2
3
Saturday 25 Mar 2023 07:30

23 مارچ۔۔۔ لے سانس بھی آہستہ

23 مارچ۔۔۔ لے سانس بھی آہستہ
تحریر: نذر حافی

23 مارچ کا دن آیا اور گزر بھی گیا۔ یہ دن ہمیں بہت کچھ یاد دلاتا ہے۔ خصوصاً 1936/1937ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو ہونے والی بدترین شکست کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ اسی شکست کے اثرات سے نکلنے کیلئے ہی تو  23 مارچ 1940ء کو قراردادِ لاہور تیار کی گئی تھی۔ قرارداد لاہور کی تیاری اور منظوری کے درمیانی وقفے کو کون بھول سکتا ہے۔ یونینسٹ پارٹی کے سربراہ مسٹر سکندر حیات کے بقول اُن کا مرتّب کرایا ہوا مسوّدہ اُس مسوّدے سے بہت مختلف تھا، جو شیرِ بنگال مولوی فضل حق نے مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور کرایا تھا۔ دراصل یونینسٹ پارٹی ایک مرکزی حکومت کے تحت ہندوستان کو سات انتظامی علاقوں میں تقسیم کرانے کی خواہاں تھی، جبکہ مسلم لیگ مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کی متلاشی۔ سوچ کا یہ فرق بالآخر نظریاتی مخالفت پر منتہج ہوا۔

یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ  اس  قرارداد کو پیش کرنے کا  ماحول بھی پریشان کُن تھا۔ مسلم لیگ کو علامہ مشرقی اور اُن کی خاکسار تحریک کی طرف سے آڑے آنے کی  پریشانی تھی۔ خدا خدا کرکے 23 مارچ 1940ء کو یہ قرارداد تو منظور ہوگئی، تاہم علامہ مشرقی کی مسلم لیگ کے ساتھ نظریاتی جنگ ختم نہ ہوئی۔ بعدازاں علامہ مشرقی کے ایک جیالے "رفیق صابر" نے  قائداعظم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا۔ 23 مارچ کا دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ قاتلانہ حملے میں قائداعظم زخمی تو ہوئے، البتہ زندہ بچ گئے۔ اب حملہ آور کو فوری طور پر حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان نے اُسے کامریڈ کا لقب دے کر اُس کی ہمت بندھائی۔ جی ہاں!اس مائنڈ سیٹ کو سمجھئے۔ یہ مطالعہ پاکستان والے مولانا ظفر علی خان ہی ہیں۔

یہی مولانا ظفر علی خان ہی تو ہمارے مطالعہ پاکستان کی رو سے مسلم لیگ کے بانی اراکین میں شامل ہیں اور قیامِ پاکستان کیلئے کامریڈ اور زمیندار کے نام سے دو اخبار بھی نکالتے تھے۔ مطالعہ پاکستان والے آپ کو یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ علامہ اقبال کے خلاف کفر کا فتویٰ بھی انہی مولانا ظفر علی خان کے ہی زمیندار اخبار کے پہلے صفحے پر  شائع ہوا تھا۔ 23 مارچ کا دن ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ مولانا ظفر علی خان اور ان کے ہم فکر افراد کو اچھی طرح سمجھا جائے۔ انہیں سمجھنے کیلئے ہمیں تحریکِ خلافت کو سمجھنا پڑے گا۔ تحریکِ خلافت یعنی مسلم لیگ کے وژن کی سو فی صد نفی۔ 5 جولائی 1919ء کو خلافت کمیٹی بنائی گئی۔ خلافت کمیٹی سیدھی جا کر مسٹر گاندھی کے پرچم تلے بیٹھ گئی۔ یہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریئے کے خلاف ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ خلافت کمیٹی نے مسٹر گاندھی کو خوش کرنے کے لئے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ہندوں کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے اس سال عیدِ قربان کے موقع پر مسلمان گائے کی قربانی نہ کریں۔

یہ لوگ مسلم لیگ کے خلاف اس وقت تک لڑتے رہے، جب تک آلِ سعود نے ترکی سے علیحدگی کا اعلان نہیں کر دیا اور اتا ترک نے جمہوریت کا بگل نہیں بجا دیا۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی خلافت کمیٹی نے مسلم لیگ کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ انہی اکابرینِ ملت اور سلفِ صالحین کی طرف سے مسٹر گاندھی کی ایما پر تحریک عدم موالات بھی چلائی گئی۔ عدمِ موالات یعنی حکومت کے خطابات واپس کر دیئے جائیں، کونسلوں کی رکنیت سے استعفٰی دے دیا جائے، سرکاری ملازمتوں سے علیحدگی اختیار کر لی جائے، تعلیمی ادارے سرکاری امداد لینا بند کر دیں، مقدمات سرکاری عدالتوں کے بجائے ثالثی عدالتوں میں پیش کئے جائیں اور انگریزی مصنوعات و مال کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر مسلمانوں کو ہندوستان سے ہجرت کرنے کا فتویٰ بھی جاری  کیا گیا۔ خلافت کمیٹی نے مسٹر گاندھی سے تو کچھ حاصل نہیں کیا، البتہ مسلمانوں کا بھاری نقصان ہوا۔

23 مارچ کا دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ 1940ء کو منظور ہونے والی قراردادِ لاہور کو 1941ء میں مسلم لیگ کے آئین میں شامل کیا گیا۔ بعد ازاں 7 اپریل 1946ء کو مسلم لیگ کے مجلسِ عاملہ کے اجلاس میں مزید اصلاحات کرکے یہی قرارداد کیبنٹ مشن کے سامنے پیش کی گئی۔ اب یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ 1940ء میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے اور شیرِ بنگال کہلانے والے شیرِ بنگال فضل حق کو 1946ء  سے پہلے ہی مسلم لیگ سے نکال دیا گیا تھا۔ 23 مارچ کا دن ہمیں شیرِ بنگال کی بھی یاد دلاتا ہے۔ یہ بھی بڑی معرکۃ الآراء شخصیت گزری ہیں۔ آپ کی سیاسی طاقت کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ 1918ء میں جواہر لال نہرو آپ کے پولیٹیکل سیکرٹری تھے۔ آپ کا نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ مسلم لیگ میں رہ کر مسلم لیگ سے بیر رکھتے تھے۔ 1936ء میں آپ نے مسلم لیگ سے اعلانیہ علیحدگی اختیار کی۔ اس کے بعد 1937ء میں آپ نے کرشک پرجا پارٹی کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی اور انتخابات میں مسلم لیگ کو شکست دینے میں کانگرس کے اتحادی تھے۔ چنانچہ کانگرس کے بعد سب سے زیادہ نشستیں بھی آپ کی پارٹی نے حاصل کیں۔

بنگالی مسلمانوں کے دباو نے ایک مرتبہ پھر مولوی فضل حق کو دوبارہ مسلم لیگ کے قریب آنے پر مجبور کیا۔ یوں وہ مسلم لیگ اور قائداعظم کے حلیف بھی رہے اور حریف بھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی آپ اسی ڈگر پر قائم رہے۔ 23 مارچ کا دن جہاں ہمیں بہت کچھ یاد دلاتا ہے، وہاں ہمیں ہوشیار اور خبردار بھی کرتا ہے کہ مبادا کل کو ہمیں ہر جگہ قائداعظم اور علامہ اقبال کی اصلی تصویر ڈیڑھ بالشت کی نورانی داڑھی کے ہمراہ نظر آئے۔ قارئین محترم! اگر قائداعظم کے خاندان، عزیز و اقارب، نکاح نامے اور دیگر دستاویزات کے ہوتے ہوئے قائداعظم کو دیوبندی، حنفی اور اہل حدیث ثابت کیا جا سکتا ہے تو پھر کسی بھی لمحے قائداعظم اور علامہ اقبال کو نورانی داڑھی سے مزیّن بھی کیا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1048568
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید نقوی
United Kingdom
انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا۔ اچھی معلومات فراہم کی گئیں۔ سلیقہ کے ساتھ مخالف سے پیش آئے آپ۔ یہی طریقہ کار ہونا چاہیئے حقائق پر روشنی ڈالنے کا-
Pakistan
بہت اچھی معلومات ہیں، اللہ تعالیٰ آپکی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔
ہماری پیشکش