0
Tuesday 19 Mar 2024 03:02

پاکستان کا دہشتگردوں کیخلاف آپریشن، افغان طالبان کے متضاد بیانات

پاکستان کا دہشتگردوں کیخلاف آپریشن، افغان طالبان کے متضاد بیانات
اسلام ٹائمز۔ پاک افغان سرحد کے قریب جاری کشیدگی کا سلسلہ رک گیا، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں اطراف سے آج بھاری اسلحہ سے ایک دوسرے کے محاذوں کو تباہ کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق جھڑپوں کا سلسلہ صبح 7 بجے سے لیکر شام 4 بجے تک جاری رہا، سرحدی گاؤں بوڑکی اور خرلاچی میں تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولز بند رہے۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں ایمرجنسی تاحال نافذ ہے، جھڑپوں میں 4 شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاک افغان سرحد پر کشیدگی شدت اختیار کر گئی تھی۔ افغان صوبے پکتیا سے پاکستان کے ضلع کرم میں مارٹر گولے فائر کیے گئے، جس کے بعد فائرنگ کے تبادلے کے نتیجے میں آبادی کی نقل مکانی شروع ہوگئی۔ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پاکستانی فضائیہ کی بمباری کی مصدقہ و غیر مصدقہ اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں۔ یہ صورت حال شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چوکی پر دہشت گرد حملے کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں پاکستان میں کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان کی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے پکتیکا اور خوست صوبوں میں بمباری کی ہے، جہاں آٹھ افراد مارے گئے۔ ادھر کابل حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی، لیکن ایسے علاقے موجود ہیں، جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں ہفتہ کی صبح دہشت گرد حملے اور اس کے بعد لڑائی میں پاک فوج کے ایک کرنل اور ایک کیپٹن سمیت 7 اہلکار شہید ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد صدر آصف علی زرداری اور وزیر دفاع خواجہ آصف کی جانب سے سخت بیانات جاری کیے گئے۔ حملے سے ایک روز قبل ہی پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف علی درانی نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔

جبکہ افغان ٹی وی چینل طلوع نیوز کے مطابق آصف علی درانی کے بیان کی تردید کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم افغانستان میں کسی غیر ملکی گروہ کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے۔ آصف علی درانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 5 سے 6 ہزار لوگوں کو پناہ حاصل ہے۔ تاہم ترجمان طالبان نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو افغان سرزمین پر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ایک بات ہمیں قبول کرنی چاہیئے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے، جہاں پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں اور ایسے علاقے موجود ہیں، جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین سے ہمارے خلاف دہشت گردی ہو رہی ہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان میں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں، پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا علم ہے۔ ہم پُرعزم ہیں کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ اس کے لیے سب کو متحد ہونا ہوگا۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی میر علی میں پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملے میں شہید لیفٹیننٹ کرنل سید کاشف علی اور کیپٹن محمد احمد بدر کے جنازے میں شرکت کے دوران کہا تھا کہ ملک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہم دہشتگردوں سے جوانوں کے بہائے گئے خون کا خراج لیں گے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہمارے بیٹوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ دونوں جانب سے بیانات کے بعد پیر کی صبح سرحدی علاقوں میں کشیدگی کی اطلاعات سامنے آئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق پیر کی صبح افغانستان کے صوبہ پکتیا سے پاکستان کے سرحدی علاقے بوڑکی پر بلا جواز مارٹر توپ سے حملہ کیا گیا اور تین گولے فائر کیے گئے، جن میں سے ایک گولہ سرکاری سکول کے قریب گرا جبکہ ایک جنرل سٹور اور ارہ مشین کو بھی نقصان پہنچا، تاہم کوئی جان نقصان نہیں ہوا۔

واقعے کے بعد ہائی سکول بوڑکی کو مزید حملوں کے خدشے کے پیش نظر بند کر دیا گیا۔ واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور قبائلی لشکر بھی فورسز کا ساتھ دینے کے لیے اگلے مورچوں پر پہنچ گیا، دو طرفہ فائرنگ میں بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا رہا۔ اس دوران طوری بنگش قبائل کے رہنماء جلال بنگش نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان سے بلا جواز حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی سرزمین پر مستقبل میں اس قسم حملوں سے اجتناب کیا جائے۔ پشاور کے سینیئر صحافی طاہر خان نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ افغان طالبان کے اہلکاروں نے پاکستانی سرحد کے قریب کئی علاقوں میں بمباری کی تصدیق کی ہے، تاہم واٹس ایپ گروپوں میں افغان طالبان کو اس معاملے پر بیانات دینے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر مناسب ہوا تو ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اس پر بیان جاری کریں گے۔ طاہر خان نے دعویٰ کیا کہ ایک افغان اہلکار کے مطابق عبداللہ شاہ نامی شخص کے گھر کو نشانہ بنایا گیا، جو وزیرستان کا رہائشی ہے۔ افغان اہلکاروں کے مطابق وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔
خبر کا کوڈ : 1123511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش