0
Friday 25 Nov 2016 08:10
صرف سیاستدان کو سزا دینا اور مقدس گائے کو چھوڑ دینا غلط ہے

اگر کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرے تو اسے فوج کا مخالف تصور کیا جاتا ہے، رضا ربانی

ہر دس سال کے بعد آئین توڑ دیا جاتا ہے
اگر کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرے تو اسے فوج کا مخالف تصور کیا جاتا ہے، رضا ربانی
اسلام ٹائمز۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ پاکستانی جمہوریت کو سول ملٹری تعلقات، حکومت عدلیہ تعلقات دونوں ایوانوں کے اختیارات میں عدم توازن جیسے چیلنجز اور مسائل کا سامنا ہے۔ سینٹ اور دولت مشترکہ تنظیم کی مشترکہ کاوشوں سے منعقدہ ارتقائی مراحل سے گزرنے والی جمہوریتوں کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سینٹ نے وفاقی اکائیوں کے حقوق اور محروم طبقات کیلئے قانون سازی کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ایوان کے کام کے طریقۂ کار میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمران اشرافیہ نے ایک ایسی روش پیدا کر لی ہے، جس کے تحت اگر کوئی شخص آئینی اداروں اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ہے تو اسے فوج کا مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک پارلیمان اور سیاستدانوں کی کردار کشی کی گئی ہے، جبکہ ڈکٹیٹروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، سیاستدانوں کو نااہل اور کرپٹ قرار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدان فوج کے خلاف نہیں ہیں اور آئین کے تحت ہر ادارے کا اپنا کردار ہے، لیکن بدقسمتی سے طالع آزمائوں نے جب بھی اقتدار پر قبضہ کیا تو آئین کو معطل کر دیا گیا، تاہم عوام قانون کی حکمرانی کیلئے پر عزم تھے اور اب بھی ہیں، عوام نے آمریتوں کا مقابلہ کیا اور سزائیں کاٹیں اور آخر میں فتح عوام کی ہی ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ ایوان بالا کا مقصد وفاقی اکائیوں کی نمائندگی ہے، ایک ایسا فارمولا بنانے کی اشد ضرورت ہے، جس کے تحت دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں قانون سازی کے دوران ووٹنگ میں دونوں ایوانوں کی حیثیت برابر ہو۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمہوریت چاہے جیسی بھی ہو آمریت سے بہتر ہے، ہر سیاستدان کرپٹ نہیں ہے، تمام ادارے اپنا احتساب خود کرتے ہیں اور سیاستدانوں کا احتساب بھی پارلیمان کو کرنا چاہیے، نہ کہ خصوصی عدالتوں کو۔ انہوں نے کہا حکمران طبقے نے پارلیمان کو ہمیشہ بائی پاس کرنے کی کوشش کی ہے، مگر اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان اپنے اختیارات کیلئے خود کھڑی ہو جائے۔ اے این این کے مطابق رضا ربانی نے کہا کہ آئین کی حکمرانی، قانون کی عملداری اور سیاستدانوں کی کچھ باتوں کو مسلح افواج کے خلاف سمجھا جاتا ہے، جبکہ صرف سیاستدان کو سزا دینا اور مقدس گائے کو چھوڑ دینا غلط ہے، پاکستان کا سب بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی نے ملک کو سوشل سکیورٹی اسٹیٹ بنا دیا، دونوں اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں، راولپنڈی سے اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے میں وقت لگے گا، پاکستان میں جمہوریت اب بھی عبوری دور سے گزر رہی ہے، جبکہ ملک میں اس وقت مثالی جمہوریت نہیں ہے، لیکن پھر بھی آمریت سے بہتر ہے، ہمیں گورننس اور بدعنوانی جیسے مسائل کا سامنا ہے، تاہم کرپشن معاشرے میں نچلی سطح تک سرایت کر گئی ہے۔

انکا کہنا تھا کہ عدلیہ، فوج اور بیوروکریسی میں احتساب اور سزا کا اپنا نظام ہے، صرف سیاستدانوں کیلئے خصوصی قانون اور عدالتیں بنائی گئی ہیں، ہر دس سال کے بعد آئین توڑ دیا جاتا ہے، جمہوریت بجلی کا سوئچ نہیں جو بٹن سے آن آف ہو، جمہور یت پراسس اور نظام کے تسلسل سے آتی ہے۔ دولت مشترکہ تنظیم کے سیکرٹری جنرل اکبر خان نے کہا کہ پارلیمان ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو کہ قومی سطح پر بنائی جانے والی حکمت عملیوں میں عوام کی آواز کو شامل کرتا ہے اور بحث اور مباحثے کے ذریعے معاشرتی انتشار کا خاتمہ کرتا ہے۔ راجہ محمد ظفرالحق نے کہا کہ تاریک دور گزر گیا ہے اور جمہوری عمل ایک نئے روشن دور میں داخل ہونے جا رہا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ارتقائی مراحل سے گزرنے والی جمہوریتوں کیلئے انصاف تک رسائی اور قانو ن کے سامنے برابری کو ترجیح بنیادوں پر رکھنا ہوگا، کیونکہ انصاف کے بغیر کوئی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ سیکرٹری سینیٹ امجد پرویز ملک نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ چیئرمین سینیٹ کی قیادت میں ایک اصلاحاتی منصوبے پر عملدرآمد جاری ہے، تاکہ بین الاقوامی اہداف کے روشنی میں پارلیمانی کارروائی میں مزید بہتری لائی گئی ہے۔
صحافی : تنویر حیدر سردار
خبر کا کوڈ : 586397
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش