0
Wednesday 20 Nov 2013 12:20

کامرہ بیس پر اربوں روپے کے طیارے کے محافظ تربیت یافتہ نہیں تھے

کامرہ بیس پر اربوں روپے کے طیارے کے محافظ تربیت یافتہ نہیں تھے
اسلام ٹائمز۔ کورٹ مارشل کا سامنے کرنے والے پاکستان ایئر فورس کے ایک اہلکار نے الزام لگایا ہے کہ کامرہ میں منہاس ایئربیس پر اربوں روپے مالیت کے انتہائی اہم طیارے کی نگرانی غیر تربیت یافتہ عملے کی سپرد تھی۔ بیس پر کورٹ مارشل کا سامنے کرنے والے پی اے ایف کے تین اہلکاروں میں سے ایک ظفر عباس نے عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں دعوی کیا کہ اسے مناسب تربیت فراہم نہیں کی گئی بالخصوص وہ دہشت گردوں کے حملے سے نمنٹے کے لیے بالکل بھی تربیت یافتہ نہیں تھا۔
عباس پر الزام ہے کہ انہوں نے 2012 میں پندرہ اور سولہ اگست کی درمیانی رات کامرہ ایئر بیس پر حملے میں دہشت گردوں کو 250 ملین ڈالرز مالیت کے ساب 2000 طیارےکو تباہ کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

یاد رہے کہ انتہائی حساس ایئربیس پرکم از کم نو عسکریت پسندوں نے حملہ کرتے ہوئے نگرانی کے لیے مخصوص ساب 2000 کو تباہ اور ایک سیکورٹی اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا، بعد میں جوابی کارروائی کے دوران تمام عسکریت پسند ہلاک ہو گئےتھے۔ منہاس ایئربیس پر ماضی میں بھی حملے ہو چکے ہیں۔ 2007 میں دہشت گردوں نے پی اے ایف افسران کے بچوں کو سکول لے جانے والی ایک بس پر حملہ کیا تھا۔ اسی طرح 2008 اٹھارہ جنوری میں بیس پر چار راکٹ فائر کیے گئے تھے۔

عباس کے علاوہ جن دو اہلکاروں پرحملے کی رات غفلت برتنے کے الزامات ہیں، ان میں ایئر کرافٹ و سپلائی اسسٹنٹ شہنواز خان اور کارپورل ٹیکنیشن مرزا وسیم اقبال شامل ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ ‘وہ اپنی پوسٹ پر پوزیشن لینے’، ‘دہشت گردوں کے حملے پر مناسب ردعمل’ اور ‘پی اے ایف کے یو آر ایف کمانڈر کو بذریعہ اپنے موٹرولا ہینڈ سیٹ حملے کی بروقت اطلاع دینے’ میں ناکام رہے تھے۔ یونٹ ری ایکشن فورس کا رکن ہونے کے ناطے عباس پر لازم تھا کہ وہ حملے کا دفاع کرتا۔

پی اے ایف کے ایک سابق افسر نے بتایا کہ یو آر ایف بیس کی اندرونی سیکورٹی کا ایک حصہ ہے جس میں پی اے ایف اہلکاروں کو دوسرے کاموں کے علاوہ سیکورٹی کی اضافی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا ‘یو آر ایف ایک عارضی سیکورٹی فورس ہے ۔ فوج کے سپیشل سروسز گروپ کی طرح پی اے ایف کے کمانڈوز ہی کامرہ بیس جیسی دوسری تنصیبات کے مستقل سیکورٹی محافظ ہیں’۔ عدالت میں دفاع کرنے والے عباس اسی نامناسب تربیت کا نقطہ اٹھا رہے ہیں۔ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران عباس نے بیان ریکارڈ کرایا کہ ‘پی اے ایف میں بطور ایئر مین، میں نے سالانہ بنیادوں پر محض تین دن گراؤنڈ ڈیفنس کی تربیت حاصل کی اور اس کورس کے سلیبس میں رات کو لڑائی کے متعلق کچھ بھی موجود نہیں’۔ ‘میں سمجھتا ہوں کہ انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں کا سامنا کرنے کے لیے میرے پاس مناست تربیت اورسامان میسر نہیں تھا۔ حملے کی رات انتہائی ناموافق حالات میں بھی میں نے اپنی پوسٹ نہیں چھوڑی اور اپنی صلاحتیوں کے مطابق دشمن پر فائرنگ کرتا رہا’۔

دوسری جانب، استغاثہ کے گواہ سکوارڈن لیڈر کاشف امجد بٹ نے اپنے بیان میں دعوی کیا کہ عباس کے پاس جی – تھری رائفل اور بیس راؤنڈ موجود تھے۔ تاہم جب ملزم نے گواہ سے پوچھا کہ ‘ہمیں سالانہ بنیادوں پر ایک مرتبہ ہی گراؤنڈ ڈیفنس کی تربیت ملتی ہے۔ کیا یہ انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہے؟ جس پر بٹ نے، دستاویزات کے مطابق، جواب دیا کہ ‘نہیں’۔ ملزم نے پوچھا کہ ‘آیا انہیں کبھی رات میں فائرنگ کی تربیت دی گئی؟’ اس پر بٹ نے جواب دیا کہ ان کی کمانڈ کے دوران بیس حکام نے کبھی بھی اس ضرورت کا ذکر نہیں کیا’۔ ملزم کے پوچھنے پر کہ آیا انہوں نے کبھی بھی اپنی ملازمت کے دوران اس طرح کے دہشت گرد حملے کا سامنا کیا؟ تو بٹ نے جواب دیا ‘نہیں’۔

عباس کے خلاف ایک اور گواہ لفٹیننٹ سعدالرحمان کا کہنا تھا ‘ 2012 میں پندرہ اور سولہ اگست کی درمیانی رات وہ بطور یو آر ایف کمانڈر ڈیوٹی ادا کر رہے تھے۔ حملے کے وقت عباس کو ایک جی – تھری رائفل، بیس راؤنڈز پر مشتمل ایک میگزین اور ایک موٹرولا ہینڈ سیٹ دیا گیا تھا’۔ ‘عباس کو طیارے اور ساز و سامان کی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ واقعہ کے بعد عباس نے اپنی رائفل کی خرابی یا اس کے کام نہ کرنے کی کوئی شکایت نہیں کی۔ حملے کے خلاف رات تین بج کر پینتالیس منٹ تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران عباس نے مجھ سے موٹرولا پر کوئی رابطہ نہیں کیا’۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حملے کے محض دس دن بعد اٹھائیس اگست کو پی اے ایف حکام نےعباس کو ‘مہینے کا بہترین ملازم’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ وہ ایک ذمہ دار اور مخلص ایس این سی او ہے، جس نے بطور یو آر ایف محافظ پندرہ اگست ، 2012 کی رات براوو شیڈ میں لگی آگ کو بجھانے کی بہترین کوششیں کیں’۔ کہا جاتا ہے کہ منہاس بیس پر متعدد سکواڈرنز کے لڑاکا اور نگرانی کرنے والے طیارے موجود ہوتے ہیں۔

حملے کے وقت بھی بیس پر جے ایف – سیونٹین سمیت تیس طیارے موجود تھے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بیس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے ایبٹ آباد میں امریکی ریڈ کا انتقام قرار دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 322729
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش