0
Sunday 22 Oct 2017 04:04
کمیونٹی کو متحد رکھنے کیلئے ادبی محفلیں بہترین ذریعہ ہیں، سیاسی پروگراموں سے انتشار بڑھتا ہے

کینیڈین فیملی کی بازیابی امریکہ پاکستان کی سرزمین سے خود کرنا چاہتا تھا، محمد اکرم ذکی

چین، روس اور ایران کیساتھ تعاون بڑھا کر بہت سارے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں
کینیڈین فیملی کی بازیابی امریکہ پاکستان کی سرزمین سے خود کرنا چاہتا تھا، محمد اکرم ذکی
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا کردار ہیں۔ ملکی تاریخ میں اب تک دو شخصیات کو فارن سیکرٹری جنرل ہونیکا اعزاز حاصل ہوا ہے، جن میں ایک اکرم ذکی صاحب ہیں۔ انہوں نے چین، امریکہ، نائیجریا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں۔ انکو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان سے تربیت پانے والے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے قابلیت کے بل بوتے پر اعلٰی ترین عہدوں پر رسائی حاصل کی۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی 1991ء سے 1993ء تک وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے، جو کہ وزیر مملکت کے برابر شمار کیا گیا۔ 1997ء سے 1999ء تک سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل ایجوکیشن کمیشن کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی انجمن فروغ تعلیم کے بانی صدر بھی ہیں۔ انکو پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونیکا بھی اعزاز حاصل ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اہم فیصلوں میں انکی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور اسکے ذیلی اداروں سمیت کئی بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ جن میں جنرل اسمبلی، یو این ایچ سی آر، او آئی سی، ای سی او، اے بی ڈی، یو این سی ٹی اے ڈی، این اے ایم وغیرہ شامل ہیں۔ سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی اب بھی کئی پالیسی ساز تحقیقی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندہ اداروں سے منسلک ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ہیومین رائٹس آرگنائزیشن، پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے چیئرمین ہیں۔ اسی طرح پاکستان سنٹر فار گلوبل سٹڈیز اینڈ اسٹریٹجک سٹڈیز، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، سنٹر فار پاکستان اینڈ گلف سٹڈیز، چائینہ سٹڈی سنٹر (کامسٹ) کے بورڈ ممبر ہیں۔ اسی طرح بیداری فکر فورم کے پیٹرن ان چیف ہیں، جبکہ سی پی ایف اور سی ایل سی کے چیئرمین ہیں۔ محمد اکرم ذکی شاہ فیصل ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان کے چیئرمین جبکہ انجمن فروغ تعلیم کے صدر ہیں۔ ان سب کے علاوہ اکرم ذکی ایک شاعر ہیں، انکی ایک کتاب اشاعت کے آخری مرحلے میں ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کیلئے اکرم ذکی صاحب کیساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: آپکی مختلف نظمیں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوچکی ہیں، کیا آپ باقاعدہ شاعر بھی ہیں اور آپکی شاعری کا کتنا حصہ عوام کے سامنے آچکا ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
میں نے شاعری تو زمانہ طالب علمی سے ہی شروع کر دی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ گھر کا ادبی ماحول تھا، جس میں میرا بچپن گزرا۔ چند نظمیں مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوئی ہیں۔ البتہ ابھی شاعری کی ایک کتاب زیر اشاعت ہے۔ آئندہ چند دنوں میں اس کی رونمائی ہوگی۔ ان شاء اللہ

اسلام ٹائمز: گھر کے ادبی ماحول سے کیا مراد ہے۔ کیا آپکے والد بھی شاعر یا ادیب تھے۔؟
محمد اکرم ذکی:
جی نہیں والد صاحب وکیل تھے، تاہم گوجرانوالہ میں ہمارا گھر ادبی و علمی سرگرمیوں کا مرکز شمار ہوتا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر علم و ادب سے متعلق محافل سجتیں، جن میں اس وقت کے معروف ترین سیاستدان، شاعر، ادیب، دانشور آتے تھے، والد صاحب وکیل بھی تھے، علم و ادب کے قدردان اور ڈاکٹر محمد اقبال کے اتنے مداح تھے کہ گھر کا نام ہی اقبال منزل تھا۔ مذہب، فلسفہ، ادب، شاعری اور قانون سے متعلق ابتدائی تعلیم تو بچپن میں ہی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ پرائمری میں تھا کہ مولانا ظفر علی خان، حفیظ جالندھری، طفیل ہوشیار پوری، مجید لاہوری اور اس وقت کے نوجوان شاعر فیض احمد فیض کی صحبت نصیب ہوئی۔ حفیظ جالندھری سے ان کا شاہنامہ اسلام سنا۔ مولانا ظفر علی خان سے قادیانیوں اور کانگریس کے خلاف شعر سنے۔ مولانا ظفر علی خان کے گاندھی سے متعلق اشعار ازبر کر لئے تھے کہ "یہ جھوٹ کا چلتا چکر ہے اور مکر کی چلتی آندھی ہے" تو یہ اسی صحبت کا ہی اثر تھا کہ دس، گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنے لگا۔ اقبال کی تمام کتابیں گھر کی لائبریری میں موجود تھیں، وہ سب پڑھیں۔ تیرہ سال کی عمر میں اس طرح کے اشعار لکھے:
کی عطا وہ وسعتیں ہیں مجھے جوہر خودی نے
میری آنکھ میں سمائی تیری بیکراں خدائی
تیرے عشق نے جہاں سے، کیا بے نیاز ایسا
ٹھکرا دیا ہے دل نے، ہر گوہر عطائی


اسلام ٹائمز: ایک جانب وزارت خارجہ کی اہم ذمہ داریوں کی ادائیگی اور دوسری جانب شاعری، دو مختلف چیزیں ہیں، پھر کیسے انکو ساتھ ساتھ لیکر چلے۔؟
محمد اکرم ذکی:
مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ ادب کی جتنی خدمت کرنی چاہیئے تھی، وہ نہیں کر پایا۔ سفیر پاکستان کی حیثیت سے مختلف ممالک میں ذمہ داریاں ادا کیں، تاہم ہر ملک میں ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں، بڑے بڑے مشاعرے کرائے۔ سفیر کی حیثیت سے محسوس کیا کہ کمیونٹی کو متحد رکھنے کیلئے ادبی سرگرمیوں کا فروغ ضروری ہے، سیاسی سرگرمیوں سے کمیونٹی نفاق کا شکار ہوتی ہے اور ادبی محافل اسی کمیونٹی کو متحد رکھتی ہیں۔ چنانچہ جہاں بھی رہا ایسی محافل کا اہتمام کرتا رہا اور جہاں بھی رہا، شاعروں، ادیبوں، گائیکوں سے مراسم رکھے۔ اس دور میں جو کچھ لکھا، اگر وہ سارا کلام یکجا کیا جائے تو کئی کتابیں بن سکتی تھیں۔ تاہم کتاب کی اشاعت کے حوالے سے دو طرح کی مشکلات درپیش رہیں۔ اول یہ کہ وزارت خارجہ میں ہر چیز صیغہ راز میں رکھنے کی عادت پڑی تو شعر بھی راز میں رہے، ویسے بھی فارن پالیسی میں علم و ادب، شاعری سے شغعف رکھنے والوں کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ دوسری بڑی وجہ جب سفارتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کیلئے یورپ وغیرہ میں رہا تو وہاں زیادہ ادبی ماحول نہیں تھا۔ چنانچہ اس دوران زیادہ نہیں لکھا۔ یورپ کے بعد انڈیا آیا اور بعدازاں پاکستان سروس اکیڈمی۔ پاکستان میں قیام کے دوران نہ صرف بہت کچھ لکھا بلکہ کئی مشاعروں کی صدارت بھی کی اور اپنا کلام بھی پیش کیا۔ اس وقت نامی گرامی شعراء سے دوستی اور قریبی تعلقات بھی رہے، جن میں احمد فراز، قتیل شفائی، فیض احمد فیض قابل ذکر ہیں۔ تاہم خدا کی کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ جب پاکستان سے کینیڈا تبادلہ ہوا تو ان کا سارے کا سارا سامان جس میں شاعری کا کل ترکہ بھی شامل تھا، کارگو کمپنی نے گم کر دیا۔ جس کے باعث صرف شاعری ہی ضائع نہیں ہوئی بلکہ خارجہ پالیسی سے متعلق زیر طبع کتاب کا مسؤدہ بھی گم ہوگیا۔ ظاہر ہے یہ کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔ کینیڈا میں اور اس کے بعد جو شاعری کی، اسے اپنے دماغ میں بھی محفوظ رکھا۔ اب اسی شاعری کی کتاب زیر اشاعت ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کیجانب سے دھونس اور دباؤ کی پالیسی برقرار ہے، کیا امریکہ ہماری مجبوری ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
نہیں ایسا نہیں ہے، بات دراصل یہ ہے کہ قائداعظم اور قائد ملت لیاقت علی خان پاکستان کو کسی ایک خاص بلاک کیساتھ منسلک نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ کیمونزم بھی نہیں چاہتے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے تھے۔ 1932ء سے کیمونسٹ موومنٹ تھی، جس میں کچھ مسلمان بھی شامل ہو رہے تھے، تاہم وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ پاکستان بننے کے بعد جو آفیسرز تھے، وہ آئی سی ایس تھے۔ یعنی برطانوی راج سے متاثر اور برطانوی حکومت کے غلام۔ دوسری طرف حکومت میں ان فیوڈل لارڈز کا زیادہ عمل دخل تھا کہ جنہیں برطانوی حکومت نے نوازا تھا۔ انہیں تاج برطانیہ کیلئے خدمات سرانجام دینے کے صلے میں انعام کے طور پر بڑی بڑی جاگیریں وغیرہ ملی تھیں۔ ان سب کے علاوہ ایک طبقہ ان مولویوں پہ مشتمل تھا، جنہوں نے پاکستان کی پہلے مخالفت کی تھی، بعد میں پھر اسلام کے نام پر دباؤ ڈال کر اسمبلی سے بل منظور کرایا اور اس کی تشریح اپنے اسلام سے کی۔ یہ طبقہ بظاہر تو اسلام کی بات کرتا مگر اندر سے امریکہ و برطانیہ کے مفاد کو مقدم رکھتا۔ امریکن ان کی مدد پہلے تو اس طرح کرتے رہے کہ ان کی اسلامی کتابیں بڑی مقدار میں خرید لیتے تھے۔ پھر یہ تکلف بھی رہنے دیا اور ڈائریکٹ پیسے دینے لگے۔ اس کے مقابلے میں جنرل اکبر، فیض احمد فیض وغیرہ کا گروپ جو کہ کیمونسٹ تھا، ان کی پارٹی کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور رائٹ ونگ کو مکمل طور پر فری ہینڈ مل گیا۔ قائد ملت کے قتل کے بعد جو آئے یعنی ایوب، غلام محمد، سکندر مرزا یہ مغرب و امریکہ کے تائید کنندہ تھے۔ اس کے بعد ضیاء الحق یا موجودہ وزیراعظم کے والد امریکی کیمپ کے اہم افراد میں شامل تھے۔ ابھی تک وہی تسلسل جاری ہے۔ ہمارے موجودہ وزیر خارجہ نے امریکہ میں سے جو بیانات جاری کئے، وہ امریکی مفادات پہ ہی مبنی تھے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں کینیڈین فیملی کی رہائی کا معاملہ سامنے آیا، اسکے بعد بھی امریکی رویئے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، کیوں۔؟
محمد اکرم ذکی:
امریکہ جو ہاتھ پاکستان کے ساتھ کرنا چاہتا تھا، وہی ہاتھ اس کے اپنے ساتھ ہوگیا ہے۔ معاملہ تو یہ تھا کہ افغانستان سے اس فیملی کو پاکستان میں داخل کرکے امریکہ خود اس کی پاکستان سے برآمدگی کرنا چاہتا تھا، تاکہ جو الزامات تسلسل کے ساتھ پاکستان پہ عائد کئے جا رہے ہیں، ان کو ثابت کیا جاسکے اور چند روز میں امریکی خارجہ سیکرٹری ریکس ٹیلرسن پاکستان کیلئے ڈومور کا جو ایجنڈا لیکر آرہے ہیں، اس کے سامنے پاکستان زیادہ پس و پیش نہ کرسکے۔ تاہم پاکستان نے بروقت کارروائی کرکے نہ صرف مغویوں کو بازیاب کرایا بلکہ کچھ گرفتاریاں بھی عمل آئی ہیں۔ اس کارروائی کے باوجود سی آئی اے کے سابق سربراہ نے آج بیان دیا ہے کہ ہم پاکستان پہ اعتبار نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی انہوں نے یہ الزام بھی لگا دیا ہے کہ مغوی افغانستان میں نہیں بلکہ پاکستان میں قید تھے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے یہاں اپنی پالیسی کا تکلف چھوڑ کر بھارت کی پالیسی اپنا لی ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ کیساتھ ناخوشگوار تعلقات کے باوجود پاکستان کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں۔؟
محمد اکرم ذکی:
گرچہ ملکوں کا مستقبل اقوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، مگر یہاں امریکہ جس حد تک نفوذ کرچکا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے میں تو یہی کہوں گا کہ اگر مستقبل امریکی آلہ کاروں کے ہاتھوں میں رہا تو پھر تو بہت برا ہوگا اور اگر چین کے کردار کو سامنے رکھیں تو اچھے اور بہتر مستقبل کی امید ہے۔ وجہ یہی ہے کہ چین کو باقی اطراف سے تو امریکہ نے گھیرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اب اس کا راستہ ہی یہی ہے، وہ اپنا راستہ داؤ پر نہیں لگنے دے گا، چین اور روس یہ راستہ کھلا رکھیں گے۔ روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ چین، روس اور ایران کے ساتھ تعاون بڑھا کر بہت سارے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں، مگر یہ بھی سچ ہے کہ ایران کی جانب ہم اس طرح نہیں جا رہے، جس طرح جانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ایران کیساتھ تعلقات کے فروغ میں کیا امر مانع ہے۔؟
محمد اکرم ذکی:
ناعاقبت اندیشی کی بنیاد پر ایران کے مقابلے میں پالیسی کا جھکاو عربوں کی طرف ہوا ہے، حالانکہ یمن جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی احسن پالیسی اپنائی گئی تھی۔ اس کے باوجود بھی ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے ان تعلقات کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ حالانکہ اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری تھا کہ روس اور ایران بشارد الاسد حکومت کا ساتھ دیکر مغربی سرپرستی میں متحرک غیر ریاستی عناصر کا راستہ روک رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی حال میں اور ممکنہ طور پر مستقبل میں انہی مسائل کا سامنا ہے کہ جن سے نمٹنے کیلئے یہ ممالک مشترکہ جدوجہد کر رہے ہیں، لہذا پاکستان کو ابھرتی ہوئی اس طاقت کیساتھ تعلقات کو بڑھانا چاہیئے۔ اسی طرح امریکہ مختلف ممالک کو ساتھ لیکر جن میں بھارت، جاپان اور مشرقی ایشیا کے چند ممالک کو ساتھ لیکر چین کی اقتصادی ترقی کے سامنے دیوار بننا چاہتا ہے، جبکہ اسرائیل چند عرب ممالک کی مدد سے داعش کے ذریعے پورے مشرق وسطٰی کو تہہ و بالا کئے ہوئے ہے اور جس کے اثرات اب براہ راست افغانستان میں بھی مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اس عالمی منظر نامے میں چین، روس، ترکی، ایران امریکی و اسرائیلی پالیسیوں کی مخالفت میں موجود ہیں۔ پاکستان بھی ان تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے مذکورہ بلاک کے ساتھ تعاون بڑھائے اور تعلقات کو فروغ دے۔ ایران کے ساتھ تو اس حوالے سے اہمیت یوں بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ دونوں برادر اسلامی ملک پڑوسی بھی ہیں اور کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے نتھی ہیں۔

اسلام ٹائمز: نااہل شخص پارٹی سربراہ رہ سکتا ہے، پارلیمنٹ سے منظور ہونیوالے اس قانون کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد اکرم ذکی:
عمومی طور پر فوج کی جانب سے یہ قانون نافذ العمل کیا جاتا رہا ہے، جبکہ سیاسی قوتوں نے ہمیشہ اس کو ختم کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ قانون ایوب خان نے متعارف کرایا تھا کہ نااہل شخص پارٹی سربراہ نہیں رہ سکتا۔ بھٹو نے آتے ہی پہلے اس قانون کو ختم کیا، کیونکہ سیاسی قوتوں کی نظر میں نااہلی فوج کی جانب سے کی جاتی ہے۔ پھر مشرف نے اپنے دور حکومت نے اس قانون کو حصہ بنایا تھا۔ اب چونکہ اس قانون کے خاتمے سے فائدہ صرف نواز شریف کو مل رہا ہے، لہذا پیپلز پارٹی اس کی مخالفت کر رہی ہے، حالانکہ پیپلز پارٹی خود بھی یہ قانون نہیں چاہتی۔

اسلام ٹائمز: عالمی حالات یا کردار سے متعلق آپ نے شاعری میں کچھ لکھا ہو تو بیان فرمائیں۔؟
محمد اکرم ذکی:
میری ایک نظم لیلیٰ خالد سے متعلق ہے، جو کہ طیارہ اغوائیگی واقعہ کے اگلے دن لکھی تھی۔ وہ پیش ہے۔
ایک لیلٰی تھی کی محمل میں چھپی رہتی تھی
ایک لیلٰی ہے کفن باندھ نکل آئی ہے
ایک لیلٰی تھی کہ مجنوں ہوا شیدا جس پر
ایک لیلٰی ہے کہ آزادی کی شیدائی ہے
ایک لیلٰی تھی کہ محمل میں چھی رہتی تھی
ایک لیلٰی ہے کہ کفن باندھ نکل آئی ہے

وہ بیابانوں میں پھرتی تھی محبت کے لئے
یہ بیابانوں سے اُٹھی ہے بغاوت کے لئے
محو پیکار ہے آزاد ریاست کے لئے
جان پر کھیل کے لڑتی ہے صداقت کے لئے
ایک لیلٰی تھی کہ محمل میں چھی رہتی تھی
ایک لیلیٰ ہے کہ کفن باندھ نکل آئی ہے

کربلاؤں کی قسم، ماہ محرم کی قسم
رسم زینب سے تیری خوب شناسائی ہے
ایک لیلٰی تھی کہ محمل میں چُھپی رہتی تھی
ایک لیلٰی ہے کفن باندھ نکل آئی ہے

کتنی خاموش تھی، غم نوش تھی، دلگیر تھی وہ
کتنی پر ہوش ہے، پر جوش ہے، شمشیر ہے یہ
ایک معصوم سی، مظلوم سی تصویر تھی وہ
اور تقدیر کی تعمیر کی تدبیر ہے یہ
ایک لیلٰی تھی کی محمل میں چُھپی رہتی تھی
ایک لیلٰی ہے کفن باندھ نکل آئی ہے
خبر کا کوڈ : 678320
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش