0
Monday 17 Oct 2016 16:47

پاک ایران گیس پائپ لائن اور حکومتی ترجیحات(1)

پاک ایران گیس پائپ لائن اور حکومتی ترجیحات(1)
تحریر: عمران خان

گرمیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ستائے اکتوبر کے اوائل میں موسم کی مہربانی کے باعث سکھ کا سانس لیتے ہیں، کیونکہ اکتوبر سے اپریل تک بہرحال بجلی کی غیر موجودگی بندے کے اوسان خطا نہیں کرتی، تاہم سکھ کی یہ خوش گمانی محض ان چند دنوں تک مہمان رہتی ہے کہ جب تک سردی اپنے مکمل پر پرزے نہیں نکالتی۔ پھر وہی سماں کہ گرمیوں میں بجلی کی عدم دستیابی کے باعث سانس رکتا ہے اور سردیوں میں گیس کی کمیابی کے باعث خون جمتا ہے۔ عام پاکستانی کیلئے اکتوبر کا مہینہ بقول منیر نیازی
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اقوام عالم کے معمولات و معاملات میں جتنا توازن ملتا ہے، بحیثیت قوم ہم اتنے ہی غیر متوازن ہیں، جس کا عمومی عکس ہر شعبہ ہائے زندگی میں ملتا ہے، تاہم توانائی کا شعبہ اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک توانائی کی مد میں جہاں طویل المدتی منصوبوں پر عملدرآمد میں مصروف ہیں، وہیں قلیل المدت یعنی شارٹ ٹرم پالیسی بھی اختیار کی جاتی ہے۔ ذرائع توانائی کے زیادہ سے زیادہ حصول کیلئے جہاں کوششیں ہوتی ہیں، وہیں ماہانہ بنیادوں پر زیادہ سے زیادہ بچت اور بالخصوص طلب و رسد میں توازن قائم کرنے کیلئے متعلقہ شعبے مسلسل متحرک رہتے ہیں۔

وطن عزیز میں ان تکلفات یا تکالیف کی کوئی گنجائش نہیں، یعنی نہ تو ذرائع توانائی بڑھانے کیلئے بڑے ڈیم بنانے کی تکلیف کی جا رہی ہے اور نہ گیس پائپ منصوبوں پر عملدرآمد کی مخلصانہ کوشش۔ عارضی بنیادوں پر مسائل حل کرنے کی کوششیں پیپلز پارٹی دور میں رینٹل پاور اور نواز لیگ دور میں قطر سے ایل این جی درآمد کی صورت میں کرپشن کا تاریک باب ہیں۔ پاک عوام پہ مسلط حکمران اور بیرونی ڈکٹیشن یافتہ پالیسی سازوں نے یہ وطیرہ اپنایا ہوا ہے کہ ہمیشہ عین بحران کے درمیان اس سے نجات کی خبریں سناتے ہیں، یعنی پانی میں ڈوبتے شخص کو یہ مژدہ سنایا جاتا ہے کہ اگلے سال ہم یہاں کشتی چلائیں گے اور آگے سے وہ بیچارہ یہ بھی نہیں کہہ پاتا، عالی جاہ گذشتہ برس بھی آپ نے ڈوبنے والوں سے یہی کہا تھا اور اسی کے بھروسے میں یہاں تک چلا آیا، اب میرے مرنے کے بعد یہاں کی کشتی کا مجھے کیا حاصل۔؟ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں توانائی کے وزرا جب اپنی عوام کے سامنے یہ اعداد و شمار پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ اگلے تین ماہ میں ہم فاضل بجلی کو کہاں خرچ کرنے لگے، فاضل گیس کو ذخیرہ کرنے کیلئے یہ منصوبہ بندی کی گئی ہے، عین اسی دوران ہمارے وزراء توانائی ذرائع سے استفادہ کے اوقات کار کا چارٹ اسی طرح مرتب کرتے ہیں کہ جیسے ڈاکٹر دائمی عارضہ میں مبتلا کسی علیل کو دوائی تجویز کرے۔

موسم سرما دستک دے رہا ہے، ایک مرتبہ پھر گیس کی کمی کے باعث گھریلو صارفین کے چولہے ٹھنڈے رہیں گے، کمرشل صارفین گیس کے حصول کیلئے پائپ لائنوں کیساتھ کمپریسر لگائیں گے، جس سے کئی طرح کے حادثات رونما ہوں گے، جن میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوں گی۔ ہسپتالوں، گھروں، سکولوں، مساجد، تعلیمی اداروں، دفاتر، مدارس میں گیس کی کمیابی کے باعث چولہے اور ہیٹر بند رہیں گے، امراض میں اضافے کی وجہ سے ہسپتال اور کلینک آباد ہوں گے۔ یعنی گرمیوں کے بعد سردی میں بھی عوام کی زندگی اجیرن، بقول ساغر صدیقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

البتہ یہ مصائب، اذیتیں فقط عوام کیلئے ہیں۔ فیصلہ ساز قوتیں ان مصیبتوں سے کوسوں دور ہیں۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ سب سے زیادہ متاثر وہی لوگ ہوتے جو اس مد میں فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے مثبت یا منفی فیصلوں کے اثرات سب سے زیادہ انہی کی زندگی متاثر کرتے تو انہیں اپنے فیصلوں کی اچھائی یا برائی محسوس ہوتی، مگر یہاں تمام تر تجربات کیلئے ’’سبجیکٹ ‘‘ یعنی عوام موجود ہیں نا۔ جن کے جینے مرنے سے فیصلہ سازوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کا فیصلہ وزیر پانی و بجلی لیتا ہے، مگر وہ خود اس لوڈشیڈنگ سے محفوظ رہتا ہے، موٹر وے گروی رکھنے والے وزیر خزانہ کا تمام تر کاروبار دبئی میں ہے، جس کی وسعت کا اندازہ کرنے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ کاروبار دبئی میں سب سے بڑا کاروبار سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا ملک جہاں لاقانونیت پھیلی ہو، عوامی جان و مال عدم تحفظ کا شکار ہو، وہاں کا وزیر داخلہ محض سکیورٹی کے نام پر سینکڑوں اہلکاروں کو اپنے تصرف میں رکھتا ہے۔ جس ملک کے کروڑوں بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہوں اور اسی ملک کے وزیر تعلیم کے اپنے بچے ملک سے باہر تعلیم حاصل کر رہے ہیں، نظر ذرا بلند کریں تو خوراک کے بحران سے دوچار وطن عزیز کے وزیراعظم کی ڈائننگ ٹیبل کا سائز ہی کسی غریب کی کٹیا سے بڑا محسوس ہوتا ہے۔ اب ایسے اخلاص سے مزین حکمرانوں کی موجودگی میں کسی بہتری کی امید بھلا کیونکر کی جاسکتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیئے کہ جن مسائل و مشکلات سے عوام دوچار ہیں، اگر انہی سے حکمران بھی دوچار ہوں تو یہ مسائل بحران بننے سے پہلے ہی حل ہوجائیں، خوراک، بجلی، گیس، تعلیم جیسے مسائل قصہ پارینہ بن جائیں، کیونکہ ایک زرعی ملک کبھی خوراک کے بحران سے دوچار نہیں ہوسکتا، دریاؤں، نہروں، جھیلوں سے مزین ایٹمی ملک بجلی کی کمی کا شکار نہیں ہوتا، دنیا کے کثیر الآبادی ملکوں کے پڑوسی اور رابطہ ملک کو کبھی تجارت یا سرمایہ کاری کیلئے کاسہ لیسی کی ضرورت نہیں رہتی۔ معدنی و افرادی قوت سے مالا مال ملک کے شہری دوسرے ممالک کے بیگار کیمپوں کا حصہ نہیں بنتے۔ ایٹمی طاقت رکھنے والے کسی ملک کو اپنی فوجیں کرائے پر دینے کی ضرورت نہیں رہتی، کوئلہ، سونا، تیل، گیس، زمرد، تانبا، نمک، مرر کے ذخائر رکھنے والے ملک کبھی آئی ایم ایف کے چنگل میں نہیں پھنستے،  اگر پاکستان تمام تر وسائل کے باوجود گوں ناگوں مسائل سے دوچار ہے تو اس میں بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس پر مسلط حکمران، فیصلہ ساز قوتیں اس سے مخلص نہیں ہیں۔ بات دور نکل گئی، پاکستان کو اللہ رب العزت نے ہر طرح کے بیش بہا وسائل سے نوازا ہے، لیکن حکومتوں نے کبھی بھی ان وسائل سے مستفید ہونے کے لئے منصوبہ بندی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ ہی یہ وسائل بیرونی کمپنیوں کے تصرف میں دیکر فی الوقتی فوائد حاصل کرنے کا آسان راستہ اختیار کیا۔ ایسی غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں موجود قیمتی ذخائر سے تاحال فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا اور نہ ہی توانائی کے بحران کا مسئلہ حل ہوا۔

بیرونی کمپنیوں پر ضرورت سے زیادہ انحصار اور غیر ملکی ڈکٹیشن کی وجہ سے وطن عزیز کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے اور آج حالت یہ ہے کہ پاکستان کے جن علاقوں میں بجلی نہیں پہنچی، وہاں موبائل کے نیٹ ورک کام کرتے ہیں، پینے کا صاف پانی تو میسر نہیں لیکن کوک اور پیپسی وہاں بھی ملتی ہے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی بہتات ہے لیکن گیس و پٹرول کی شدید قلت ہے۔ ہر گھر میں الیکڑانکس مصنوعات کثیر تعدا میں موجود ہیں، لیکن ان کے استعمال کے لئے بجلی میسر نہیں۔ توانائی کے شدید بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ نگار اور بیوروکریسی 2012ء سے خطرناک نتائج کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ سابق حکمران جماعت توانائی بحران کے باعث عوامی پذیرائی مکمل طور پر گنوا چکی ہے اور موجودہ حکمران جماعت کا بھی وہی انجام متوقع ہے۔ علاوہ ازیں جب بھی کسی عوام دوست حکومت نے توانائی کے مسائل پر قابو پانے کے لئے منصوبہ بندی کی تو ان پر عملدرآمد روکنے کے لئے بڑی طاقتوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور صرف کر دیا۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ اکثر منصوبہ جات کی ابتدائی تجاویز پاکستانی تھنک ٹینکس کے بجائے طالب علموں یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے پیش کی گئیں۔ پن بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ، کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کی تجویز انجنیئرنگ کے طالب علموں نے پیش کیں۔ گیس پائپ لائن کی تجویز بھی ایک نوجوان سول انجنیئر ملک آفتاب خان نے پیش کی تھی۔ ملک آفتاب خان کی تجویز کی روشنی میں پاکستان اور ایران کی حکومتوں کے درمیان "پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ" تیار پایا۔ اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے یہ منصوبہ اتنا اہم ہے کہ اسے امن پائپ لائن پراجیکٹ کا نام دیا گیا۔ عوامی فلاح اور توانائی کی کمی پوری کرنے میں سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا یہ منصوبہ نصف سے زائد مکمل ہوچکا ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 576177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش