0
Saturday 18 May 2019 00:26

امریکہ کی وجہ سے جوہری معاہدہ خاتمے کے نزدیک ہے، پیوٹن کا انتباہ

امریکہ کی وجہ سے جوہری معاہدہ خاتمے کے نزدیک ہے، پیوٹن کا انتباہ
اسلام ٹائمز - رواں ماہ کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور ان کے امریکی ہم منصب مائیک پمپیو دونوں ہی اعلی روسی حکام کے ساتھ سفارت کاری میں مشغول رہے ہیں جبکہ روسی حکام نے ظریف اور پمپیو سے ملاقات کے بعد تہران اور واشنگٹن کے درمیان پائے جانے والے تناؤ پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔رواں ہفتے بدھ کے روز جب ایران نے جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کی سالگرہ کے موقع پر احتجاجا جوہری معاہدے کی کچھ شقوں پر عملدرآمد کو روک دیا تھا، روس کی طرف سے اس بارے بڑھتے تناؤ پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ موجودہ صورتحال کے وجود میں آنے کا سبب امریکی اقدامات ہیں۔

کریملن پیلیس کے ترجمان "ڈیمیٹری پیسکوف" نے بھی اسی دن اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ افسوس ہے کہ بڑھتا ہوا تناؤ دیکھنا اور ایران کے اس فیصلے کو سننا پڑ رہا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صورتحال مزید تناؤ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پیسکوف نے کہا تھا کہ ہمیں واضح طور نظر آ رہا ہے کہ ایران کا یہ فیصلہ اُس دباؤ کے جواب میں آیا جو خود جوہری معاہدے کے خلاف ہے جبکہ یہ امریکہ ہی ہے جس نے ایران کو ایسا فیصلہ لینے پر مجبور کیا ہے، افسوس ہے کہ پریشانیاں بدستور اپنی جگہ باقی ہیں۔ اسی طرح ڈیمیٹری پیسکوف نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ منگل  کے روز صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو نے جوہری معاہدے (JCPOA) کے بارے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی۔

بہرحال روس واضح کر چکا ہے کہ تناؤ کی سطح مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس حوالے سے روس نے تمام فریقوں کو کئی مرتبہ متنبہ بھی کیا ہے جبکہ روسی حکام عام طور پر ایران اور مغربی ممالک کے تعلقات پر کھل کر اظہار نظر کرنے سے اجتناب کرتے ہیں البتہ اس مرتبہ صدر ولادیمیر پوٹن سمیت اعلی روسی حکام بھی تمامتر سفارتی ضوابط کو ایک طرف رکھتے ہوئے واضح الفاظ میں بیانات دینے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ اسی طرح روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھی بدھ کے دن آسٹریا کے صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کے دوران جوہری معاہدے (JCPOA) کو بچانے کے مسئلے میں یورپی ممالک کے لاچار ہونے اور ایران کے اس جوہری معاہدے میں باقی رہنے کی ضرورت پر کھل کر بات چیت کی۔ پوٹن کے کہنے کے مطابق روس خود بھی جوہری معاہدے کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، وہ معاہدہ جسے امریکہ نے پنپنے نہیں دیا جبکہ اس حوالے سے یورپ نے بھی کچھ نہیں کیا۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے کو ٹوٹنا نہیں چاہئے لیکن اس کی بقاء کی شرط یہ ہے کہ اس پر دستخط کرنے والے تمام ممالک اس کی پابندی کریں۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس بیان کے دوران روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا لہجہ اتنا سخت ہو گیا تھا کہ وہ خود بھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ ممکن ہے کہ یہ غیر سفارتی بیان یورپی دوستوں کے کانوں کو بھلے معلوم نہ ہوں البتہ اس بیان کے ذریعے روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جوہری معاہدے کے ناکام ہونے کی تمامتر ذمہ داری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گردن پر ڈال دی ہے۔ ولادیمیر پوٹن نے امریکیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ امریکی جوہری معاہدے سے دستبردار ہو گئے ہیں اور جوہری معاہدہ بھی ختم ہونے کے قریب ہے جبکہ یورپی بھی اُسے بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے بلکہ واقعا وہ ایران کے ساتھ کام کرنے اور اس کے اقتصادی نقصان کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔

ان موضوعات سے ہٹ کر روسی صدر پوٹن نے ایران کے بارے میں بھی قابل توجہ بیانات دیئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے بارہا اپنے ایرانی شرکاء کو کہا ہے کہ میرے خیال میں، کسی بھی نتیجے سے صرف نظر کرتے ہوئے، عقل کے زیادہ نزدیک یہی ہے کہ جوہری معاہدے میں باقی رہا جائے۔ اس حوالے سے ممکن ہے کہ ایران جوابی کارروائی کرے لیکن کل سب بھول جائیں گے کہ شروعات کرنے والا امریکہ تھا اور تمامتر ملبہ ایران پر آ گرے گا اور جانتے بوجھتے ہوئے بین الاقوام عوامی رائے عامہ کو اسی سمت موڑا جائے گا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوٹن نے کیوں کہا کہ بہتر ہے کہ ایران جوہری معاہدے میں باقی رہے، اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ جو کہا جا سکتا ہے وہ یہ کہ شاید ایران کو یہ روس کی "نصیحت" ہو اور وہ یہ کہنا چاہتا ہو کہ ایران کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کی صورت میں وہ ایران کے خلاف عالمی اجتماع کو روک نہیں پائے گا۔
 
خبر کا کوڈ : 794853
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش