0
Thursday 13 Jun 2019 19:18
بحرین میں ہونیوالی اسرائیلی و امریکی کانفرنس میں شرکت کرنیوالے عرب ممالک کو انتباہ!

منامہ کانفرنس میں شرکت کرکے ذلت و رسوائی کے ساتھ واپس پلٹو، عبدالباری عطوان

منامہ کانفرنس میں شرکت کرکے ذلت و رسوائی کے ساتھ واپس پلٹو، عبدالباری عطوان
اسلام ٹائمز۔ معروف عرب کالم نگار "عبدالباری عطوان" نے ہمیشہ کی طرح اپنی عربی اخبار "رأی الیوم" کے اداریے کو چند ایک سوالات کے ساتھ شروع کیا۔ انہوں نے لکھا کہ کیا وجہ ہے کہ مصر، اردن اور مراکش کی حکومتیں "صدی کی ڈیل" اور بحرین میں ہونے والی اسرائیلی و امریکی کانفرنس میں شرکت کرکے ہمیں دھچکا پہنچا رہی ہیں؟ کیا فلسطین و اسرائیل کے درمیان نابلس میں ہونے والی جھڑپیں وہ مزاحمتی لہر نہیں جس کا ہمیں انتظار تھا۔؟ معروف عرب لکھاری اپنے اداریے کے شروع میں ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی کی مصر، اردن اور مراکش کی طرف سے مسئلہ فلسطین کے خاتمے کے لئے بحرین میں منعقد کی جانے والی کانفرنس میں امریکی دعوت پر لبیک کہنے کی خبر پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ بہت حیرانگی کی بات ہے! لیکن اس خبر نے ہماری امیدیں نہیں توڑیں، کیونکہ ایسے افراد بھی موجود ہیں، جو غور و فکر سے کام لیتے ہوئے خطے میں رونما ہونے والی بعض ناگوار تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ ہماری حیرانگی کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ بالا تینوں ممالک عرصہ دراز سے اس بات پر تاکید کرتے نظر آتے تھے کہ جو چیز فلسطینیوں کو قابل قبول نہ ہو، ہم بھی قبول نہیں کریں گے اور جس چیز کو فلسطینی قوم رد کر دے، ہم بھی اسے رد کر دیں گے۔ پھر ایسا کیا ہوگیا کہ انہوں نے منامہ کانفرنس میں شرکت کی ٹھان لی، جبکہ تمام کی تمام فلسطینی عوام اور ان کے نمائندہ گروپس کھلم کھلا اس کانفرنس کی مخالفت کر رہے ہیں؟ البتہ اس کانفرنس میں شرکت مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ وابستگی اور اس کے ضمن میں "صدی کی ڈیل" کی حمایت کو ظاہر کرتی ہے۔ کیا ان حکومتوں نے یہ سمجھا ہے کہ عرب قوم اتنی احمق ہے کہ اُسے آسانی کے ساتھ فریب دیا جا سکتا ہے۔؟

عبدالباری عطوان لکھتے ہیں کہ ہمارا خیال تھا کہ یہ تینوں ممالک "منامہ کانفرنس" میں شرکت کو قبول نہیں کریں گے اور فقط سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی اس کانفرنس کا خیرمقدم کرنے والے ہوں گے، کیونکہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اول تو مذکورہ تینوں ممالک اس کانفرنس کو، خلاف واقع، قانونی ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور دوسرے یہ کہ یہ تینوں ممالک "صدی کی ڈیل" کے مخالف ہیں، جس کے مطابق ان کی سرزمین کا ایک حصہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا اور جو صد در صد "گریٹر اسرائیل" کے منصوبے کا حصہ ہے، لیکن افسوس کہ اس بارے میں ہمارا خیال غلط تھا! عبدالباری عطوان لکھتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ عرب ممالک کیسے مجبور ہوگئے کہ ایک ایسے منصوبے کا حصہ بن جائیں جسے "جیئرڈ کشنر" جیسے ایک ایسے چھوکرے نے ترتیب دیا ہے، جس کی تمام تر لیاقت یہ ہے کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کا داماد ہے اور جس کا باپ اپنے گہرے دوست "نیتن یاہو" کے ساتھ مختلف قسم کے جرائم میں سزا بھی پا چکا ہے۔

یہ واقعاً ایک ذلت آمیز اطاعت اور انتہائی گھٹیا سازش ہے! وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب عرب ممالک مسلسل کئی ایک دہائیوں سے بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی بات کرتے چلے آرہے ہیں۔ آخر یہ "کشنر" ہے کون، جو تاریخ کے مقدس ترین مسئلے کے حل کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرے، اس مقصد کے لئے کانفرنس کا انعقاد کرے اور پھر عرب ممالک کو اس گھٹیا طریقے کے ساتھ اس کانفرنس میں شرکت کرنے پر اکسائے؟ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ عبدالباری عطوان نے ایک عرب ملک کے دارالحکومت میں "صدی کی ڈیل" کی شقوں پر صرف بحث و مباحثہ کرنے کو بھی توہین آمیز قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ چیز عرب قوم کے انحطاط کی نشاندہی کرتی ہے، کیونکہ دوسرے ایسے بہت سے ممالک بھی موجود ہیں، جو عرب قومی یکجہتی کے اصول کی پابندی کرتے ہوئے اسرائیل و امریکہ کے اس نسل پرستانہ منصوبے کی مخالفت میں ڈٹے ہوئے ہیں۔

عرب اخبار رأی الیوم کے اداریے میں مزید آیا ہے کہ عرب و اسلامی ممالک کے امریکی کھلی دشمنی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے عمل کی کیسے توجیح کی جا سکتی ہے، جبکہ چین اور روس جیسے ممالک اس امریکی جارحیت کے مقابلے کے لئے ملک کر اتحاد تشکیل دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس جارحیت اور ڈالر کے مقابلے میں ایک نیا عالمی مالیاتی و اقتصادی نظام وضع کریں، تاکہ دوسرے ممالک کی معیشت کو تباہ کرنے کی خاطر امریکہ کی طرف سے لاگو کی گئی تمامتر پابندیاں بھی بےکار ہو جائیں۔ شاید بعض عرب ممالک کا بہانہ یہ ہو کہ وہ کہیں کہ ہم امریکی عزائم سے آشنائی کی خاطر منامہ کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں، تاکہ بہتر موقف اختیار کیا جا سکے۔ یہ بہانہ خود اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ عرب ممالک ذلت کی گہرائیوں میں گر اور دوسرے ممالک کے تمسخر کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کیا کوئی ایسا عرب بچہ بھی اب باقی بچا ہے، جو یہ نہ جانتا ہو کہ "صدی کا معاملہ" کیا ہے۔؟

عطوان نے مزید لکھا کہ ہم تمام حکومتوں کو اطمینان دیتے ہیں کہ فلسطینی قوم اور ان کے مزاحمتی گروپس اس سازش کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکیں گے، کیونکہ اب بھی وہ کافی حد تک پریشر پوائنٹس اور دفاعی قوت کے حامل ہیں۔ اب بھی ان کے راکٹس، جو پیشرفتہ بھی نہیں ہیں، دشمن کے دلوں میں خوف و وحشت بھر کر انہیں سیز فائز کی بھیک مانگنے پر مجبور کرسکتے ہیں، کیونکہ اول یہ کہ ان کے پاس ارادہ موجود ہے اور دوسرے یہ کہ یہ قوم صرف اپنے ہی اوپر تکیہ کرتی ہے۔ ہم خدائے متعال کے شکر گزار ہیں کہ ایک ہی سہی لیکن ہمارے پاس مزاحمتی محاذ موجود ہے، جو عرب ممالک کی خالی جگہ کو پر کرکے خطے میں قوت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔ ایک ایسا مزاحمتی محاذ جو باعزت ہے اور جس کی میزائل اور ڈرون پاور مسلمانوں کی ثروت پر سانپ بنے بیٹھے کئی ایک ممالک پر مزاحمتی قوتوں کو برتری عطا کرتی ہے، جبکہ وہ طرح طرح کی پابندیوں کی وجہ سے مادی اعتبار سے ایسے بھوکے ننگے لوگ ہیں، جو غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں محصور کر دیئے گئے ہیں۔

معروف عرب لکھاری عبدالباری عطوان کے عقیدے کے مطابق وہ فلسطینی جو اپنے راکٹس کو ترقی دے کر تل ابیب کو اپنا نشانہ بنا لینے کے قابل ہوچکے ہیں، عربوں میں اکیلے ہی "صدی کی ڈیل" اور امریکہ کی زور زبردستی کا مقابلہ کرنے نکل پڑے ہیں، جبکہ "کشنر" جیسے کرداروں کے ساتھ مل بیٹھنے یا ان کا استقبال کرنے سے بیزار ہیں۔ انہوں نے ٹھان لیا ہے کہ مقبوضہ قدس میں موجود یہودی بستیوں میں مقیم امریکیوں کا محاکمہ کریں، جبکہ وہ تمامتر دباؤ اور نصیحتوں کے مقابلے میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کو بھی رد کر دیتے ہیں، درحالیکہ آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرنے والے عرب حکام ٹرمپ کے ہاتھ پاؤں چومنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہوئے نظر آتے ہیں، جبکہ "عظیم انتفاضہ" کی آگ بہت جلد بھڑکنے والی ہے، جس کے بارے وقت سے پہلے متنبہ کیا جا رہا ہے۔

رأی الیوم کے لکھاری نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ جب فلسطینی سکیورٹی فورسز اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن پلان کے خلاف بغاوت کرکے اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ بھڑ جاتی ہیں اور نابلس میں موجود ان کی بیرکوں کو اپنے نشانے پر لے لیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تبدیلی بس آنے کو ہے اور فلسطینی قوم، جس نے "عکا" میں نپولیئن کے محاصرے کو توڑا تھا اور ایسی بھرپور مزاحمت کی، جو فرانس کی شہنشاہیت کے زوال کا سبب بنی، اس اسرائیلی و امریکی سازش "صدی کی ڈیل" کو بھی بالآخر ناکام کرکے چھوڑے گی۔ اب فلسطینیوں نے "اوسلو" معاہدے اور "عربی امن منصوبے" سے نکلنے کا کام شروع کر دیا ہے اور بہت جلد ہی وہ اپنی دوسری برادر عرب اقوام کی حمایت کے ساتھ اپنی تمامتر قوتوں کو جمع کرکے میدان میں حاضر ہوں گے۔

عبدالباری عطوان نے اپنے اداریے کے آخر میں اسرائیلی امریکی کانفرنس میں شرکت کرنے والے عرب ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ بڑے شوق سے منامہ کانفرنس میں شرکت کیجئے اور "ٹرمپ" اور "کشنر" کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر (مسلمانوں کی لوٹی دولت کے) سینکڑوں بلین (ڈالرز) ان کے قدموں پر نچھاور کر دیجئے، جیسا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے "وارسا کانفرنس" میں شریک ہو کر کرچکے ہو، لیکن جان لو کہ تمہاری واپسی انتہائی ذلت و خواری کے عالم میں ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 799342
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش