0
Tuesday 19 May 2009 17:21

آپریشن کی حمایت،امریکی حملوں کی مخالفت،کل جماعتی کانفرانس کی متفقہ قرارداد

آپریشن کی حمایت،امریکی حملوں کی مخالفت،کل جماعتی کانفرانس کی متفقہ قرارداد
اسلام آباد : وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کے پر امن ایٹمی اثاثوں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں ہمیشہ انکے عزائم ناکام ہونگے نامرادی انکا مقدر بنے گی نیوکلیئر اثاثہ جات قومی سلامتی، وقار، غیرت اور حمیت کی علامت ہیں جو نہ صرف ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں بلکہ ہم ان پر کسی قسم کی کوئی آنچ نہیں آنے دینگے پاکستان اور اس کے عوام امن پسند قوم ہیں جو خود اپنے مسائل حل کرنے اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کڑی آزمائش اور مشکل کی اس گھڑی میں تمام سیاسی جماعتیں اور 16 کروڑ شیردل عوام موجودہ حالات کے تناظر میں ایک ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں سوات ، دیر اور بونیر میں فوج اس وقت تک موجود رہے گی جب تک نقل مکانی کرنے والا آخری خاندان تک واپس اپنے گھر نہیں پہنچ جاتا، اے پی سی کی تجاویز اور سفارشات کو قومی سلامتی کی پالیسی میں شامل کیا جائے گا، ہمارے قومی موقف کی تائید ہو گی ،اسلام کے نام سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے اور شریعت کی آڑ میں ریاستی ادارں کو بلیک میل کرنیوالے بے نقاب ہو چکے ہیں اور عوام نے انکے اصل چہرے دیکھ لئے ہیں، بری فوج نے نقل مکانی کرنے پر گروپ تشکیل دیا ہے، متاثرہ علاقوں کے عوام کو ایک ارب کے فنڈز جاری کر دیئے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو مالاکنڈ ڈویژن میں جاری ملٹری آپریشن کے حوالے سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران کیا، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سیاسی جماعتوں پر قومی اہمیت کے مسائل کا قابل عمل اور حقیقی حل تلاش کرنے کیلئے مشاورت اور مفاہمت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم ایک خود مختار، آزاد اور امن پسند قوم کی حیثیت سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ، ہماری سیاست، ہماری حکومت اور ہماری پالیسیوں کا محور صرف اور صرف پاکستان ہے ، عسکریت پسندوں نے دراصل ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیا، آخری چارہ کار کے طور پر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فوج طلب کی گئی ، فوج اِن علاقوں میں اُس وقت تک موجود رہے گی جب تک نقل مکانی کرنے والے افراد اپنے گھروں کو واپس نہیں ہو جاتے اور امن و امان کی صورتحال یقینی نہیں ہو جاتی، دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی دراصل ہماری آئندہ نسلوں کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت ہے ، نقل مکانی کرنے والوں کی قربانی اور ایثار کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ، عنقریب اسلام آباد میں ایک انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس کا اہتمام کیا جائے گا، پاکستان کے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہیں اور محفوظ رہیں گے۔ کل جماعتی کانفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار، اے این پی کے صدر اسفند یار ولی ، تحریک انصاف کے رہنما عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، پی پی پی شیر پائو کے صدر آفتاب احمد شیر پائو، جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی سمیت ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشاورت اور مفاہمت ہی وہ راستہ ہے جو تمام مسائل کے بہتر ، قابلِ عمل اور حقیقی حل کی منزل کی جانب جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی ایکشن کسی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ہوتا چنانچہ میں ہمیشہ اِس بات کا قائل رہا ہوں کہ مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے تاہم جب تک عوام اور سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں نہیں آتیں ، کوئی بھی پائیدار حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم نے آل پارٹیزکانفرنس میں شریک قومی رہنمائوں اور اکابرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ کانفرنس اس حقیقت کا انتہائی پر وقار اور شاندار مظاہرہ ہے کہ ہم ایک خود مختار، آزاد اور امن پسند قوم کی حیثیت سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔آزمائش اور امتحان کی گھڑی میں ہم اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہا کہ دُنیا جانتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ سیاسی اور ملکی امور کے بارے میں مذاکرات ، مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کیا۔ یہ وہ راستہ ہے جس کی نشاندہی ہماری قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ 18 فروری2008ء کے الیکشن کے بعد ہم نے مختلف سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر صوبوں اور مرکز میں مخلوط حکومتیں بنائیں اور عوام کے اُس اعتماد پر پورا اُترنے کی کوشش کی جو اُنہوں نے ہمیشہ کی طرح ہم پر کیا تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سوات اور مالاکنڈ کے سلسلے میں بھی ہم نے مفاہمت ، مصالحت اور یکجہتی کے اُصولوں کو مشعلِ راہ بنائے رکھا۔ صوبہ سرحد میں قائم مخلوط حکومت نے جب علاقے میں امن و امان قائم کرنے کی خاطر معاہدہ کیا تو ہم نے اِس پر خوش دِلی کا اظہار کیا ، ہم نے ہر سطح پر اِس حوالے سے دبائو کا مقابلہ کیا اور معاہدے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جہاں عوام کے نمائندوں نے اِس کی توثیق کی اور اِس کے بعد صدرِ مملکت نے کسی تاخیر کے بغیر اِس کی منظور ی دے دی۔ انہوں نے بتایا کہ طے پایا تھا کہ نظامِ عدل ریگولیشن کے بعد عسکریت پسند اپنے ہتھیار پھینک دیں گے اور ہمیں بجا طور پر توقع تھی کہ نظامِ عدل ریگولیشن کے نفاذ سے نہ صرف علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گی بلکہ اس سے سیاسی مفاہمت کے عمل کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ لیکن مجھے نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ قبائلی روایات اور تہذیب کو نظر انداز کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کرنے والوں نے ہتھیار ڈالنے سے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ اُنہوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہتھیار تو مسلمان کا زیور ہوتا ہے اور اِس کو تن سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ مولانا صوفی محمد نے برملا کہا کہ ہم کسی آئین ، عدلیہ ، پارلیمنٹ اور جمہوریت کو نہیں مانتے، ہمیں کسی قانون سازی کی کوئی پروا نہیں ہے بلکہ اُنہوں نے تو سارے سسٹم ہی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اُن کے اِس رویہ کو محبِ وطن عناصر نے بجا طور پر باغیانہ تصور کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا صوفی محمد نے دراصل ریاست کی رِٹ کو چیلنج کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا روزِ اوّل سے ہی اِس بات پر اصرار رہا ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف تین نکاتی پالیسی یعنی مذاکرات ، ترقی اور آخر میں فیصلہ کُن کارروائی ہی موثر ثابت ہوگی ۔ ہم نے نہایت صبر و تحمل کے ساتھ اِس پالیسی کو اختیار کیے رکھا لیکن ہماری اِس خواہش اور کوشش کو ہماری کمزوری تصور کیا گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ہم پر تنقید کی گئی کہ ہم کسی مصلحت کے تحت خاموش ہیں حالانکہ ہماری مصلحت صرف اور صرف پاکستان کی سلامتی اور عوام کا تحفظ تھی ۔ میں آج ایک بار پھر واضح کر دوں کہ ہماری سیاست، ہماری حکومت اور ہماری پالیسیوں کا محور صرف اور صرف پاکستان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم پوری نیک نیتی اور صبر و تحمل کے ساتھ پاکستان کی سلامتی ،خود مختاری اور خوشحالی کیلئے کوششوں میں مصروف تھے لیکن دوسری طرف عسکریت پسندوں نے اپنا اثر دوسرے علاقوں تک پھیلانا شروع کردیا۔ وہ حکومتی رٹ کی پروا کیے بغیر پُر امن اور نہتے شہریوں کو اپنے جبر و تشدد کا نشانہ بنانے لگے اور اُنہوں نے اسلام کے مقدس نام کو رُسوا کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کا جینا دُوبھر کردیا۔ ہر محب وطن اور مسلمان کا سر اس وقت ندامت سے جھک گیا جب خواتین کو سر بازار رسوا کیا گیا ، صوفیاء کرام کے مزارات کی بے حرمتی کی گئی ، مخالفین کی لاشوں کو چوراہوں پر الٹا لٹکا دیا گیا ، سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتوں کو تباہ کیا گیا اور نوجوانوں کو دہشت گرد بننے کی تربیت پر مجبور کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام کی تاریخ ، تہذیب اور ثقافت اِس حقیقت کی گواہ ہیں کہ یہ لوگ امن پسند، قناعت پسند، صلح جُو اور محب ِ وطن ہیں۔ وہ تشدد ، قانون شِکنی اور انتہا پسندی سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ بعض عناصر نے جیسے اپنے ناپاک ارادوں کو پورا کرنے کی خاطر اُن کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا لیا تھا۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ایسے میں یہ عوام بیچارگی اور مجبوری کی تصویر بنے اپنی حکومت کی جانب دیکھنے لگے جو اِن کو کسی صورت میں ، کسی حال میں اور کسی مرحلے پر مایوس نہیں کر سکتی تھی۔ انتہائی غور و خوص ، مشاورت اور معروضی تجزیے کے بعد حکومت نے آخر کار یہ فیصلہ کیا کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوج طلب کرلی جائے۔ میں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے فوج کو آپریشن کرنے کا حکم جاری کیا۔ انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل مختلف پارلیمانی لیڈرز کو اِن کیمرہ بریفنگ کے لیے مدعو کیا گیا تھا جن کو چیف آف آرمی سٹاف نے آپریشنل سائیڈ پر بریفنگ دی اور کارروائی کے حوالے سے اُن کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ فوج اِن علاقوں میں اُس وقت تک موجود رہے گی جب تک نقل مکانی کرنے والے افراد اپنے گھروں کو واپس نہیں ہو جاتے اور امن و امان کی صورتحال یقینی نہیں ہو جاتی۔ اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد کار کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ وہ موثر طریقے سے اُن علاقوں میں آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بناسکیں اور ملک دُشمن عناصر دوبارہ سر اُٹھانے کی جرأت نہ کر سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہایت کامیابی کے ساتھ جاری ہے ۔ قوم کا امن و سکون تباہ کرنے والے اب حلیے بدل کر راہ فرار اختیار کر رہے ہیں حکومت اس حوالے سے مطمین اور پر اعتماد ہے کہ ملک کی سلامتی اور قومی خود مختاری کو یقینی بنانے کیلئے کی جانے والی کوششوں میں قوم کا بچہ ،بچہ اس کے ساتھ ہے ۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی دراصل ہماری آئندہ نسلوں کے تحفظ اور سلامتی کی ضمانت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اہم اور ناگزیر رہا وہاں اب ہمیں نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی اور بہبود کا سامنا بھی ہے ۔ان لوگوں کی قربانی اور ایثار کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ۔ ان کے لئے پوری قوم نہایت خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ میدان عمل میں اتر آئی ہے ۔ یہ بے گھر ہونے والے ہمارے بھائی اور بہنیں، بزرگ اور بچے خود کو بے آسرا اور لاوارث نہ تصور کریں ۔ ہم ان کی حفاظت ، سلامتی ، دیکھ بھال اور خدمت کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے ۔ اپنے آباد گھروں کو پاکستان کے نام پر چھوڑ کر آنے والے ، دراصل پورے پاکستان کے مہمان اور محسن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس آپریشن کے بعد، امن و امان کی صورتحال بحال ہونے کے بعد ہمارے سامنے ایک نہایت واضح اور قابلِ عمل پالیسی ہے جس کے تحت ہم متاثرہ عوام کی بحالی کریں گے، اِملاک کے نقصانات کا ازالہ کریں گے اور ایسے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کریں گے جن سے علاقے کے عوام کے دِل جیتے جاسکیں اور وہ امن اور سلامتی کے ساتھ قومی دھارے میں شامل ہوسکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسلام کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والے اور شریعت کی آڑ میں ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرنے والے اب بے نقاب ہو چکے ہیں ۔عوام نے ان کا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے جس پر ناکامی اور رسوائی کے داغ نمایاں ہیں ۔ہمارا پختہ عزم ہے کہ ہم اسلام کی آڑ میں ہر ایسی سازش کو ناکام بنا دینگے جو ہمارے عظیم دین کے لیے باعثِ ندامت ہو۔ ہم ایسے تمام عناصر کو بے نقاب کریں گے، جن کی مجرمانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنے ہنستے بستے گھر چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں ۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ ان نقل مکانی کرنے والے افراد کا مسئلہ ہماری فوری توجہ کا تقاضا کرتا ہے چنانچہ حکومت نے اِس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطحی سپیشل سپورٹ گروپ قائم کر دیا ہے جو صوبائی حکومت کو نقل مکانی کرنے والوں کی رجسٹریشن ، علاج معالجہ ، کیمپ کے انتظامات اور اُنہیں ریلیف کی خاطر ضروری سامان فراہم کرنے کے انتظامات کے سلسلے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یہ توقع ہے کہ عالمی برادری اس انسانی مسئلے کو حل کرنے اور دہشت گردی کے اثرات سے نجات حاصل کرنے کی کوششوں میں ہمارا بھر پور ساتھ دے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے 1 ارب روپے فراہم کر دیئے ہیں۔ صوبائی حکومت اِس امر کا جائزہ بھی لے گی کہ متاثرہ علاقوں کو ٹیکسوں سے چھوٹ دی جائے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ایک اور اہم ایشو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایشو ہمارے ایٹمی اثاثوں کا ہے ۔دہشت گردوں نے خوف وہراس اور بدامنی کی ایسی فضاء قائم کی جس سے امن پسند دنیا کو ہمارے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں تشویش لاحق ہو گئی اور بعض حلقوں میں یہ تاثر ابھرا کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں اور یہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں ۔ وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں عالمی برادری پر واضح کیا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ، اللہ کے فضل سے بالکل محفوظ ہیں اور یہ انشا اللہ محفوظ رہیں گے۔ ان اثاثوں کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے ، خواہ وہ کتنے ہی طاقتور اور بااثر کیوں نہ ہوں، ہمیشہ نامراد اور ناکام ہونگے ۔ ہمارے ایٹمی اثاثے ہماری قومی سلامتی ، وقار ، غیرت اور حمیت کی علامت ہیں ۔ یہ ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں اور ہم ان پر کبھی ، کوئی آنچ نہیں آنے دینگے ۔ انہوں نے کانفرنس کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ان کے ذہن میں جو کوئی تجویز، مشورہ یا رائے ہے ، اُس کا اظہار ضرور کریں کیونکہ مشاورت اور مفاہمت ہی وہ راستہ ہے جو تمام مسائل کے بہتر ، قابلِ عمل اور حقیقی حل کی منزل کی جانب جاتا ہے۔ قبل ازیں کانفرنس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے سنی تحریک کے سربراہ محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا کہ وہ مالاکنڈ میں جاری آپریشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن محب وطن اور دہشت گردوں میں فرق کرنا ہوگا، ہم ملک کی بقا، سلامتی اور خوشحالی کیلئے ہر اس فیصلے اور اقدام کی حمایت کریں گے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہوگا۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں سوات میں جاری ملٹری آپریشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان نے مکمل حمایت کی ہے اور اس حوالے سے سولہ نکاتی قرارداد کی بھی متفقہ طورپر منظوری دی گئی ہے۔ ملک کی آزادی خود مختاری اور مالاکنڈ ڈویژن میں حکومت کی رٹ اور قانون کی بالادستی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اے پی سی کی قرارداد اور سفارشات کو قومی سلامتی کی پالیسی کا حصہ بنایا جائے گا۔ قومی سیاسی قیادت نے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت کے موقف اور اسکی پالیسیوں پر مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا ہے پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کے حوالے سے قومی سیاسی قیادت اور حکومت کا موقف ایک ہے کسی کو بھی ایٹمی اثاثہ جات تک رسائی نہیں دی جائے گی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ ہو سکتا ہے۔ وہ پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ وزیراعظم نے اے پی سی بلائی تھی جس میں قومی قیادت کو وزیراعظم نے سوات مالاکنڈ پر مشاورت کی ہے تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اے پی سی میں شرکت کی ہے تمام جماعتوں نے کھل کر اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ اس وقت پاکستان ایک انتہائی اہم مسئلے سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات مالاکنڈ میں جو حالات ہیں وہ قوم کے سامنے ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے حکومت نے تمام آپشنز استعمال کئے ہم نے ڈیٹرنس کو پہلے استعمال نہیں کیا امن و امان کے لئے مذاکرات بھی کئے سوات نظام عدل پہلا معاہدہ نہیں تھا بلکہ پہلے بھی کئی معاہدے کئے باربار قوم کا مطالبہ تھا کہ حکومت طاقت کا استعمال کیوں نہیں کرتی قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ نظام عدل معاہدہ کی پارلیمنٹ نے توثیق کی اور صدر نے اس پر دستخط کر دیئے معاہدے کے بعد اس کی شدید خلاف ورزی کی گئی صوبائی حکومت بھی بار بار طالبان سے مذاکرات کرتی رہی اور انہیں اعتماد میں لیا گیا آخری مرحلے پر فوجی آپریشن کا فیصلہ ہوا ہے یہ آسان فیصلہ نہ تھا۔ حکومت کی رٹ کو یقینی بنانا حکومت اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے، حکومت نے اور فوجی قیادت نے وہاں پر سکیورٹی فورسز کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ وہاں پر سول آبادی کا کم سے کم نقصان ہونے دیا جائے۔ وزیر اطلاعات ونشریات قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسند عوام کا قتل عام کرتے رہے ہیں، فوجی اور سول اداروں کے جوانوں اور افسران کو اغواء کیا جاتا ہے غریب عوام پر تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ فوج بڑے صبر و تحمل کے ساتھ یہ آپریشن کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا ہے اور متفقہ قرارداد پاس ہوئی ہے۔

خبر کا کوڈ : 5265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش