1
0
Wednesday 13 Feb 2013 22:25

ایران، روس، چین، عراق اور لبنان شام کے بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، حسین شیخ الاسلام

ایران، روس، چین، عراق اور لبنان شام کے بحران کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں، حسین شیخ الاسلام
رپورٹ: این ایچ نقوی

اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ کے مشیر برائے بین الاقوامی امور حسین شیخ الاسلام نے "اسلام ٹائمز" کے ساتھ شام کے مسئلہ پر ایک مفصل گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں دو طرح کی سوچ اور لائن کے حامل افراد موجود ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی رہبری میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد یہ دونوں خط دنیا پر آشکار گئے ہیں۔ امام خمینی رحمتہ اللہ علیہ کا شروع ہی سے اعتقاد یہ تھا کہ اسرائیل کی بنیاد ظلم اور تعدی پر بنائی گئی ہے اور دراصل یہ سرزمین مسلمانوں کی سرزمین ہے، جس کو اسرائیل کے وجود سے پاک ہونا چاہیے۔ یہ کوئی سیاسی نظریہ نہیں بلکہ ایک عقیدہ ہے۔
سُبحَانَ الَّذِی اسرَی بِعَبدِہِ لَیلاً مِّنَ المَسجِدِ الحَرَامِ اِلَی المَسجِدِ الاَقصَی الَّذِی بَارَکنَا حَو لَہُ

یہ آیت ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ حضور (ص) جو کہ مسجد الحرام میں تھے، جو ایک مقدس ترین جگہ تھی، وہاں سے جب ان کو معراج کے لئے بلایا گیا تو پہلے ان کو مسجد اقصٰی لے جایا گیا ہے اور وہاں سے ان کو آسمان پر لے جایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ کی خاص اہمیت ہے، جو مسجد الحرام میں بھی نہیں ہے۔ اس آیت میں نہ صرف اس مسجد بلکہ اس کے ارد گرد کے علاقے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دیکھیں جو زور زبردستی کرنے والے ممالک اور لوگ ہیں، انہوں نے دنیا کے اطراف و اکناف سے پلید قسم کے افراد کو یہاں اکٹھا کیا ہے۔ مسلمانوں اور فلسطینیوں کی زمینیں لیکر انہیں دے دی گئی ہیں۔ یہ مقدس سرزمین فلسطینیوں کا حق ہے، جو ان کو ملنا چاہیے۔

عالمی طاقتور لوگوں نے ایک کام کیا جس کے امام خمینی (رہ) مخالف تھے اور انہوں نے بھی اس کے خلاف ایک آواز اٹھائی ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی سے پہلے یہ لائنیں اتنی واضح نہیں تھیں، امام کے انقلاب کے بعد یہ دونوں خط زیادہ ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ اس چیز نے اس علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ لوگ اور ممالک ان زبردست اور ظالم لوگوں کے ساتھ تھے، کچھ لوگ غریب اور مستضعف لوگوں کے ساتھ تھے۔ ان میں سے فلسطین، لبنان جیسی اقوام امام خمینی (رہ) کے ساتھ تھیں۔ اس خطے کے وہ عوام جو اس سرزمین کو مقدس سمجھتے ہیں، وہ بھی امام خمینی (رہ) کے ساتھ ہو لئے۔ کچھ بادشاہتیں جس میں شاہ ایران ایک تھے، انہوں نے ان ظالم اور زبردست لوگوں کے اوپر بھروسہ کیا ہوا تھا، تاکہ وہ اپنی حکومت و اقتدار کو جاری رکھ سکیں۔

امریکیوں نے اپنے ہر طریقے سے، جنگ کے ذریعے چاہا کہ امام خمینی (رہ) کو اس راستے سے روکیں۔ اس سارے معاملے میں شام کی حکومت نے امام خمینی (رہ) کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ رہی۔ شام کے سابق صدر حافظ الاسد نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ہم حزب اللہ کی وہاں پرورش کرسکیں۔ جب اسرائیلیوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے بیروت پر 1982ء میں حملہ کر دیا۔ امریکہ، انگلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی نے اپنی افواج روانہ کیں۔ اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہم تمام ممالک سیاسی اور عسکری طور پر ایک ہیں اور اسرائیل کے تجاوز اور حملے کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس سے ایک سال قبل سعودی ولیعہد مسٹر فہد نے ایک پلان اور منصوبہ عرب لیگ کو دیا، جس کا نعرہ تھا "امن تمام ممالک کے لئے" اور وہ اسرائیل کو بھی ان میں شامل کر رہے تھے۔
اس پر حافظ الاسد نے اس میٹننگ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اس پروگرام کا ایک اہم حصہ یہ تھا کہ حافظ الاسد جو اسرائیل کے ساتھ نہیں تھے، وہ اس میٹنگ میں شامل ہوتے اور اس کو قبول کرتے، چونکہ مصر اس سے قبل کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے، اردن، قطر اور دوسرے عرب ممالک تمام اسرائیل کے ساتھ تھے۔ عرب لیگ کا واحد ملک جو اسرائیل کے خلاف تھا، وہ شام تھا۔ اس منصوبے کے لئے حافظ الاسد کا اس میٹنگ میں جانا ضروری تھا، لیکن وہ شریک نہ ہوئے، جس کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوگئی۔ اس کے ایک سال بعد جب حملہ کیا گیا تو شام مجبور ہوگیا کہ وہ اپنی فوجیں بیروت سے پیچھے ہٹا کے بقہ تک لے آئے۔ اس کے نتیجے میں حافظ الاسد کے لئے یہ مسئلہ بن گیا کہ جو سعودی شام میں تھے، اس میں اخوان المسلمین نے شورش کی ہے۔

حافظ الاسد نے اس شورش و بغاوت کو دبایا، لیکن اس تمام صورتحال سے حافظ الاسد یہ سمجھ گئے تھے کہ اگر وہ اس کانفرنس میں نہیں گئے تو زیادہ مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ لہذا جب مراکش میں کانفرنس ہوئی تو اس میں حافظ الاسد شریک ہوئے اور وہاں پر عرب لیگ نے یہ منصوبہ مان لیا۔ لیکن حزب اللہ نے اس تمام معاملے میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، امریکیوں کے ہیڈ کورارٹر میں بارود سے بھرا ہوا ٹرک داخل کرکے حملہ کیا، جس میں اڑھائی سو سے زیادہ امریکی فوجی جہنم واصل ہوئے ہیں۔ اسی طرح حزب اللہ نے بیروت میں فرانس کے ملٹری ہیڈ کورارٹر پر حملہ کیا، وہاں بھی پچاس ساٹھ فرانسیسی فوجیوں کو جہنم واصل کیا، دوسرے حملات میں اٹلی اور انگلینڈ کی فوجیں وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئیں اور اسرائیلی فوجیں مجبور ہوگئیں، اور اپنی دفاعی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئیں۔ پہلے صیدا سے واپس آئیں، پھر صیدا سے صور میں آئیں، پھر وہاں سے بھی پسپا ہوکر بھاگ کھڑی ہوئیں۔

اسی زمانے سے وہاں انتفادہ فلسطین کی تحریک شروع ہوگئی۔ سن دو ہزار میں لبنان غیر ملکی قبضے سے آزاد ہوا ہے اور اسرائیلی فوجیں مجبور ہوگئیں کہ 2005ء میں غزہ سے بھی واپس جائیں۔ اور اس سازش کے نتیجے میں اسرائیل نے 2006ء میں لبنان پر حملہ کیا اور 33 دن تک لبنان پر بھرپور بمباری کی، اور وہ جو اس منصوبہ کے مالک تھے، انہوں نے اس اسرائیلی حملے کی تائید کی اور سعودی عرب اور حسنی مبارک نے اعلان کیا کہ حزب اللہ اس جنگ کی ذمہ دار ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ رائیس کے کہنے کے مطابق وہ ان سارے معاملات کو سنبھال لیں گے، چونکہ رائیس یہاں آئیں اور اعلان کیا کہ ہم نیا مشرق وسطٰی بنا رہے ہیں۔ اسرائیل، سعود الفیصل، حسنی مبارک سب لوگ ناکام ہوئے، اور پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ ایک ضعیف اور کمزور عربی ملک لبنان نے اپنی سرزمین اسرائیل سے آزاد کرالی اور اسرائیل کو شکست فاش دی، جو باعث فخر ہے۔

اسرائیل 2008ء میں یہ سمجھ گیا کہ جس طرح پہلے لبنان میں اسلحہ پہنچا تھا، اسی طرح کا اسلحہ غزہ میں بھی جا رہا ہے، اور اس چیز کو روکنے کے لئے اس نے 2008ء میں غزہ پر حملہ کیا اور وہ غزہ جس کا حسن مبارک نے چار سال تک محاصرے کئے رکھا، دوبارہ ایک بار پھر سعودی عرب اور سعود الفیصل کے ساتھ مل کے غزہ پر اسرائیل کے اس حملے کو سپورٹ کیا گیا۔ حسن مبارک نے ان بائیس دنوں میں اس بات کی اجازت تک نہ دی کہ ایک زخمی کو نکالا جائے۔ مبارک اس قدر دباؤ کا شکار تھے اور اتنے حواس باختہ ہوچکے تھے، انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ غزہ، ایک عرب بھائی جو زخمی ہے، اسے سپورٹ کرے یا دوسری پارٹی کے پیچھے جائے، ان بائیس دنوں میں بھی اسرائیل کو شکست ہوئی اور یہ دیکھیں کہ جو مقاومت اسلامی ہے، وہ روز بروز آگے بڑھ رہی ہے۔

انقلاب اسلامی ایران سے قبل اسرائیل پھیل رہا تھا، لیکن انقلاب کے بعد اسرائیل نے سکڑنا شروع کیا اور اسلامی مزاحمت پھیلنا شروع ہوگئی ہے، اور جب اسی دوران میں اسلامی بیداری کی تحریک شروع ہوگئی، حسن مبارک چلے گئے، حسین بن علی چلے گئے، اس طرح رضا شاہ کے بعد اسرائیل کے سب سے بڑے حامی یکے بعد دیگرے ختم ہوئے۔ حسن مبارک کے ہٹائے جانے سے قبل وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ اسلحہ کس راستے سے جاتا، یہ دراصل صحرائے سینا کے اندر کھودی گئی سرنگوں کے ذریعے آتا تھا، جو مجاہدین نے بنائی تھیں، تو حسن مبارک نے ان تمام سرنگوں میں دم گھٹ کر مارنے والی گیس اور پانی چھوڑ دیا اور لوہے کی دیواریں بنا دی گئیں۔ اس محاصرے کے دوران جب کہ آپ ایک بچے کے لئے دودھ کا ڈبہ تک نہیں بھیج سکتے تھے، وہاں میزائل اور راکٹ جا رہے تھے اور یہ چیز تھی جو اسرائیل کے لئے قابل برداشت نہیں تھی۔

دسمبر 2007ء میں امریکہ و اسرائیل کے وزرائے خارجہ نے کیمپ ڈیوڈ کا وہ معاہدہ، جس کے تحت یہ طے تھا کہ صحرائے سینا کے ارد گرد کے علاقے اور سرحدوں کی حفاظت امریکہ نے کرنی ہے، میں تبدیلی کر دی اور اس کی تجدید امریکہ کی مجبوری بن گئی۔ لیکن ان کا مقصد پورا نہ ہوا اور مبارک کے ہٹ جانے کے بعد بھی میزائل اور راکٹ کی ترسیل اسی طرح جاری رہی۔ 2012ء کی جنگ میں فقط آٹھ دنوں میں اسرائیل تسلیم ہوگیا، اور تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ غزہ کے چند لوگوں نے سیز فائر کے لئے اسرائیل سے اپنی شرائط منوائی ہیں۔ پورا خطہ بیداری اور مقاومت کے حوالے سے مکمل طور پر تبدیل ہوگیا ہے، اور بیداری کی لہر میں حسنی مبارک کے بہہ جانے کے بعد امریکہ نے یہ منصوبہ ترتیب دیا کہ مقاومت و مزاحمت کے چھوٹے ترین اسٹیشن شام کو بھی شکست دی جائے اور ختم کیا جائے۔ ایک ایسا کام ہونے جا رہا تھا کہ اسرائیل نابودی کے نزدیک تھا، اور اسی وجہ سے یہ جو سازش کی لائن ہے، جس میں امریکہ اسرائیل، قطر، سعودی عرب اور نیٹو اس کے پیچھے ہو لئے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کے مقاصد اپنے اپنے تھے۔ ایک نقطے پر متفق تھے کہ شام کو ختم کیا جائے، لیکن اس کے بعد شکل پذیری کیا بنے، اس پر اتفاق نہیں تھا۔

سعودی عرب میں ایک خاندان کی حکومت ہے، اس خاندان کی بھی صورتحال یہ ہے کہ وہ نسل پرستی کا شکار ہیں۔ جو خاندان حاکم ہے، اس کو دوسرے سعودی شہریوں پر خاص قسم کی فوقیت حاصل ہے۔ اس خاندان کا بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت سے اس کے لئے ایک خاص قسم کے وظائف رکھے جاتے ہیں۔ اس خاندان کا فرد اگر انجنیئر بن جائے تو اس کی اہمیت عام انجنیئر سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی خاندان کے افراد مختلف خاص حکومتی عہدوں کے لئے رکھے جاتے ہیں۔ مثلاً اسی خاندان کا ایک فرد پچھلے چالیس سال سے وزیر خارجہ ہے، اب جب کہ اس کی ذہنی حالت خراب ہوگئی ہے پھر بھی اس کو ہٹانا ممکن نہیں ہے۔ سعودی دراصل یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ بیداری اسلامی استکبار کے خلاف ہے، یہ ڈکٹیٹر شپ کے خلاف ہے۔

شام کے مسئلے میں سعودی عرب کا ہدف یہ تھا استکبار کے خلاف برسرپیکار بیداری کی لہر کا راستہ روکا جائے اور اسے گروہی اور شیعہ سنی لڑائی کی طرف موڑا جائے۔ جیسے بحرین، قطر اور یمن میں ہے۔ شام میں بھی وہ اسی شیعہ سنی تفرقے کو ہوا دینا چاہتے تھے اور ثابت کرنا چاہتے تھے کہ شام میں مسلمانوں کے آپس کی ایک لڑائی ہے۔ اسی طرح آزادی کی تحریکیں جو بحرین اور قطر میں چل رہی تھیں، ان کو بھی فوری طور پر شیعہ سنی لڑائی کا نام دے دیا گیا۔ ترکی جو نیٹو کا رکن ہے، اس سلسلے میں اس نے ایک بہت بڑی انویسٹمٹ کر رکھی ہے۔ وہ اس سوچ میں ہے کہ سابقہ عثمانی خلافت کی نشاۃ ثانیہ کرے۔ لیکن اس کو مسئلہ یہ درپیش ہے کہ وہ جغرافیائی طور پر اب ایسا نہیں کرسکتا، لیکن سیاسی حوالے سے وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں، اسی لئے شام کے مسئلے میں سرگرم عمل ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اردگان نے اپنی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم شام کے مسئلے کو بیرونی یا خارجی مسئلہ نہیں سمجھتے، یہ ہمارا اندونی معاملہ ہے۔ اسرائیل یہ چاہتا تھا کہ شام کی فوجی، سیاسی، اقتصادی ہر طرح کی طاقت جو اسرائیل کے خلاف ہے، وہ آپس کی لڑائی میں ضائع ہوجائے۔ امریکی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کے، اپنی چوہدراہٹ کو محفوظ کریں۔ جیسے ایران کو ترکی سے لڑا دینا، شام کو ترکی سے لڑا کے وہ اپنے مفادات کی حفاظت چاہتے ہیں۔

قطر جو اپنے آپ کو وہابی حکومت سمجھتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ شام میں شدت پسندوں کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کریں۔ اس صورتحال میں ان سب ممالک نے اپنے اپنے طور پر پیسے اور اسلحے کے ذریعے شام کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ شام کی حکومت کو ہٹا دیا جائے، لیکن وہ اس کے بعد کی صورتحال اور معاملات پر متفق نہیں تھے۔ ترکی نے شدت پسندوں کو ٹریننگ دی، اسلحہ دیا، پیسہ دیا اور قطر، امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے جو دہشت گرد بھیجے جاتے تھے، ان کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی کہ وہ وہاں سے شام میں داخل ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ شام میں حکومت گرنے کے بعد کے معاملات پر لڑائی انہوں نے ابھی سے شروع کر دی ہے۔ ابھی سے اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں۔ وہ تمام کوئی متفقہ اور متحدہ باڈی تشکیل نہیں دے سکے۔

میڈم کلنٹن نے مداخلت کی، ترکی میں سریا کی نیشنل کونسل بنائی ہے اور کچھ ہی وقت کے بعد امریکی وزیر خارجہ اس نتیجے پر پہنچ گئیں کہ کونسل کارگر نہیں ہے تو انہوں نے دوحہ میں سرین نیشنل الائنس تشکیل دیا اور جس طرح ترکی میں بنائی گئی نیشنل کونسل پر امریکی سیاسی حمایت اور عربوں کا پیسہ خرچ ہوا، اسی طرح اس نئی تشکیل پانے والی سرین نیشنل الائنس پر بھی اتفاق کیا گیا، اور ان سب کا زور ایک ہی بات پر تھا کہ ہمیں لڑنا چاہیے، یہاں تک کہ شام کی حکومت کو گرا دیا جائے۔

دوسری طرف جمہوری اسلامی ایران پہلے روز ہی سے ہی معتقد تھا، کوئی بھی بیرونی طاقت کسی قسم کا فیصلہ شام پر مسلط نہ کرے۔ یہ درست ہے کہ شام میں اصلاحات ہونی چاہیں۔ یہ اصلاحات شام کے اندر سے ہونی چاہیں، نہ یہ کہ کلنٹن امریکہ سے اٹھ کے ٹینک، گولہ و بارود اور دہشت گردوں کے ساتھ یہ اصلاحات مسلط کرے، اور قطر جو خود ایک بادشاہت ہے، اس کا دل شام میں جمہوریت کے لئے تڑپے اور پھٹنے لگے، یہاں تک وہ اپنا پیسہ پانی کی طرح گولہ بارود اور لڑائی کے لئے بہا دے، یہ کوئی اصلاحات کا طریقہ نہیں ہے۔ اسلامی جمہوری ایران نے اس بات پر زور دیا ہے، جیسا کہ اقوام متحدہ کے منشور میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ کسی بھی جھگڑے اور تنازعے کو حل کرنے کے لئے غیر متشدد راستہ اپنایا جائے اور وہ یو این کا منشور اس بات کی تصریح کرتا ہے کہ کسی دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کی جائے اور مختلف اقوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو سب لوگ اس منشور کے حامی تھے، امریکہ اور یورپ خود متشدد راستے کی طرف چل پڑے ہیں، اور ان کا یہ رویہ اس قدر برا اور شدید تھا کہ انہوں نے پوری دنیا سے دہشت گرد اکٹھے کئے اور انہوں نے شام میں جہاد کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ دہشت گرد ہوا سے تو شام میں داخل نہیں ہوئے، وہ کسی نہ کسی ہمسایہ ملک کے بارڈر سے داخل ہوئے ہیں۔ گولہ باردو اور اسلحہ بھی اسمان سے نہیں گرا، بلکہ مختلف اردگرد کے ممالک کی ایجنسیاں اس کام میں سرگرم ہیں۔ اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ شہر کی مصروف ترین شاہراہ پر بارود سے بھری گاڑی کھڑی کر دیتے تھے، بغیر جانے کہ وہ کس کو مارنا چاہتے ہیں۔ اس کو دھماکے سے اڑایا جاتا، جس میں شیر خوار بچے سے عمر رسیدہ بوڑھے اور عورتوں کو بھی مارا گیا ہے اور جب یہ سب کچھ انہوں نے دیکھا کہ ہم نے بھی اسٹینڈ لیا ہے اور شام نے بھی اپنی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

اس کے بعد چین اور روس دونوں نے اس مسئلے کو ڈبل ویٹو کیا، کیونکہ جو دھوکہ ان کے ساتھ لیبیا میں ہوا ہے، وہ دھوکہ شام کے مسئلے میں نہ ہو جائے۔ انہوں نے لوگوں کی حمایت کے نام سکیورٹی کونسل سے ایک اجازت نامہ لیا ہے اور اس کی بنیاد پر نیٹو نے لیبیا میں بھرپور بمباری کرکے حکومت کو تبدیل کر دیا۔ دو یا تین بار ان دونوں ممالک نے ویٹو کیا۔ وہ ویٹو اس لئے کر رہے تھے کہ اس کا جو سیاسی خرچہ اور قیمت ادا کرنی ہے، اس کو مختلف ممالک پر تقسیم کیا جائے۔ لیکن دو یا تین بار یہ کام کرکے انہوں نے اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکہ اور مغرب اس علاقے میں اپنے رقیب کے خلاف ایک بڑی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ شام کے معاملات سے قبل روس کا اس خطے میں کردار سکڑ گیا تھا۔ لیکن اب روس کا کردار بہت موثر اور فیصلہ کن ہے۔

ایران، روس، چین، عراق، لبنان، شام سب ممالک چاہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے حل نکالا جائے، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ جنگ کی جائے۔ ہمارا موقف بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے، ان کا موقف قوانین اور انسانیت کے خلاف ہے۔ پھر فیلڈ میں بھی انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ خصوصاً دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ امریکہ کو اب سمجھ آئی ہے کہ وہ باضابطہ طور پر دہشت گردی کو رواج دے رہا ہے، اور دہشت گردی کی رسمی طور پر اور سرکاری سطح پر دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور آپریشنل اسٹیج پر بھی ان کو شکست ہوئی ہے اور وہ حکومت نہیں گرا سکے۔ اور اب آکر وہ یہ بات سمجھے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ سیاسی حل ڈھونڈا جائے، لیکن سب اس پر متفق نہیں ہیں۔ اسرائیل اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہے کہ شام کی توانائیاں آپس کی لڑائی میں ضائع کرائی جائیں۔

ان دہشت گردوں کو مخصوص ٹاسک دئیے گئے تھے، جن کو انہوں نے حاصل کرنا تھا۔ ان میں ایک ہدف ان کا وہ سائنسی تحقیقی مرکز تھا جو کہ دمشق سے لبنان جانے والی سڑک پر واقع ہے، اس پر انہوں نے کئی حملے کئے، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد جو اپنے ہدف ایک ایک کرکے حاصل کر رہے تھے اور یہ مرکز جہاں شام کے دفاعی سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری تھا۔ اس سنٹر کو تباد کرنا اسرائیل کے لئے ٹیکنیکلی ضروری تھا، جب اس نے دیکھا کہ اب حالات جنگ کی بجائے سیاسی گفت و شنید کیطرف جا رہے ہیں اور اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکلنے والا ہے، اور اس دوران ہوسکتا ہے وقت اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو اسرائیل نے خود ہی آکر اس تحقیقی مرکز پر حملہ کیا ہے اور یہ اسرائیل کے لئے اس لئے بھی ضروری تھا کیونکہ اسرائیل کی یہ پالیسی ہے کہ تمام اسلامی ممالک میں خاص کر وہ سائنسدان جو جدید ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، انہیں قتل کرنا اور انہیں کسی طرح اس راستے سے ہٹانا، جیسا کہ اس نے بعض ممالک میں سائنسدانوں کو قتل کروایا ہے۔

اس تناظر میں اسرائیل نے شام کے اس مرکز پر حملہ کیا۔ اسی طرح کے سنٹر اسرائیل نے عراق میں بھی تباہ کئے ہیں۔ میرے خیال میں کافی مفصل توضیح دے دی گئی ہے۔ ابھی تک شام کے خلاف برسر پیکار تمام ممالک کسی ایک متفقہ لائحہ عمل پر متفق نہیں ہیں۔ قطر چاہتا ہے کہ جنگ جاری رہے۔ اسی طرح ترکی کا بھی جنگ جاری رکھنے پر اسرار ہے، لیکن سعودی عرب اور امریکہ کا موقف بہتر ہوا ہے اور وہ جنگ پر بضد نہیں ہیں۔ اسوقت بھی شام کی حکومت مذاکرات پر زور دے رہی ہے اور اس کا موقف ہے کہ جو بھی اکثریت کا فیصلہ ہوگا، ہم مانیں گے۔
خبر کا کوڈ : 239282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

excellent interview ,well done brother naqvi
ہماری پیشکش