1
Tuesday 28 Mar 2023 19:43

صیہونی رژیم کی چیخیں

صیہونی رژیم کی چیخیں
تحریر: ڈی اے نقوی

اسرائیل میں مظاہرے جاری ہیں۔ تل ابیب اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے شدید ہنگاموں کی خبریں آرہی ہیں۔ اسرائیل میں شدید سیاسی کشیدگی اور تناو کا عروج ہے۔ کشیدگی کی تازہ لہر کی وجہ وہ بل بنا جو 3 جنوری کو نتین یاہو نے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لئے پیش کیا تھا۔ اس بل کے بعد تو جیسے آتش فشاں کا لاوا پھٹ گیا ہو۔ ایسے لگا کہ صیہونی اپوزیشن جماعتیں اس انتظار میں تھیں کہ نئی نویلی حکومت کوئی غلطی کرے، سو انہوں نے کر دی۔ یہ احتجاجات اسرائیلی حکومت کی سیاست پر گہرے نقوش مرتب کر رہے ہیں۔ اس سیاسی بے ثباتی کے دوران نتین یاہو نے چند غیر ملکی دورے بھی کئے۔ جن میں حال ہی میں انجام پانے والا دورہ جرمنی اور دورہ برطانیہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ہر جگہ ہمیشہ کی طرح صیہونی وزیراعظم نے ایران دشمنی کا راگ الاپا، مگر نتیجہ بے سود۔ الٹا جرمنی نے تو دبے لفظوں میں اسرائیل پر خطرے کے بادل منڈلانے کا ذکر کیا اور مظاہرین کو رام کرنے کے لئے دوستانہ نصیحتیں بھی کیں۔
 
تاہم اس سارے منظر نامے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اپنے عوام کی توجہ ہٹانے اور عالمی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے ایران کا بھرپور ذکر کرتا رہا، لیکن اسے کہیں پذیرائی نہیں ملی۔ حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بنیامین نتین یاہو صیہونی سیاسی منظر نامے میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔ کیونکہ اگر وہ سپریم کورٹ کو قابو کرنے کے منصوبے سے پیچھے ہٹتا ہے تو اسے عدالتی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر اس منصوبے کو عملی جامہ پہناتا ہے تو حکومت جانے کا بھی شدید خطرہ ہے۔ گذشتہ شب خبر آئی کہ اسرائیلی وزیراعظم نے عدالتی اصلاحاتی بل کی منظوری کو ملتوی کر دیا ہے۔ نیز دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کا خواہاں بھی ہے۔ لیکن عوام اور کوئی بھی اپوزیشن لیڈر اس کی بات کا اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ بل نتین یاہو کی سیاسی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ ابھی تک کے حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ خود اپوزیشن پارٹیاں بھی مذاکرات کے موڈ میں نہیں اور وہ حکومت گرانے کے در پے ہیں۔
 
ان پارٹیوں کا موقف ہے کہ موجودہ حکومت اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے کے لئے صیہونی حکومت نے کئی اقدامات انجام دیئے۔ جن میں ناجائز بستیوں کی تعمیر کا نوٹی فکیشن جاری کرنا اور نہتے فلسطینیوں پر حملے کرنا شامل ہے۔ یہاں بھی اس حکومت کو پسپائی کا سامنا ہوا۔ کیونکہ اب علاقائی صورتحال پہلے جیسی نہیں رہی۔ کل کے دوست آج بات کرنے کو تیار نہیں۔ تہران اور ریاض کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کی صورتحال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ وہ ممالک جو کبھی اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے خواہاں تھے۔ اب انہیں اس موضوع سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی۔ ناجائز صیہونی کالونیوں کی تعمیر پر عرب دنیا نے کھل کر مخالفت کی ہے اور اپنی اسرائیل مخالف رائے کا اظہار کیا ہے۔ سعودی عرب، یمن، بحرین اور یو اے ای نے بھی ایسے اقدام کی مذمت کی ہے۔ حالانکہ پہلے یہ بار سنگین صرف ایران کے کندھوں پر تھا۔
 
حتیٰ دیرینہ دوست امریکہ بھی اسرائیل کے اس امر پر نالاں ہے۔ بہرحال ہمیں ایران کے عرب دنیا سے بڑھتے تعلقات پر ایک دم سب اچھا کی امید تو نہیں رکھنی چاہیئے، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان تعلقات کی بحالی کے کافی اثرات مرتب ہوں گے، جو آئندہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کی تنہائی کا سبب بنیں گے۔ اسرائیل کا حالیہ بحران اگر تھم بھی جائے، تب بھی ایک نیا شدید سیاسی طوفان آنے والا ہے۔ جو اس حکومت کے خاتمے پر منتج ہوگا۔ اب اگر علاقائی اور اسرائیل کی اس صورتحال کو ذہن میں رکھیں تو یہ لگتا ہے کہ موجودہ صیہونی رژیم کے آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے، جس میں اسے گرنا ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1049234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش