0
Wednesday 31 Jan 2024 23:18

گلگت بلتستان میں اسلامی تحریک پر تنقید اور کچھ سوالات

گلگت بلتستان میں اسلامی تحریک پر تنقید اور کچھ سوالات
تحریر: لیاقت علی انجم

یوں تو گلگت بلتستان میں گندم کی قیمت میں اضافے کیخلاف احتجاجی تحریک کا بنیادی کردار بلتستان کا رہا ہے، جہاں کے لوگوں نے مسلسل 35 روز تک سکردو یادگار شہداء چوک پر دھرنا دے کر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، وہیں فیصلہ کن کردار نگر کے عوام نے بھی ادا کیا، جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں تاریخی لانگ مارچ کیا۔ اسلامی تحریک کے رہنماء شیخ میرزا علی کی قیادت میں نگر سے گلگت کی طرف ہونیوالا لانگ مارچ اس تحریک کا ٹرننگ پوائنٹ تھا، اسی لانگ مارچ کے بعد ہنزہ اور دیامر سے بھی مارچ شروع ہوا اور پھر حکومت کی کانپیں ٹانگنے لگیں۔ لیکن نگر کا یہ لانگ مارچ گلگت پہنچنے سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا، جس پر کئی حلقوں کی جانب سے سوالات اٹھائے گئے۔

ساتھ ہی تنقید کے توپوں کا رخ اس وقت زیادہ زور پکڑنے لگا، جب اسی روز ہی حکومت نے اسلامی تحریک کے رہنماء محمد علی قائد کو بورڈ آف انویسٹمنٹ کا چیئرمین تعینات کر دیا۔ سوال اٹھانے والے اس اہم تعیناتی کو لانگ مارچ سے جوڑ رہے ہیں اور اسے مبینہ سودے بازی قرار دے رہے ہیں۔ کسی بھی تحریک کے دوران اس قسم کی اہم تعیناتی پر سوال اٹھانا ایک فطری امر ہے۔ تاہم کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے تحریک کے مقاصد کو دیکھنا ضروری ہے کہ آیا اس قسم کی نوازشوں کے بعد تحریک کا ہدف حاصل ہوا بھی ہے یا نہیں۔؟ اسلامی تحریک کے سینیئر رہنماء شیخ میرزا علی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا گندم کی قیمت تھا اور ہمارے لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت نے گندم کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا اور پرانی قیمتیں بحال ہوگئیں۔ جب ہمارا مطالبہ منظور ہوا تو پھر احتجاج یا لانگ مارچ کو مزید جاری رکھنے کا جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ سکردو کا دھرنا بھی اسی وجہ سے ختم کیا گیا۔ 
 
دوسری جانب اسلامی تحریک جی بی کی جانب سے ایک وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ محمد علی قائد کی تعیناتی 22 جنوری کو ہوئی تھی جبکہ ہمارا لانگ مارچ 29 جنوری تک جاری رہا۔ شیخ میرزا علی گلگت بلتستان کے حقوق کیلئے ہمیشہ متحرک رہے ہیں۔ آئینی صوبے کے حوالے سے ان کی سرپرستی میں تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں آئینی حقوق کے حوالے سے کانفرنس، اے پی سی اور بے شمار پروگرامز بھی کیے۔ ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا، لیکن سوالوں کا مدلل جواب دینا اور عوام کو مطمئن کرنا ان کی ذمہ داری یے۔

سوال اٹھانے والوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک قسم وہ لوگ ہے، جو گرم بستروں میں آرام کرتے ہوئے ہر چیز میں نقطے نکالنا ان کا شیوہ ہے، جن کے ہاتھ میں اب سوشل میڈیا کا ہتھیار ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ارسطو بنے پھرتے ہیں، میدان عمل کی سختیوں کا انہیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان میں صلاحیت ہوتی ہے۔ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ سکردو یادگار پر 35 دنوں تک جاری رہنے والے دھرنے کے مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور قائدین نے کوئی ڈنڈی ماری تو پھر بسم اللہ آپ خود آجائیں، تحریک دوبارہ شروع کریں، قیادت سنبھالیں، کیونکہ یادگار چوک اور نگر کی شاہراہ اس وقت آپ کیلئے بالکل خالی ہے۔ قسم سے اس قسم کے لوگ پینتیس دن کیا پانچ دن بھی سڑکوں پر نہیں بیٹھ سکتے اور پچاس بندے بھی ساتھ نہیں ہونگے تو اس قسم کے لوگوں کو اہمیت نہ دینا ہی بہتر ہے۔
 
سوال اٹھانے والے دوسری کیٹیگری کے لوگ ملت کے ہمدرد لوگ ہوتے ہیں، جن کو لگتا کہ کہ کہیں کچھ بھول ہوئی ہے اور جس کی وجہ سے پارٹی اور قوم دونوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس قسم کے لوگ اگر سوال کریں تو ان کو مطمئن کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ سوال کریں کہ جس شان و شوکت کیساتھ قافلہ روانہ ہوا تھا، جس کی پورے خطے میں دھوم تھی، یہ قافلہ ابھی منزل تک نہیں پہنچا تھا، چلیں حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کر بھی دیا، لیکن حکومت سے مزید اس قسم کے اقدامات سے باز رہنے کی گارنٹی لیے بغیر، حکومت سے کوئی معاہدہ کیے بغیر راستے سے ہی لانگ مارچ کو ختم کرنے کی لاجک کیا تھی۔؟ اگر یہ لوگ سوال کریں کہ اس قسم کے حساس موقع پر اہم تعیناتی، جس کے ساتھ ہی تحریک کا اچانک اختتام کیا معنی رکھتا ہے؟ تو جناب عالی ایسے سوالوں کے جواب ٹھنڈے دماغ سے دلیل کے ساتھ دے کر سوال کنندہ کو مطمئن کرنے میں ہی تحریک کی بقا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1112988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش