتی آپشن کو استعمال کئے بغیر ہی طاقت کا استعمال کیا، جو غلط کیا، اوباما نے بھی کہا کہ یہ چائس میری نہیں تھی، لیکن یہ ہماری مجبوری تھی کہ ہم اس کو لیکر چلتے۔ لیبیا میں انہوں نے گند کیا اور خود صدر اوباما نے تسلیم کیا ہے، ابھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ لیبیا سومالیہ بن گیا ہے، سول جنگ ہو رہی ہے، قبائل اور داعش لڑ رہے ہیں۔ امریکہ نے لیبیا کا لیڈر مار دیا، جس کے باعث اب یہ سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کے معاملے پر کیا کہتے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم:
دیکھیں شام میں بھی یہی ہوا ہے، بشار الاسد اور حافظ الاسد کی پالیسی سے اتفاق کریں یا نہ کریں، اسی طرح آپ صدام سے اتفاق کریں یا نہ کریں، اسے پسند کریں یا نہ کریں، لیکن یہ معاملہ ان کے ملکوں کا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں افغانستان سے بیرونی طاقتیں باہر نکلیں، وہ خود اپنا مسئلہ سلجھائیں گے۔ اسی طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک اپنا مسئلہ خود حل کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 569294
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش