1
1
Wednesday 1 Jun 2022 22:53

مجلس علمائے شیعہ کے رہنماء علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو

مجلس علمائے شیعہ کے رہنماء علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا خصوصی انٹرویو
علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سے حاصل کی۔ جسکے بعد جامعۃ المنتظر لاہور سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک جامع مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں خطیب کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ اسکے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پاکستان واپسی پر وحدت کونسل کے سینیئر نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھالا اور پھر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے قومی و ملی ذمہ داریاں سنبھالیں، اسوقت علامہ سید عبدالحسین الحسینی مجلس علمائے شیعہ پاکستان خیبر پختونخوا کے صدر ہیں، ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید عبدالحسین الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ سے ملک کی سیاسی صورتحال عدم استحکام کا شکار ہے، ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں اور یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ۔ آپ نے درست فرمایا کہ اس وقت ملک کی سیاسی صورتحال کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ہے، عوام کافی عرصہ سے گوں مگوں کیفیت کا شکار ہیں، ملکی معیشت اور مہنگائی کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ عمران خان کو قوم نے مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ پانچ سال ملک کی حکمرانی کریں اور اپنے وعدے پورے کریں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے بعض وعدوں پر عمل نہیں کیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے سامنے مسائل بہت زیادہ تھے، تاہم میرے خیال میں عمران خان کو مکمل موقع ملنا چاہئے تھا۔ اگر آپ اس وقت صاحب اقتدار جماعتوں کی بات کریں تو انہیں تو عوام ایک سے زائد بار آزما چکے ہیں، ان کی کارکردگی تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لہذا عدم اعتماد کے نام پر جو کھیل کھیلا گیا وہ قطعی طور پر درست نہیں تھا، عمران خان کو پانچ سال کا وقت دیا جانا چاہئے تھا، اور پھر ان کی جو بھی کارکردگی ہوتی، عوام الیکشن میں اپنا فیصلہ سنا دیتے۔

اسلام ٹائمز: اب تو یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ سیاسی تبدیلی امریکی مداخلت کے نتیجے میں آئی، کیا امریکہ کو اس طریقہ سے کسی آزاد ریاست کے داخلی امور میں مداخلت کا حق ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
یہی مذاق تو پاکستان کے ساتھ تسلسل کیساتھ کیا جارہا ہے، اگر اسی قسم کی مداخلت پی ٹی آئی کے علاوہ کسی دوسری جماعت کے دور حکومت میں ہوتی تو تب بھی ہم نے اس کی مذمت کرنی تھی۔ ہمارے علمائے کرام اور قائدین کا اس حوالے سے واضح موقف ہے کہ پاکستان میں امریکی مداخلت کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ امریکہ کی مداخلت اور سازش پر پوری قوم متحد ہے اور اس کیخلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور محض اقتدار کی خاطر غیر ملکی آلہ کار بننے سے گریز کرنا چاہئے، میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح غیر ملکی آلہ کار بننے والوں کو نشان عبرت بنانا چاہئے، انہی میر جعفر و میر صادقوں کی وجہ سے ہماری یہ حالت ہے۔ بہت ہوگیا، اب یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک وفد نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کی، جبکہ ریاست پاکستان کا غاصب صیہونی ریاست کے حوالے سے موقف واضح ہے، ایسے اقدامات کس جانب اشارہ ہیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
پاکستان کا ریاستی موقف تو اس حوالے سے کسی قسم کی اجازت نہیں دیتا، اسرائیل جانے والوں کیخلاف قانونی کارروائی کرنے چاہئے اور انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا اس حوالے سے واضح موقف ہمارے لئے ہمیشہ کیلئے مشعل راہ ہے۔ صحافیوں کے اس وفد نے پاکستان کی عالم اسلام میں جگ ہنسائی کی ہے، اس وفد کے تمام اراکین کیخلاف کارروائی کی جائے، تاکہ آئندہ کوئی ایسی کوشش نہ کرسکے۔ ہم مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول کیساتھ کل بھی کھڑے تھے اور آج بھی کھڑے ہیں، امریکہ اور اسرائیل خائن عرب ممالک کو خرید سکتے ہیں لیکن غیرت مند پاکستانی عوام کو ہرگز نہیں خرید سکتے۔ اس حوالے سے پاکستان کے شیعہ، سنی ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ نے عرب ممالک کا ذکر کیا، گذشتہ روز یو اے ای نے اسرائیل کیساتھ آزاد تجارت کا معاہدہ کیا اور سعودی عرب کے حوالے سے بھی خبریں ہیں کہ وہ ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے جارہا ہے، کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
ان ظالموں نے تو ہمیشہ ہی قبلہ اول، فلسطینی عوام اور مسلم امہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے، یہ تو آج نہیں بلکہ کئی برسوں سے اسرائیل و امریکہ کے اتحادی ہیں، یہ صرف نام کے مسلمان ہیں، انہوں نے درحقیقت اسلام کے ساتھ غداری کی ہے، فلسطین کوئی زمینی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارے عقیدے کا مسئلہ ہے۔ جہاں دوست اور دشمن کی تمیز نہ ہو اور مفادات کا سودا ہو، وہاں اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔ الحمد اللہ پاکستان، ایران سمیت مسلم امہ میں ایسے ممالک موجود ہیں جو کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم علی علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہم گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے، اسرائیل کو تسلیم کرنے والے خائن ممالک نے ثابت کردیا کہ ان کا سب کچھ امریکہ و اسرائیل کیلئے ہے۔ اسلام کا صرف انہوں نے لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ایسی صورتحال میں کہ جب خائن مسلم ممالک یکے بعد دیگرے اسرائیل کی گود میں بیٹھ رہے ہیں، مسلم امہ کو کون مخلصانہ طور پر لیڈ کرسکتا ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین الحسینی:
بلاشبہ ہمارے رہبر سید علی خامنہ ای مسلم امہ کو نہ صرف لیڈ کرسکتے ہیں، بلکہ کر رہے ہیں، رہبر انقلاب اسلامی ہی اس وقت وہ واحد شخصیت ہیں کہ امت کا درد رکھتے ہیں، نام نہاد خادمین نے اسلام کی پیٹھ میں ہمیشہ چھرا ہی گھونپا، ایران کی پوزیشن اس وقت بہت مضبوط اور دشمنوں کیلئے آنکھ کے کانٹے کی طرح ہے۔ اگر مسلم ممالک تعصب کی عینک کو اتار لیں تو امت نجات پاسکتی ہے، کئی طبقات جانتے ہیں کہ ایران درست سمت میں گامزن ہے لیکن پھر تعصب کی وجہ سے وہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے گھبراتے ہیں، اب امت کے سامنے نام نہاد خادمین اور خلیفہ ایکسپوز ہوچکے ہیں، صرف رہبر ولی امر مسلمین ہی امت کی درست نمائندگی کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 997179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Inzar ali
Pakistan
جائیں تو کہاں جائیں
ہماری پیشکش