0
Tuesday 15 Feb 2011 12:44

امریکا پاکستان پر پابندیاں عائد نہیں کر سکتا،اقتصادی ماہرین

امریکا پاکستان پر پابندیاں عائد نہیں کر سکتا،اقتصادی ماہرین
کراچی:اسلام ٹائمز۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان پر پابندیاں عائد نہیں کرسکتا، امریکا اس وقت بڑی جنگ میں مصروف ہے اور آئندہ 2 برس اس کیلئے نہایت اہم ہیں، تاہم امریکا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ ”کیا حکومت امریکا کی متوقع اقتصادی پابندیوں سے گھبرا گئی ہے؟“ کے موضوع پر ہونے والے اس مباحثے میں سابق وفاقی وزیر تجارت ڈاکٹر زبیر خان، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین ڈاکٹر اشفاق حسن، اسلام آباد ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی صدر ثمینہ فاضل، واشنگٹن میں جیو نیوز کے نمائندے سمیع ابراہیم اور جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر پروفیسر خورشید شریک ہوئے۔ 
پروگرام کے دوران بتایا گیا کہ 1965، 1971، 1990، 1998ء میں مختلف مواقعوں پر امریکا پاکستان پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ اسکے علاوہ فوزیہ وہاب کی وہ پریس کانفرنس بھی سنائی گئی تھی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ریمنڈ ڈیوس کیلئے ہمیں امریکا سے تعلقات خراب نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ امریکا پاکستانی تجارت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ ڈاکٹر زبیر خان نے کہا کہ گزشتہ 20 برس کا جائزہ لیں تو امریکا پاکستان پر پہلے بھی کئی بار پابندیاں عائد کر چکا ہے، اس وقت امریکا جنگ میں مبتلا ہے اور آئندہ 2 برس اس کیلئے بہت اہم ہیں لہٰذا میری رائے کے مطابق امریکا پاکستان کی معیشت ہرگز ڈبونا نہیں چاہے گا۔ تاہم ہمارے وزراء کو دھمکیاں دی جائیں گی، دباؤ بھی برقرا رکھا جائیگا، مذاکرات ملتوی ہوں گے لیکن پاکستان کی معیشت جو کہ بہت کمزور حالت میں ہے، اِس حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے امریکا پابندیاں لگانے میں کبھی پہل نہیں کرے گا۔
 امریکا سرکاری امداد پر پابندیاں عائد کرسکتا ہے لیکن نجی تجارت پر پابندیاں نہیں لگا سکتا۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈیوس کے معاملے پر عدالت غور کر رہی ہے اور اس کا فیصلہ بھی اُسے ہی کرنا چاہئے، ڈیوس کے معاملے پر ہمیں ذہنی دباؤ میں آنے کی بجائے ملکی اور بین الاقوامی قوانین کو ترجیح دینی چاہئے۔ شاہ محمود قریشی وزارت خارجہ میں بہت اچھا کام کر رہے تھے، شاہ محمود کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ڈیوس سفارتکار نہیں۔ ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ ہم بہت زیادہ جذباتی ہو گئے ہیں، شاید اس کی نوبت نہ آئے کیونکہ پاکستان اور امریکا دونوں ہی ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان بہت اہم تعلقات ہیں، شاید پاکستان پر پابندیوں کی نوبت نہ آئے۔ تاہم امریکا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے کیونکہ جتنے بھی اہم ممالک ہیں وہ سب امریکا کے زیر اثر ہیں اور سب کا لیور امریکا کے ہاتھ میں ہے۔ 
پروفیسر خورشید نے کہا کہ امریکی پابندیوں کے بعد پاکستان ترقی کرے گا، دُنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو محض بیرونی امداد کی بنیاد پر کھڑا ہو، ہمارے پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ بیرونی امداد پر انحصار کرنا ہے، ہمارے پہلا پنج سالہ منصوبے کا ماڈل بہت اچھا تھا جسے کئی ممالک نے فالو کیا اور ہم سے آگے نکل گئے لیکن ہم امریکی امداد کے گرد پھنس کر ابتک ایک کنارے سے لگے ہوئے ہیں، امریکی امداد کا مقصد امریکا کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ ثمینہ فاضل نے کہا کہ ہمیں بیرونی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، ہم اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں۔ ڈیوس کے معاملے پر حکومت ڈٹ جائے اور جن بڑے لوگوں کا پیسہ بیرون ملک ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنا پیسہ ملک میں واپس لائیں۔ 
سمیع ابراہیم نے کہا کہ پاکستان کے اندر جو معاملات ہیں وہ جذبات سے نہیں عقل سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔ دو فریقوں کے درمیان اگر معاملات حل نہ ہوں تو ڈپلومیسی کی جاتی ہے، پاکستان ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے لہٰذا اس پر پابندیاں عائد ہونے کا خطرہ ہے اور اگر پاکستان پر پابندیاں عائد ہو گئیں تو پاکستانی سفارتکاروں کا کام بہت مشکل ہو جائیگا، ہندوستانی لابی کو بھی پاکستان کیخلاف کھل کر کہنے کے مواقع مل جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ جب دو ریاستوں کے درمیان کسی معاملے پر تنازع چل رہا ہو تو معاملے کو شفاف بنانے کیلئے عالمی ماہرین کو بلا کر اس کا فیصلہ کرانے میں کوئی حرج نہیں۔
خبر کا کوڈ : 54882
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش