2
Thursday 1 Feb 2024 01:07

آسمان میں واشنگٹن کا زوال

آسمان میں واشنگٹن کا زوال
تحریر: سید مہدی طالبی
 
 امریکہ نے زیادہ بڑی تزویراتی پریشانیوں جیسے چین کے ظہور کی جانب آگے بڑھنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ تاہم مشرق وسطی میں اس کی وراثت مار پیٹ کھا کر ہاتھ پاوں مارتے ہوئے بچے کی مانند ہے۔ اس صورت حال نے واشنگٹن کو اپنی سابقہ ​​حکمت عملی فراموش کر کے ایک بار پھر پوری توجہ مشرق وسظی خطے پر مرکوز کر دینے پر مجبور کیا ہے جس کے نتیجے میں اس نے ماضی کی طرح روس اور خاص طور پر چین کو ایک نامحدود موقع فراہم کر دیا ہے۔ ایسے میں بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے واشنگٹن کو اس کے اصلی دشمن کی جانب متوجہ کرنے کیلئے اپنے مقالات میں چین کی جانب سے درپیش خطرے اور بیجنگ سے ممکنہ فوجی ٹکراو میں واشنگٹن کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ لیا ہے۔ اسی قسم کا ایک مقالہ نیشنل انٹرسٹ" میں "چین امریکی فضائیہ کو جنگ میں شکست دے سکتا ہے" کے عنوان سے شائع کیا ہے۔
 
اس مقالے میں چین اور امریکہ کی فضائی صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ گذشتہ بیس سالوں سے چین کی ایئر فورس امریکی فضائیہ سے برابری کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ حال ہی میں پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں ان کئی طریقوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن کے ذریعے چین کی فضائیہ کم از کم امریکی فضائیہ کی حقیقی حریف بن چکی ہے۔ مصنف کا خیال ہے کہ ممکن ہے چین کی ایئرفورس کئی پہلووں سے بڑی تعداد میں جنگی طیاروں کے ذریعے تائیوان کے مسئلے پر جنگ میں امریکیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے۔  چین کے جنگی منصوبہ سازوں نے نہ صرف طیاروں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے بلکہ اپنی تکنیکی صلاحیتوں کو بھی بڑھایا ہے۔ چین نے امریکی F-22 Raptor اور F-35 کے خلاف پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں کی ایک سیریز بنائی ہے۔
 
اگرچہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین کے پانچویں نسل کے لڑاکا طیارے امریکی جنگی طیاروں کی حد تک اچھے نہیں ہیں، لیکن چین کو اس بات کی ضرورت نہیں جو کچھ بھی بنائے وہ بے عیب و نقص ہو۔ ان کا صرف کافی حد تک اچھا ہونا ضروری ہے، جو وہ ہیں۔ پرانی ماوئیسٹ ڈاکٹرائن کہتی ہے "مقدار کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے"، جسے یہاں بہت اچھے طریقے سے اس قدیمی اصول سے ملایا گیا ہے کہ "جغرافیہ تقدیر ہے"۔ چین کے تمام اہداف جیسے شمالی ہندوستان، جنوبی یا مشرقی چین کے سمندر یا تائیوان، سب چینی ساحل کے قریب واقع ہیں۔ دوسری طرف امریکی فوج ہے جسے اپنی فورسز اصلی سرزمین سے بہت دور تعینات کرنے کی ضرورت ہے اور وہ چین سے تنازعہ والے علاقے تک اپنی فورسز پہنچانے کیلئے علاقائی اتحادیوں کا محتاج ہے۔
 
یہ حقیقت کہ چینی طیارے امریکی طیاروں جتنے پیچیدہ نہیں ہیں، چین کے حق میں ہے۔ وہ اپنے جنگی طیاروں کو امریکہ کی جانب سے اپنے طیاروں کو تعینات، مرمت اور تبدیل کرنے سے کہیں زیادہ کم وقت، تیزرفتاری اور آسانی سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پینٹاگون کی جانب سے انجام پانے والے کسی بھی جنگی منظر نامے میں F-22 Raptors کی کم تعداد ہی ممکنہ جنگ میں اس کا پانسہ امریکہ کے حق میں پلٹ سکتی ہے۔ تاہم ان جنگی طیاروں تعداد بہت محدود ہے، اور اگر انہیں بڑی تعداد میں چینی جنگی طیاروں کا سامنا کرنا پڑ جائے تو آخرکار مار گرائے جائیں گے۔ مزید برآں، چین کے اسٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی تعداد امریکہ سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ دوسری طرف امریکہ کے ایف 35 لڑاکا طیارے پرانے ہو چکے ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں۔
 
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ چین نے 2005ء کے شروع میں ٹائٹن رین نامی سائبر آپریشن کے ذریعے اس جنگی طیارے کے تفصیلی نقشے چرا لئے تھے۔ ان کے پاس اس لڑاکا طیارے کی ریورس انجینئرنگ کرنے نیز اس کا مقابلہ کرنے کیلئے مناسب حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے کافی زیادہ وقت تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ ایف 35 لڑاکا طیارے ایف 22 لڑاکا طیاروں کی حد تک آسمان میں دشمن کے جنگی طیاروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ تیسرا یہ کہ ایف 35 جنگی طیاروں کی قیمت زیادہ تر چینی لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جبکہ ان کی دیکھ بھال پر بھی بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ اگر ممکنہ جنگ کے دوران ان جنگی طیاروں کی باڈی کو امریکہ کی محدود صنعتی صلاحیتوں سے زیادہ تیزی سے نقصان پہنچے تو امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں کو اسٹریٹجک دھچکہ پہنچنے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
 
ایک اور اہم مسئلہ امریکہ کی لاجسٹک اور سپلائی کا عدم توازن اور غیر موثر ہونا ہے۔ اس موسم گرما میں امریکہ کی معروف دفاعی ٹھیکیدار کمپنی "ریتھن" کے سربراہ نے امریکی پالیسی سازوں کی چین سے جنگ ​​کے خطرے کے باعث شدید سرزنش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی دفاعی سپلائی کا بڑا حصہ چین کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ کیا امریکہ اور چین کے درمیان جنگ کی صورت میں بیجنگ امریکی فوج کو جنگی سازوسامان تک رسائی کی اجازت دے گا؟ دوسری طرف چین کو یہ مسائل درپیش نہیں ہیں۔ چین نے نہ صرف اپنے معاشرے اور معیشت کو مغربی پابندیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے سخت محنت کی ہے، بلکہ اس نے قریبی طاقتوں خاص طور پر روس سے اپنے تعلقات کو بھی مضبوط بنایا ہے تاکہ مغرب سے کسی بھی ممکنہ ٹکراو کی صورت میں اپنی صنعتی بنیاد محفوظ رہنے کو یقینی بنا سکے۔
خبر کا کوڈ : 1113023
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش