0
Sunday 28 Apr 2019 20:37

بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ایران کیساتھ ہمارے تعلقات وہ نہیں جو ہونے چاہیئں، علامہ عابد حسینی

بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ایران کیساتھ ہمارے تعلقات وہ نہیں جو ہونے چاہیئں، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے سعودی حکومت کیجانب سے 37 بے گناہ افراد کو سزائے موت دینے اور پاک ایران تعلقات کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سعودی حکومت کیجانب سے 37 بیگناہ افراد کو صرف سیاسی اختلاف کی بنا پر سزائے موت دینے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟ 
علامہ سید عابد الحسینی:
37 افراد کا قتل ہو یا کوئی بھی اور معاملہ، سعودی عرب جو بھی کام کرتا ہے، وہ امریکہ اور اسرائیل کی ایماء پر اور انہی کی اجازت سے کرتا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے لئے عالمی قانون اور عدالت میں کوئی حد مقرر نہیں۔ چنانچہ وہ ہر کام نہایت دلیری سے سرانجام دیتے ہیں۔ یہی کام اگر دنیا کا کوئی اور ملک سرانجام دیتا تو امریکہ و یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک نیز انسانی حقوق کے ادارے سراپا احتجاج بن جاتے، لیکن چونکہ امریکہ کے غلام نے یہ کام سرانجام دیا ہے، لہذا اس حوالے سے سب خاموش ہیں۔ ہم اس واقعے کی بھرپور انداز میں مذمت کرتے ہیں اور عالمی اداروں خصوصاً انسانی حقوق کے نام پر شور مچانے والے اداروں سے خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آزادی کا سانس لیتے ہوئے اس بھیانک واقعے کی عالمی سطح پر مذمت کریں۔ نیز اقوام متحدہ سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ سعودی عرب کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کرائیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے ان مظلوموں کا مستقبل تو مزید تاریک نظر آرہا ہے، اسکا علاج کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
سب سے پہلے تو دنیا بھر کے مستضعفین خصوصاً مومنین کا فریضہ بنتا ہے کہ دنیا کی سطح پر اس واقعے کی مذمت کریں اور اپنے اپنے ممالک کو سعودی عرب سے احتجاج کرنے کی سفارش کریں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو مراسلے بھیجیں اور علاقائی سطح پر احتجاجی جلسے اور جلوس منعقد کرائیں۔ اسکے علاوہ سعودی عرب کے مظلومین کو چاہیئے کہ مظلومیت کی ایک حد ہوتی ہے، مزید مظلوم بننے کی بجائے اپنے جائز مطالبات کے حق میں یمنی عوام کی طرح مسلح تحریک چلائیں۔ اس کے علاوہ دیگر مظلومین و مستعفین جہاں کو چاہیئے کہ ان کی سیاسی، اخلاقی اور مالی مدد کریں۔

اسلام ٹائمز: ایسے کمزور عوام کا سعودی عرب جیسے امیر اور طاقتور ملک کیخلاف تحریک چلانا کوئی معنی رکھتا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
سعودی عرب کوئی طاقتور ملک نہیں بلکہ چار سال میں نہایت کمزور اور نہتے یمنیوں کا مقابلہ نہیں کرسکا، جن پر دن رات بمباری کر رہا ہے،اس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ تو موجود ہے، تاہم کسی بھی عرب ملک میں ایمان موجود نہیں۔ اگر ایمان موجود ہوتا تو آج فلسطینی دربدر نہ ہوتے۔ یہ بات میں ببانگ دہل کرتا ہوں کہ سعودی عرب کے اندر آج کسی بھی تنظیم یا قبیلہ نے مسلح جہاد کا اعلان کیا تو اس ملک کے 80 فیصد عوام اس کے ساتھ مل جائیں گے اور انگریز ساختہ اس ناجائز ملک کا ستیاناس کر دیں گے۔

اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور ایران کیساتھ پاکستان کے سابقہ اور موجودہ تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
اسلامی ممالک کی پالیسی ان ممالک کے اندر نہیں بنتی بلکہ باہر سے درآمد ہوتی ہین۔ جس کا اعتراف حالیہ دنوں میں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک وفاقی وزیر نے بھی کیا۔ ہمارے ملک کے حکمران خواہ وہ جس پارٹی سے بھی تعلق رکھتے ہوں، آزاد نہیں ہیں۔ بیرونی دباو کے تحت اس وقت پاکستان کا رجحان ایران کی نسبت سعودی عرب کی جانب زیادہ ہے، حالانکہ آزاد ملک کی حیثیت سے اسے ایران کی قیمت پر سعودی عرب اور سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کی قیمت پر ایران یا کسی اور ملک کے دباؤ میں نہیں آنا چاہیئے، مگر پاکستان بیرونی قوتوں کے دباؤ میں آکر ایران کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی لانے میں ناکام رہا ہے۔

لہذا ایران کے ساتھ گیس کا معاہدہ ہو یا بجلی اور تیل کا، امریکہ اور یورپ کے خوف سے ہم انجام نہیں دے سکتے۔ حالانکہ پاکستان کو اس وقت توانائی کی بہت ضرورت ہے۔ امریکہ یا کوئی بھی دوسرا ملک پاکستان کی یہ ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود بھی پاکستان اپنی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایران کے ساتھ سودا نہیں کرسکتا۔ حالانکہ دوسری جانب انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک کسی طاقت کا خیال رکھے بغیر ایران کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں، جبکہ ہم نہیں کرسکتے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ خرچ کر رہا ہے، حالانکہ وہ ہم سے زیادہ اہمیت انڈیا کو دے رہا ہے، جس کا بھانڈہ حالیہ دورہ ہندوستان کے دوران پھوٹ چکا ہے۔ چنانچہ میرے خیال میں پاکستان کے تعلقات جس ملک کے ساتھ بھی ہوں، وہ بیرونی دباؤ کا شکار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 791147
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش