0
Sunday 13 Jun 2010 18:57

مجلس عمل بحال نہ ہوسکی،اجلاس بے نتیجہ،مولانا فضل الرحمان مجلس عمل کیلئے حکومت سے علیحدگی پر رضامند

مجلس عمل بحال نہ ہوسکی،اجلاس بے نتیجہ،مولانا فضل الرحمان مجلس عمل کیلئے حکومت سے علیحدگی پر رضامند
لاہور:اسلام ٹائمز-روزنامہ جسارت کے مطابق غیر فعال اتحاد ایم ایم اے میں شامل جماعتوں نے باہمی رابطے بحال رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مجلس عمل کی بحالی کے سلسلے میں اگلا اجلاس تحریک اسلامی کی میزبانی میں 22 جولائی کو اسلام آباد میں طلب کر لیا ہے،جبکہ مولانا فضل الرحمن نے اتحاد میں شامل جماعتوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ مجلس عمل کی بحالی کی خاطر وہ حکومتی اتحاد کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں،ایم ایم اے کے سربراہ قاضی حسین احمد کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اب صحیح سمت جا رہے ہیں،مزید برآں جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے واضح کیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل بحال ہے اور نہ ہی فعال۔
متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے سلسلے میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ہیڈ کوارٹر راوی روڈ میں 6 جماعتوں کا اجلاس ہوا۔جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ،جماعت اسلامی،جمعیت علمائے پاکستان (نورانی گروپ)،مرکزی جمعیت اہلحدیث،تحریک اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (سینئر ) کے رہنماﺅں نے شرکت کی،ایم ایم اے کے سربراہ اجلاس کی میزبانی امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان پروفیسر ساجد میر نے کی۔اجلاس میں مولانا فضل الرحمن، عبدالغفور حیدری،مولانا امجد خان،ریاض درانی،سید منور حسن،قاضی حسین احمد،لیاقت بلوچ،ڈاکٹر ابوالخیر زبیر،قاری زوار بہادر،نور نیازی، حافظ عبدالکریم،ڈاکٹر ریاض الرحمن ،حاجی عبدالرزاق،علامہ ساجد نقوی،مولانا عبدالجلیل نقوی اور پیر عبدالرحیم نقشبندی نے شرکت کی۔ 
اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے بتایا کہ دینی جماعتوں کے تاریخی اور انتہائی موثر الائنس مجلس عمل نے دین اسلام اور امت مسلمہ کی ترجمانی کرتے ہوئے مشکل حالات میں بھی موثر کردار ادا کیا،بعض حالات کے باعث آج یہ فورم اس طرح فعال نہیں،تاہم اب ان راہوں کی تلاش ہے جس کے ذریعہ متحدہ مجلس عمل کے فورم کو بحال یا وسیع تر کوششوں کی طرف جا سکتے ہیں،غیر فعال ایم ایم اے کے کچھ اجلاسوں کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں گے۔پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ دینی جماعتوں کی سوچ ایک،لیکن مسائل کے حل کیلئے طریقہ کار طے کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ خاکوں کے ذریعے عالم اسلام کو للکارا گیا، ایسا پاکستان سمیت عالم اسلام کے حکمرانوں میں جرات کا فقدان اور مصلحتوں کے شکار ہونے کے باعث ہے،انہوں نے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کا اگر کوئی وجود ہے،تو اس کی صرف مذمت نہیں بلکہ عملی اقدامات کرے، ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کی حمایت اور پڑوسی ملک کے ساتھ ہیں،موجودہ حکومت کی پالیسیاں بھی پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل ہیں۔ 
میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مجلس عمل اور حکومتی اتحاد کے بارے میں انہیں فیصلہ کرنا پڑا تو وہ مجلس عمل کو ترجیح دیں گی،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آج اپوزیشن بھی فرینڈلی کا کردار ادا کررہی ہے،سیاسی و سفارتی توانائیاں مغربی سرحد پر ضائع ہونے سے مسئلہ کشمیر نظر انداز ہو رہا ہے،مجلس عمل کے غیر فعال ہونے سے اس کے مقاصد اور نصب العین کو دھچکا لگا۔
جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے کہا کہ اتحاد میں موجود رکاوٹوں کو ختم کیے بغیر ایم ایم اے کے اتحاد کی بات نہیں ہو سکتی،متحدہ مجلس عمل بحال ہے اور نہ ہی فعال جبکہ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن اب صحیح سمت میں پیش رفت کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 28266
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش