0
Friday 15 Nov 2013 13:51

کانگریس ایران پر مزید پابندیاں نہ لگائے، اوباما، معاہدہ نہ ہوا تو دنیا مزید پُرخطر ہو جائیگی، کیری

کانگریس ایران پر مزید پابندیاں نہ لگائے، اوباما، معاہدہ نہ ہوا تو دنیا مزید پُرخطر ہو جائیگی، کیری
اسلام ٹائمز۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ ایران کیخلاف پابندیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ مذاکرات یا معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں دنیا مزید پرخطر ہو جائے گی۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا ہمارا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا ہے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے مذاکرات پر اب بھی پرامید ہیں۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے سینیٹ کی بینکنگ کمیٹی کو بتایا کہ اقتصادی پابندیاں لگانے سے اس بات کا امکان ہے کہ امریکہ کے مذاکراتی حامی اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ یہ کمیٹی ایران کے حلاف نئی پابندیاں لگانے پر غور کر رہی ہے، تاہم اس پر قانون سازوں کی آرا منقسم ہیں۔ 20 نومبر کو ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہونا ہیں۔ ان مذاکرات میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس شامل ہیں۔ 
امریکی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ مزید مالی پابندیاں ان مذاکرات میں مزید کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں۔ چند امریکی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ ایران کے معاملے پر حد سے زیادہ تیزی سے کام کر رہی ہے جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔ امریکی صدر اوباما نے کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ ایران پر مزید پابندیاں نہ لگائی جائیں، ایسا کرنے سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاہدے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ امریکہ کی پالیسی ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرسکے۔ ایران کے جوہری ہتھیار خطے کی سلامتی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ایران پر سخت پابندیوں کا مقصد اسے جوہری پروگرام پر مذاکراتی میز پر لانا ہے۔ ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔ ایران کے جوہری معاملات حل کرنے کیلئے تمام آپشنز پر غور ہوگا۔ کیری نے کہا ہے ایرانی معاملے پر اسرائیل کی تشویش سے آگاہ ہیں۔ 

دیگر ذرائع کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے کانگریس کو مشورہ دیا ہے کہ ایران پر مزید پابندیاں نہ لگائی جائیں۔ وائٹ ہاؤس میں پریس بریفنگ کے دوران صدر اوباما نے کہا پابندیوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام پر معاہدے میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ انہوں نے ایران کے متنازعہ پروگرام کے حل کے لئے سفارتی کوششوں پر زور دیا۔ انکا کہنا تھا اگر ایران اپنے وعدے سے مکرے تو اس پر پابندیاں بڑھائی جاسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا ایران پر پہلے ہی پابندیاں ہیں اور انہیں مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ 

ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کانگریس کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کی گئیں تو تہران کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے حوالے سے جاری بین الاقوامی سطح کے مذاکرات کا عمل متاثر ہوسکتا ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت ایران پر کوئی بھی نئی پابندی عائد نہیں کرنا چاہتی۔ وہ کانگریس سے سفارتکاری کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش میں مدد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جان کیری نے امید ظاہر کی کہ کانگریس ایران کی سنجیدگی جانچنے میں مدد کرے گی۔ اوباما انتظامیہ ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کو وقتی طور پر روکنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ نائب صدر جو بائیڈن نے بھی امریکی سینٹرز سے ملاقات کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے سینٹرز کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کے خلاف اس مخصوص وقت پر مزید پابندیاں عائد کرنے سے تہران کے متنازع جوہری پروگرام کے حل کے لئے جاری مذاکراتی عمل بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ 

جان کیری کے بقول پابندیاں عائد کرنے کا مقصد تہران انتظامیہ کو مذاکرات کے لیے میز پر لانا تھا اور اس وقت بات چیت ہی کا عمل جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس نے ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا تو اس سے مذاکراتی عمل بری طرح متاثر یا مکمل طور پر ختم بھی ہوسکتا ہے۔ واضع رہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابین مذاکرات کا اگلا دور سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں آئندہ ہفتے بیس تاریخ سے شروع ہو رہا ہے اور صدر اوباما کی انتظامیہ نے انہیں مذاکرات کو کامیاب شکل دینے کی کوشش کرنے کے لیے مزید وقت طلب کرنے کی غرض سے وزیر خارجہ کیری اور نائب صدر جو بائیڈن کو کانگریس سے رجوع کرنے کے لیے کہا، تاہم انتظامیہ کی اس درخواست کو کانگریس کے چند ارکان کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ 
سینیٹ کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ ری پبلکن ایڈ روئس کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو تاحال نہیں روکا ہے تو ہم پابندیاں لگانے سے متعلق اقدامات کو کیوں ترک کریں۔؟ امریکہ کو شبہ ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش میں ہے۔ کانگریس کے موقف کا جواب جان کیری نے کچھ ان الفاظ میں دیا کہ ہم صرف ذرا سے اطمینان کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ اس سے کیا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس سے ہمارا مقصد حاصل نہیں ہوتا تو ہم مزید پابندیاں عائد کرنے کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 321129
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش