0
Monday 2 Sep 2013 08:36
اسوقت طالبان کے دو گروپوں سے بات ہو رہی ہے

محب وطن افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں، پرویز رشید

محب وطن افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں، پرویز رشید
اسلام ٹائمز۔ وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں حکومتی ترجمان اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ طالبان سے بالواسطہ رابطے کا قیام مجوزہ اے پی سی کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔ بات چیت ہونی چاہئے یا نہیں اس کا فیصلہ کیسے ہوگا، جب تک ہم ان کا ذہن پڑھ نہیں لیتے۔ شدت پسندوں کی سوچ، تحفظات اور حدود جاننے کے بعد ہی اس سے متعلق بہتر فیصلہ کیا جاسکے گا۔ محب وطن افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے ثالثوں کی شناخت یا دیگر معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ انہوں نے کہا یہ محب وطن پاکستانی ہیں اور محب وطن پاکستانی صحافی، علماء، تاجر یا سیاستدان بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ 
انہوں نے یہ تاثر مسترد کردیا کہ نواز شریف انتظامیہ شدت پسندوں سے صرف مذاکرات ہی چاہتی ہے اور دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل تیار کرنے سے متعلق سیاسی قائدین کے اجلاس کے انعقاد میں تاخیر کی بھی یہی وجہ ہے۔ محب وطن افراد حکومت اور شدت پسندوں کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں مدد کر رہے ہیں۔ یہ محب وطن افراد کرتے کیا ہیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان کو پرامن ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے بالواسطہ رابطے کا قیام مجوزہ اعلٰی سطحی اجلاس کی تیاری کا حصہ ہے۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ شدت پسندی سے نمٹنے سے متعلق حکومت کے اقدامات کے بارے میں پارلیمنٹ میں تمام جماعتوں کے رہنماﺅں کو بھی وقتاً فوقتاً مطلع کیا جاتا ہے۔ 
ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت بات چیت پر آمادہ کسی بھی طالبان گروپ سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم طالبان کے کس گروپ سے مذاکرات کریں گے کیونکہ آج ہم دو گروپوں سے بات کر رہے ہیں، تاہم اگر کل کوئی اور گروپ بات چیت میں شامل ہونا چاہے تو ہم انہیں بھی خوش آمدید کہیں گے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ حکومت کا اصل مقصد امن کا قیام ہے اور وہ اس کے حصول کیلئے ہر ممکن کوشش کریگی۔ ہم نے ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنا ہے اور اس کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا حکومت طالبان سے مذاکرات سے قبل حزب اختلاف کو اعتماد میں لے گی تو انہوں نے کہا کہ اپوزیشن سے خصوصاً پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقدہ ہر رسمی اور غیر رسمی ملاقات میں رائے لی جاتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 297741
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش