0
Monday 22 Oct 2018 16:48
کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ حکومت میں آئے

ضمنی الیکشن پر اپوزیشن جماعتوں کا اظہار اطمینان ہماری اصل کامیابی ہے، محب اللہ خان

خیبر پختونخوا کی عوام صرف ان لوگوں کو آگے لاتی ہے جو وقت ضائع کرنیکی بجائے عملی اقدامات کرتے ہیں
ضمنی الیکشن پر اپوزیشن جماعتوں کا اظہار اطمینان ہماری اصل کامیابی ہے، محب اللہ خان
صوبائی وزیر زراعت محب اللہ خان کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ کارکنوں میں ہوتا ہے۔ انکا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے ہے۔ 20 دسمبر 1968ء کو سوات میں پیدا ہوئے۔ عام گھرانے سے تعلق رکھنے والے محب اللہ خان نے اپنی محنت اور مسلسل جدوجہد کی بدولت علاقے کی سیاست میں اپنے لئے مقام بنایا۔ محب اللہ خان 2013ء کے عام انتخابات میں پہلی بار حصہ لیکر کامیاب ہوئے تھے اور پہلے مرحلے میں ہی انکو صوبائی کابینہ کا حصہ بنایا گیا تھا۔ وہ وزیراعلٰی پرویز خٹک کے معاون خصوصی برائے لائیوسٹاک تھے۔ اس حیثیت سے انہوں نے اپنے حلقے میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام مکمل کروائے جبکہ لائیوسٹاک کیساتھ ساتھ ماہی پروری جیسے نیم مردہ محکمہ میں بھی جان ڈال دی۔ اس بار 2018ء کے عام انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر حلقہ PK-8 سوات VII حصہ لیا اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر انکا نام کابینہ کی لسٹ میں شامل کیا گیا اور اس بار انکو زراعت، لایوسٹاک، فشریز اور کواپریٹیو کا وزیر بنایا گیا۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے انکی وزارت اور دیگر مسائل سے متعلق خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نے روایت کے برعکس ایک بار پھر صوبہ میں حکومت بنائی ہے، آپکے خیال میں اس کامیابی میں سابق صوبائی حکومت کی کارکردگی کا عمل دخل کتنا رہا۔؟
محب الله خان:
یہ حقیقت ہے کہ صوبے کی سیاسی و پارلیمانی روایات کے برعکس پاکستان تحریک انصاف نے مسلسل دوسری بار بھی شاندار کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر حکومت قائم کرلی ہے۔ میرے خیال میں اس مرحلے پر سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی، ان کی بہترین قیادت کی وجہ سے ہمیں کامیابی ملی۔ عمران خان نے جس طرح کرپشن فری معاشرے کی تشکیل اور عام آدی کو اوپر لانے کے ایجنڈے کے تحت اپنے کارکنوں کی تربیت کی، اسی کی روشنی میں پرویز خٹک نے اپنے وزراء اور ممبران اسمبلی کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا، چونکہ وہ میچورڈ اور تجربہ کار سیاسی رہنماء ہیں، اس لئے اپنی ٹیم کو بہتر اور کامیاب انداز میں چلایا اور یوں ہمیں کامیابیاں ملتی چلی گئیں۔ ہمارے وزراء اور اراکین اسمبلی 5 سال تک اپنے لوگوں کے ساتھ قریبی رابطے میں رابطے میں رہے۔ ان تک رسائی کبھی مشکل نہیں رہی تھی، اسی طرح ہم نے اپنے اپنے علاقوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے اور ساتھ ہی صوبے کیلئے بہترین قانون سازی اور عملی اقدامات کے ذریعے اداروں کو استحکام بخشا، ہمارے پچھلے دور میں 1 لاکھ سے زائد افراد کو سرکاری ملازمتیں ملیں اور اس کیلئے میرٹ کو بنیاد بنایا گیا، یہی وجوہات تھیں کہ صوبے کے لوگوں نے بھی روایت توڑتے ہوئے ایک بار پھر ہم پر اعتماد کا اظہار کیا۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ باشعور اور مکمل طور پر اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اور صرف ان لوگوں کو آگے لاتے ہیں، جو وقت ضائع کرنے کی بجائے عملی اقدامات کرتے ہیں، اسی لئے ایک بار پھر ہم آپ کے سامنے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت قائم ہونیکے بعد سے 100 روزہ پلان کا بڑا شور مچا تھا، اس پلان کی ضرورت و اہمیت کے حوالے سے بتائیں۔؟
محب اللہ خان:
صاف بات ہے کہ ہر محکمے کو اگلے 5 سال کے اہداف حاصل کرنے کیلئے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے، جس کیلئے نئی پالیسی بنیاد بنتی ہے۔ ساتھ ہی اندرونی کوتاہیوں پر قابو پانا اور مثبت پہلوؤں کو اُجاگر کرنا بھی ضروری ہے اور اس کیلئے 100 روزہ پروگرام متعارف کرایا گیا ہے۔ اس پروگرام سے تمام محکموں کو اگلے 5 سال کا روڈ میپ مل سکے گا، جس سے سرکاری اداروں کے کاموں میں یکسوئی آسکے گی۔ ساتھ ہی تمام محکموں اور اس کے ذیلی اداروں کے سربراہوں کو اہداف دیئے جائیں گے، جس کے بعد اداروں کی کارکردگی میں بہتری آسکے گی۔ حکومتی وژن کے مطابق سرکاری اداروں سے کام لینے کیلئے ہی 100 روزہ پروگرام تیار کئے جا رہے ہیں، گویا آنے والے حالات کے لئے پہلے سے تیاری کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت شعبہ زراعت کی ترقی اور زرعی خود کفالت کی منزل کے حصول کیلئے کس قسم کی تیاریاں جاری ہیں، جو خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ صوبہ کے مسائل میں کمی لاسکیں۔؟
محب الله خان:
ایک اندازے کے مطابق ہمارا صوبہ 2 کروڑ ایکڑ سے زائد رقبہ پر مشتمل ہے، جس میں سے صرف 40 یا 42 لاکھ ایکڑ ہی زرعی مقاصد کیلئے استمال ہو رہی ہے جبکہ اس میں مزید اضافہ ناگزیر ہے۔ اس مقصد کیلئے صوبائی حکومت غیرآباد اور بنجر زمینیں قابل کاشت بنانے کیلئے پوری طرح سے سرگرم ہے۔ یہ اعزاز بھی پی ٹی آئی کی پچھلی حکومت کو حاصل ہے کہ اس نے زمینیں ہموار کرنے کیلئے 19 بلڈوزر خریدے تھے، جبکہ اس بار ہم مزید 20 سے 30 تک بلڈوزر خریدیں گے۔ گویا پچھلے 65 برس میں اتنے بلڈوز نہیں خریدے گئے جتنے ہم نے 5 سال میں خریدے ہیں۔ اس سے پی ٹی آئی کی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مگر موجودہ زرعی زمینیں تیزی سے ہاؤسنگ سکیموں کی زد میں آتی جا رہی ہیں، اس کے تدارک کیلئے کیا کیا جا رہا ہے۔؟
محب اللہ خان:
آپ نے بالکل ٹھیک مسئلے کی جانب نشاندہی کی، بدقمستی سے ماضی میں اس طرف سے آنکھیں بند رکھی گئیں، جس سے بہت زیادہ اور قیمتی زرعی اراضی مکانات کی تعمیر کی نذر ہوگئی ہے۔ مگر اب ہم اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے والے ہیں، کیونکہ زرعی زمینوں کا تحفظ ضروری ہوچکا ہے۔ اس مقصد کیلئے پہلے مرحلہ میں موثر قانون سازی کی جائے گی، جس کیلئے تیاریاں جاری ہیں، جلد ہی صوبائی اسمبلی میں قانون منظوری کیلئے پیش کر دیا جائے گا، جس کے بعد اس حوالے سے فوری کارروائی بھی شروع کر دی جائے گی۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنجر اور بے آباد زمینوں پر بنانے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، تاکہ قابل کاشت زمینیں بچائی جاسکیں۔

اسلام ٹائمز: زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیلئے تحقیق بہت ضروری ہے، اس جانب کتنی توجہ دی جا رہی ہے۔؟
محب اللہ خان:
جی بالکل ریسرچ کا شعبہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے، ہم اس پر پوری توجہ دیئے ہوئے ہیں، ٹنل فارمنگ اور گرین ہاوسز بھی ہماری نظر میں ہیں، اگرچہ ہمارے پاس ہمیشہ سے وسائل کی کمی رہی ہے، مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ موجودہ وسائل کے اندر رہتے ہوئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائیں گے۔ اسوقت پورے ملک کی طرح ہمارا صوبہ بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، جس سے صوبے کی فضاء پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ موسم میں حیران کن بلکہ پریشان کن حد تک فرق آیا ہوا ہے۔ اس کی مثال خود میرے گاؤں کی ہے، جہاں آج سے 15، 20 برس قبل تک موسم سرما میں 3 سے 4 فٹ تک برف پڑتی تھی، جو پھر مئی جون تک موجود رہتی اور ہم اسے استعمال کرتے تھے۔ مگر آج جنگلات کے بے دریخ خاتمے کی وجہ سے برف باری ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہے۔ جنگلات کے خاتمے سے پانی کا مسئلہ بھی یقینی ہوگیا ہے، اس سلسلے میں پوری قوم کو سوچنا ہوگا۔ ماضی میں اس حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا، ہم نے گذشتہ دور حکومت میں پہلی بار اس جانب توجہ دی۔

موجودہ حالات میں واٹر مینجمنٹ کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے، کیونکہ برف باری میں کمی سے پانی میں بھی کمی آگئی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے رہنما عمران خان نے گذشتہ دور حکومت میں بلین ٹری سونامی منصوبہ کا آغاز کیا اور آج پوری دنیا اس کا اعتراف کر رہی ہے۔ جنگلات نہ ہونے سے زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے، جس سے ٹیوب ویل بھی ناکارہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں گرین اور کلین پاکستان ہم سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنا کردار نبھانا ہوگا، کیونکہ عوامی شعور کی بیداری کے بغیر کوئی حکومتی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ اگلے 5 سال میں ملک بھر میں 10 ارب درخت لگانے کی مہم کامیاب بنا کر دکھائیں گے اور اس کامیابی کیلئے اس کو نصاب کا حصہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو بھی سے اس سلسلے میں باشعور بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ہاں آبپاشی کے روایتی طریقوں کے استعمال سے بھی بہت سا پانی ضائع ہوتا ہے، یہ ضیاع روکنے کیلئے کون سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔؟
محب اللہ خان:
ایک اندازے کے مطابق روایتی اور فرسودہ طریقوں سے کھیتی باڑی کیلئے پانی استعمال کرنے کی وجہ سے 90 سے 95 فیصد تک پانی ضائع ہو رہا ہے، ہم نہ صرف یہ پانی بچائیں گے بلکہ جو 5 سے 10 فیصد پانی استعمال ہو رہا ہے، اس میں بچت لائیں گئے۔ اس کیلئے ڈرپ ایری گیشن پر توجہ دی جا رہی ہے، اس سلسلے میں آپ کو یہ تلخ حقیقت ضرور بتانا چاہوں گا کہ روایتی کچے نالوں اور کھالوں کی وجہ سے پانی ضائع ہوتا ہے۔ ہمارے صوبے میں ان واٹر کورسز کی تعداد 76 ہزار کے لگ بھگ ہے، جن میں سے پچھلے 70 سال کے دوران محض 25 ہزار ہی پختہ بنائی جاسکی ہیں، گویا دو تہائی سے زیادہ کھالیں پختہ کرنے کا مرحلہ ابھی سر کرنا باقی ہے۔ اس سلسلے میں ہم اس بار پہلے مرحلہ میں 7 ارب روپے کی سکیم لائے ہیں، جبکہ مستقبل میں ورلڈ بینک کے تعاون سے 33 ارب روپے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، تاکہ تمام کھالوں کو پختہ کیا جاسکے، یوں بہت بڑی مقدار میں پانی ضائع ہونے سے بچا سکے گا۔

اسلام ٹائمز: لائیوسٹاک کے شعبے کی اہمیت تو بہت ہے، مگر اسے ہمیشہ سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، صوبے میں دودھ اور گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے آپکی حکومت اس شعبے میں کون سے اقدامات کرنے جا رہی ہے۔؟
محب اللہ خان:
ہماری زندگی میں زراعت اور لائیوسٹاک کا کردار بہت اہم ہے، ناشتہ سے لیکر کھانے تک اور لباس سے لے کر جوتوں تک ہماری زندگی انہی دو شعبوں کے محتاج چلی آرہی ہے، ہمارا ملک زرعی ملک ہے مگر اس کے باوجود زراعت اور لائیوسٹاک سب سے زیادہ نظرانداز کئے جانے والے شعبہ جات ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ حکومتیں سب سے زیادہ توجہ انہی دو شعبوں پر دیتیں، مگر اب یہ کمی ہم پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گوشت اور دودھ کی پیداوار میں اضانے کیلئے ہم نے سابق دور میں بھی کئی منصوبے شروع کئے تھے، اس غرض سے بچھڑوں کے تحفظ کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کے کافی مثبت نتائج سامنے آئے تھے، اس بار بھی نئی اسکیمیں لائیں گے۔

اسلام ٹائمز: شہریوں کو مضر صحت دودھ سے نجات دلانے کیلئے کون سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔؟
محبت الله خان:
اگرچہ یہ اختیارات ہمارے پاس نہیں، اس کیلئے فوڈ سیفٹی اتھارٹی بنائی گئی ہے۔ مگر ہم نے اس سلسلے میں تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں 2، 2 ملک ٹیسٹنگ لیبارٹریاں مہیا کر رکھی ہیں، جن میں سے 7 موبائل لیبز ہیں، تاکہ جہاں بھی ضرورت ہو موقع پر دودھ کے نمونے چیک کرنے کیلئے لے جائے جاسکیں۔ ہم پہلے ضلعی انتظامیہ کو اپنی خدمات پیش کرتے تھے، اب فوڈسیفٹی اتھارٹی کو اپنی خدمات مہیا کئے ہوئے ہیں، تاہم اب ہم اس مقصد کیلئے قانون سازی کر رہے ہیں، تاکہ نہ صرف دودھ چیک کرنے بلکہ موقع پر کارروائی کے اختیارات بھی حاصل کئے جاسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذبح خانوں میں صفائی اور قصابوں کی دکانوں کی حالت اور خود قصاب حضرات کی صحت کے حوالے سے پڑتال کا اختیار بھی لینے کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے، تاکہ شہریوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق گوشت کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے۔

اسلام ٹائمز: محکمہ ماہی پروری کو مزید فعال کرنے کیلئے اس بار کونسا منصوبہ بنایا گیا ہے۔؟
محب اللہ خان:
میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پچھلی بار جب میں نے اس محکمے کا چارج سنبالا تھا تو یہاں کام چور اہلکاروں کا راج تھا، جو ایک طرف ہوکر صرف تنخواہیں لے رہے تھے۔ ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی، مگر میں نے متحرک پالیسیوں کے ذریعے اس نیم مردہ محکمہ میں جان ڈال دی، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گذشتہ 65 برس کے دوران ہمارے صوبے میں ٹراؤٹ فش فارمز کی تعداد محض 15 تھی، مگر آج یہ تعداد بڑھ کر 200 ہوچکی ہے، جبکہ اس بار نہ صرف صوبائی بجٹ میں مزید 200 فارمز بنانے کی تجویز ہے بلکہ پہلی بار اس سلسلہ میں مرکز سے بھی 200 فارمز کا منصوبہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہماری یہ کوشش بھی ہے کہ چار ہیچریز اور دو ٹراؤٹ ویلجز بھی قائم کئے جائیں، تاکہ روزگار اور آمدن کے مواقع بڑھیں۔ دوسری طرف ہم پھلوں کی پیداوار میں چونکہ خوکفیل ہیں، مگر بدقسمتی سے ان کی بہت بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے، جس کے بعد اب پہلے مرحلہ میں آڑو کا جوس بنانے اور اس کو خشک کرنے کیلئے انڈسٹری کا قیام عمل میں لانے کے اقدامات کئے جائیں گے۔

ہم صوبے میں زیتون کے باغات بھی لگانے جا رہے ہیں، سوات ایکسپریس وے کے دونوں کناروں پر پھیلے وسیع رقبے پر زیتون کے باغات لگائے جائیں گے، جس کیلئے جامع منصوبہ بندی کی گئی ہے، جبکہ منصوبے میں سوات کا وسیع رقبہ بھی شامل کیا گیا ہے، جس کے تحت مقامی زمینداروں کو زیتون کے پودے مفت مہیا کئے جائیں گے اور پیداوار کی خریداری کی گارنٹی بھی کاشتکاروں کو دی جائے گی۔ صوبے میں زیتون کے تیل اور مصنوعات کی پیداوار میں اضافے کیلئے ایک بڑے منصوبے پر کام جاری ہے، زیتون کا پودا 3 سال بعد درخت بن جاتا ہے، زیتون کا تیل افادیت کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ زیتون کا درخت سال کے 12 مہینے سر سبز شاداب رہتا ہے، جس سے ماحولیاتی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں حکومت کیطرف سے محکمہ ماہی پروری کیلئے بعض افسران اور اہلکاروں کو معطل کیا گیا، جس پر بڑا شور شرابا ہوا، اس حوالہ سے کچھ بتایئے۔؟
محب اللہ خان:
پاکستان تحریک انصاف کا ایجنڈا ہمیشہ سے میرٹ کی بالا دستی رہا ہے اور اس پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارے سابق دور میں مذکورہ محکمہ میں بھرتیاں ہو رہی تھیں، جن میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے مسلسل شکایات سامنے آرہی تھیں، جس پر ہم نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی، اس دوران ہماری حکومت بھی ختم ہوگئی مگر محکمانہ کارروائی جاری رہی، فشریز ڈیپارٹمنٹ میں بھرتیوں کے عمل میں قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے حوالے سے عوامی شکایات موصول ہو رہی تھیں، ہم نے انکوائری مکمل ہونے تک بھرتی کا عمل روک دیا تھا۔ مذکورہ انکوائری میں ڈی جی فشریز کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ اس رپورٹ کی منظوری چیف سیکرٹری نے دی تھی اور اسی کی بنیاد پر مذکورہ افسران کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ہم کسی کو بھی میرٹ کو پیروں تلے روندنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ بتاتے جائیں کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشستیں کیوں ہار گئی۔؟
محب الله خان:
(ہنستے ہوئے) سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، اصل مسئلہ اپنی شکست کو تسلیم کرنا ہوتا ہے، جس کیلئے جمہوری مزاج اور بلند حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیرت ہوتی ہے مجھے اپوزیشن جماعتوں پر کہ جو محض پی ٹی آئی دشمنی میں ایک ہوگئیں اور محض چند سو ووٹوں سے سیٹ جیت کر ایسے جشن منا رہی ہیں، گویا انہوں نے پورا صوبہ ہی فتح کرلیا ہو۔ حالانکہ ہم نے ان کے مقابلہ میں ہم نے نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے، چند نشتوں پر اپوزیشن کا جشن اور کسی کی نہیں پی ٹی آئی اور اس کی حکومت کی قتح ہے، کیونکہ جو اپوزیشن جماعتیں غیر جانبدار نگران حکومت کے دور میں ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں، وہی جماعتیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہونے والے انتخابات پر مکمل طور پر اطمینان کا اظہار کر رہی ہیں، اب آپ ہی بتایئے کہ یہ جیت کس کی ہوئی۔
خبر کا کوڈ : 757267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش