0
Saturday 28 Jan 2017 22:17
امریکہ سمیت اسلام دشمن قوتیں اپنے عزائم کیلئے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں

مدارس ہماری تہذیب اور ایمان کے محافظ ہیں، منظم سازش کے تحت انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، مولانا سمیع الحق

اسلام کا دہشتگردی اور انتہاء پسندی سے کوئی تعلق نہیں، امریکہ خود سب سے بڑا دہشتگرد ہے، وہ کیا دہشتگردی ختم کریگا
مدارس ہماری تہذیب اور ایمان کے محافظ ہیں، منظم سازش کے تحت انہیں بدنام کیا جا رہا ہے، مولانا سمیع الحق
مولانا سمیع الحق جمعیت علمائے اسلام (س) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ ہیں، مولانا 18 دسمبر 1937ء کو اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے، انکے والد عبدالحق دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے بانی تھے۔ انہیں "بابائے طالبان" بھی کہا جاتا ہے، طالبان رہنما ملا عمر مولانا سمیع الحق کے قریبی دوستوں میں سے تھے، مولانا سمیع الحق کا دعویٰ تھا کہ طالبان کو افغانستان میں ایک سال کیلئے حکومت دیدی جائے، تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم بھی ہیں۔ مولانا متحدہ مجلس عمل کے بھی بانی رہنما ہیں، حرکت المجاہدین بنانے میں بھی مولانا کا ہی نمایاں کردار تھا۔ متحدہ دینی محاذ کے قیام میں بھی مولانا سمیع الحق نے اہم کردار ادا کیا۔ افغان جنگ میں مجاہدین کی تربیت اور بھرتی کا انتظام بھی مولانا کے ہی سپرد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان آج بھی مولانا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا سمیع الحق کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ نے 7 اسلامی ممالک کیلئے ویزوں کی پابندی عائد کر دی ہے، آپ اس اقدام کو کس نظر سے دیکتھے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:
ٹرمپ دنیا میں امن کیلئے خطرہ کی علامت بن چکا ہے، اسلامی ممالک پر پابندی سے دہشتگردی اور انتشار جیسے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا، امریکہ خود سب سے بڑا دہشتگرد ہے، وہ کیا دہشتگردی ختم کریگا؟ ہر امریکی حکومت نے ہمیشہ دنیا کو انتشار اور فساد کا شکار کرنے کی سازشیں کیں اور اب موجودہ امریکی صدر بھی اپنے فیصلوں میں اسلامی ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے، مگر امریکی صدر کو یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ امریکہ جو مرضی کر لے، وہ اپنے عزائم میں کسی صورت کامیاب نہیں ہوگا، بلکہ امریکہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے جا رہا ہے۔ اسلام کا دہشتگردی اور انتہاء پسندی سے کوئی تعلق نہیں، اصل میں امریکہ سمیت اسلام دشمن قوتیں اپنے عزائم کیلئے مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ نئے امریکی صدر کو جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاک افغان تعلقات میں کشیدگی پائی جاتی ہے، آپکی جماعت نے نیشنل ایکشن پلان پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے، جبکہ اس پلان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:
جب تک طالبان کیساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کئے جاتے افغانستان سے تعلقات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر مبنی افغانستان کیساتھ تعلقات کچھ بہتر نہیں، پاکستان پر ہمسایہ ممالک کیساتھ نرم اور دوستانہ رویہ رکھنے کی اہم ذمہ داری ہے۔ افغان مہاجرین کے مسئلے میں حساسیت تھی، حکومت نے پہلے جو پالیسی اختیار کی، اس سے بدمزگی پیدا ہوئی تھی۔ اب وفاقی اور صوبائی حکومت میں ایک حکمت عملی طے کرنے پر اتفاق رائے کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جب مہاجرین کی وجہ سے خرابیاں جنم لیتی ہیں، لیکن ان کو پابند بھی کیا جا سکتا تھا، ایران میں بھی افغان مہاجرین مقیم ہیں، لیکن وہاں انہیں قوانین کے تابع بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں مہاجرین نے کوئی خرابی نہیں پیدا کی۔ حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر ہمیں تحفظات ہیں، نیشنل ایکشن پلان میں کچھ ایسے نکات ہیں، جن کی بناء پر اسے قومی ایکشن پلان نہیں کہا جا سکتا، نیشنل ایکشن پلان دباؤ کے تحت بنایا گیا، جس کی کوئی وقعت نہیں، اس ایکشن پلان کو ختم ہونا چاہیے، بتایا جائے کہ کہاں اس پلان سے دہشتگردی کا خاتمہ ہوا، رویوں میں بگاڑ ہے، یونیورسٹی سے کوئی پکڑا جائے تو اسے چھپایا جاتا ہے، مدرسے سے کوئی پکڑا جائے تو اُسے اچھالا جاتا ہے، رویوں سے ہی جمہوریت کا تسلسل اور جمہوریت کو استحکام ملتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی نے بھی تو اس حوالے سے 4 نکات پیش کئے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:
ہم پیپلز پارٹی کے 4 نکات سے اتفاق نہیں کرتے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی قائم کرنے کا بھی مخالف ہوں، جمہوریت کو پروان چڑھانے کیلئے ہم نے سب کچھ برداشت کیا، لیکن اپوزیشن جذبات سے نہیں سنجیدگی سے کی جاتی ہے۔ پاناما کی تحقیقات کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق نہیں، ایک جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ پاناما لیکس کیلئے کمیشن بنایا جائے، تحریک انصاف کہتی ہے سپریم کورٹ فیصلہ کرے، پیپلز پارٹی اسے پارلیمنٹ میں حل کرنا چاہتی ہے، اپوزیشن میں پہلے اتحادی جماعتیں متحد تو ہوں، ہم اس حوالے سے بلاتفریق سب کا احتساب چاہتے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ سب کا احتساب کیا جائے۔ کسی کیساتھ رعایت نہ برتی جائے۔ بلاامتیاز احتساب ہوگا تو ہی ملک سے کرپشن ختم ہوسکے گی۔

اسلام ٹائمز: قائداعظم یونیورسٹی کے ایک شعبہ کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنیکی آپ نے مخالفت کی، حالانکہ وہ پاکستانی سائنسدان ہیں، اس میں کوئی حرج تو نہیں تھا۔؟
مولانا سمیع الحق:
صرف ہماری جماعت نے ہی نہیں، ملک کی دیگر جماعتوں اور علماء نے بھی شعبے کا نام ایک قادیانی کے نام سے منسوب کرنے کی مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ یہ ختم کرکے کسی مسلمان سائنسدان کے نام پر موسوم کیا جائے۔ موجودہ حکومت نے قادیانیوں کو نوازنے کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام ایک متعصب اور جنونی قادیانی تھا۔ جس نے وطن عزیز کیخلاف ہرزہ سرائی کی تھی۔ اس نے معاذاللہ کہا تھا کہ میں ایسی لعنتی زمین پر قدم نہیں رکھنا چاہتا، جہاں قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ہو، ایسے قادیانی کے نام سے یونیورسٹی کے شعبے کو منسوب کرنا ملک اور اسلام کیخلاف گہری سازش ہے۔ حکومت قادیانیوں کو نوازنے کا سلسلہ بند کرے۔ حکومت کے ایسے اقدامات سے مسلمانوں میں شدید اضطراب و اشتعال پایا جاتا ہے۔ جو کسی بھی وقت تحریک کا روپ دھار سکتا ہے۔ اگر حکومت نے یہ اقدام واپس نہ لیا تو اس کیخلاف عالمی مجلس ختم نبوت بھرپور تحریک چلائے گی۔ حکومت ایسے اقدامات سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے، کسی بھی یونیورسٹی کے شعبہ کو ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنا اسلام کی نظریاتی اساس پر حملہ ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں مخصوص ایجنڈے کے تحت لبرل ازم کو فروغ دیا جا رہا ہے، اس حوالے سے مذہبی حلقے کیا اقدام اٹھا رہے ہیں؟
مولانا سمیع الحق:
موجودہ حکمران ملک کو لبرل ازم کی طرف لے جا رہے ہیں، جمہوریت کے نام پر آمریت پر کروڑ بار لعنت بھیجتا ہوں، حکومت کو تمام برائیوں کی جڑ سمجھتا ہوں، دینی جماعتوں کو حکومت کیساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کرنا چاہیے، سندھ حکومت کے شرمناک اور اسلام دشمن بل پر مرکزی حکومت کی خاموشی اسلام دشمنی ہے، مشرف پاکستان کی تاریخ کے بدترین کردار اور ظالم شخص تھا، مسلم لیگ نے ہمیشہ مذہب کے نام پر حکومت حاصل کی، مگر اقتدار حاصل کرنے کے بعد اسلام کو نقصان پہنچانے اور عالمی سامراج کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی، موجودہ اسلام دشمن حکومت کیخلاف دینی قوتوں کو متحد کرنے کیلئے ہماری کاوشیں جاری ہیں اور میں آج بھی تمام دینی جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ متحد ہوکر اس کیخلاف جدوجہد کریں، جو ناموس رسالت کی دشمن ہے۔ موجودہ حکمران نام عشق رسول کا لیتے ہیں اور ممتاز قادری کو راتوں رات پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے، جو کام  زرداری نہ کر سکا، انگریز نہ کرسکے، وہ نواز شریف نے کر دیا۔ حکومت نے ملک کو لبرل ازم کی طرف لے جانے کیلئے وہ سیاہ اقدامات کئے ہیں، جو پی پی پی نے بھی اپنے دور میں نہیں کئے تھے۔ پنجاب اسمبلی کا تحفظ نسواں بل اور اب سندھ اسمبلی کا مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے پاس کئے جانے والے بل خالص اسلام دشمنی ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں لوگوں کو اسلام لانے سے روکا جا رہا ہے، جس کیخلاف تمام دینی قوتیں متحد ہیں، افسوس کہ سندھ حکومت کے اس بل کیخلاف مرکزی حکومت نے ایک جملہ تک نہیں کہا۔ نواز شریف محسن کش ہے، موجودہ دور میں ان سے بدترین شخص کسی کو نہیں سمجھتا، مشرف پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین کردار ہے، جس نے اسلام اور پاکستان کیخلاف دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس نے دینی اداروں کو نقصان پہنچایا، پاکستان کی سلامتی کو داؤ پر لگا کر امریکہ سے ڈالر لئے، تاریخ اس سیاہ کردار کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان نے کبھی بھی آپکی کسی تحریک کی حمایت نہیں کی، وہ ابتداء میں تو آپکے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن پھر اچانک الگ ہو جاتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:
ہم جب بھی کسی تحریک کا آغاز کرتے ہیں تو سب سے پہلے مولانا فضل الرحمان کو ہی اس میں شامل کرتے ہیں، مگر وہ یہ کہہ کر نکل جاتے ہیں کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کوئی اچھا کام کرے تو ہمیں اس کا ساتھ دینا چاہیے، مگر ہماری کوشش کے باوجود ابھی تک دینی قوتوں کا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا۔

اسلام ٹائمز: دفاع پاکستان کونسل بھی اسی وجہ سے ناکام ہوئی۔؟
مولانا سمیع الحق:
دفاع پاکستان کونسل ناکام تو نہیں ہوئی، بس کام جاری ہے، جب ضرورت محسوس ہوتی ہے، اجلاس طلب کر لیتے ہیں۔ ملک کیخلاف جب بھی کوئی سازش ہوئی یا دشمنوں نے کوئی وار کیا تو دفاع پاکستان کونسل ہراول دستے کا کردار ادا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ نے کہا کہ کالعدم تنظیموں کو دہشتگرد تنظیموں کے برابر کھڑا نہیں کیا جا سکتا، آپ اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:
وزیر داخلہ نے بالکل درست کہا ہے، یہ انتہائی حساس معاملہ ہے، ہماری بعض مذہبی تنظیموں کو محض اس لئے دہشتگرد قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔ ان کے اختلافات خالصتاً فقہی ہیں، ان پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ محض کسی کو فرقہ واریت کے باعث دہشتگرد قرار دینا سراسر ناانصافی ہوگی۔ اس سلسلہ میں سینیٹ میں وزیر داخلہ کے دیئے جانیوالے بیان کو سراہتے ہیں اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم محض پوائنٹ سکورنگ کیلئے کسی کو دہشتگرد قرار نہیں دے سکتے، پھر امریکہ و بھارت کی خوشنودی کیلئے کسی تنظیم یا فرد کو دہشتگرد قرار نہ دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: جب بھی دہشتگردی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی سلسلہ مدارس سے نکلتا ہے، اگر چھاپہ پڑے تو مذہبی قائدین شور مچاتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ مدارس کا ہی نام کیوں لیا جاتا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:
اس حوالے سے ہم دینی مدارس کی چھان بین اور چھاپوں کی اجازت نہیں دے سکتے، صرف ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی کسی مدرسے پر چھاپہ مارا جا سکتا ہے، وفاق المدارس الاسلامیہ کی سرپرستی میں چلنے والے کسی مدرسے کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں، ان مدارس میں ہم جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔ آج کل میڈیا بالخصوص ڈراموں اور فلموں میں مدارس کی جو تصویر پیش کی جا رہی ہے، حقیقت میں اس میں کوئی صداقت نہیں۔ ہمارے مدارس سے نکلنے والے اصحاب ہی بعدازاں علماء کرام بنتے ہیں، جو مساجد میں امامت کا حق ادا کرتے ہیں اور دینی تعلیم عام کرتے ہیں، مدارس معاشرے کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں، اس لئے انہیں بدنام نہ کیا جائے۔ انہیں مدارس کے طلباء نے دین کی تعلیم حاصل کرنے کیساتھ بعدازاں روس اور امریکہ کیخلاف عملی جہاد میں بھی حصہ لیا، اسی لئے بڑی طاقتیں انہیں بدنام کرتی ہیں۔ دینی مدارس معاشرے کی اصلاح میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن مدارس کیخلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، جس میں ہمارے میڈیا کے اداروں کا کردار بھی نمایاں ہے، لیکن مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش سے مدارس کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ مہران ایئربیس، آرمی پبلک سکول اور کوئٹہ میں وکلا پر حملے میں مدرسے کا کوئی طالب علم ملوث نہیں تھا، مدارس تخریب کاری نہیں بلکہ اصلاح کے ادارے ہیں، مدرسہ ہماری تہذیب کا محافظ اور ہمارے ایمان کی حفاظت کرتا ہے۔ ہم اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کا واقعہ ہوتا ہے، طالبان ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں، آپ نے کبھی مذمت تک نہیں کی، اے پی ایس سکول ہو یا لاہور میں گلشن اقبال پارک مرنے والے معصوم بچوں کا کیا گناہ ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:
ہم نے دہشتگردی کے ہر واقعہ کی مذمت کی ہے، ہم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کے حق میں نہیں ہیں، ہاں یہ مغربی میڈیا ہم پر الزام عائد کرتا ہے کہ ہم طالبان کے ساتھی یا سہولت کار ہیں، تو  میں واضح کر دوں کہ میرے روس کیخلاف افغانستان کی آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین کیساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں، دہشت گردوں کیساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کیساتھ ہمیں مغربی میڈیا جوڑ رہا ہے۔ وہ ایسی خبریں چلاتے ہیں، جیسے تحریک طالبان پاکستان میری ہدایت لے کر چلتے ہیں، ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن جب طالبان کیساتھ مذاکرات کی بات ہوتی ہے تو یہ ذمہ داری آپ ہی لیتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:
میں نے اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے عمل میں کردار ادا کیا تو وہ ہم نے حکومت کی اپیل پر کیا۔ حکومت کی جانب سے ہمیں کہا گیا کہ طالبان کیساتھ مذاکرات کروائیں۔ ہم نے ملک میں دہشت گردی اور قتل و غارت کے خاتمہ کیلئے مذاکرات میں کردار ادا کیا، لیکن حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، جس وجہ سے مذاکراتی عمل ناکام ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 605021
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش