1
Wednesday 13 Mar 2024 11:23

پاکستان کہاں جا رہا ہے؟؟

پاکستان کہاں جا رہا ہے؟؟
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان میں نئی حکومت بن چکی ہے۔ نئے وزیراعظم اور نئے صدر مملکت بھی حلف اُٹھا چکے ہیں۔ وزیراعظم اپنی کابینہ کا بھی اعلان کرچکے ہیں اور نئی کابینہ بھی حلف دے چکی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نئی حکومت نے نئے عزم کیساتھ اپنا سفر شروع کر دیا ہے۔ ملک شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ سیاسی بحران بھی سر اُٹھائے کھڑا تھا، مگر اسے ’’حکمت والوں‘‘ نے اپنی حکمت عملی سے قابو کر لیا ہے۔ اس وقت ایک مخلوط حکومت قائم کر دی گئی ہے۔ میاں نواز شریف مخلوط حکومت کے حق میں نہیں تھے، ان کا موقف تھا کہ ’’قوم‘‘ کسی ایک جماعت کو پورے کا پورا مینڈیٹ دے، تاکہ وہ جماعت اپنے منشور کے مطابق سیاسی سفر جاری رکھ سکے۔ مگر قوم نے میاں صاحب کیساتھ ’’ہاتھ‘‘ کر دیا اور یوں مسلم لیگ نون بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام کر رہی۔ نہ صرف مسلم لیگ نون بلکہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے مطابق میاں نواز شریف خود اپنی سیٹ ہار گئے۔

اسی طرح تحریک انصاف کے رہنماء الزام عائد کرتے ہیں کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی اپنی سیٹ نہیں جیت سکے، انہیں دھاندلی سے جتوا دیا گیا۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کے بڑے بڑے بُرج اُلٹ گئے۔ فیصل آباد سے رانا ثناء اللہ کو بھاری مارجن کیساتھ شکست ہوئی۔ اسی طرح لاہور میں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ہارے ہوئے امیدواروں کو فارم 47 میں جیتا ہوا ظاہر کر دیا گیا۔ بہرحال، زمینی حقائق جو بھی ہوں، اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت اقتدار میں آچکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے صدارت کا منصب لیتے ہوئے کابینہ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا۔ آصف علی زرداری دُور اندیش سیاستدان ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وفاقی کابینہ کا انجام کیا ہونا ہے، شائد اسی لئے انہوں نے اس غلاظت سے دامن داغدار کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ ان کی بہتری حکمت عملی کا مظاہرہ ہے۔

وفاق میں 19 رکنی کابینہ میں تین غیر منتخب وزراء بھی شامل ہیں۔ جن میں وزیر خزانہ کے منصب پر محمد اورنگزیب کو فائز کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کو بنایا گیا ہے، جبکہ معاشی امور کی وزارت احد چیمہ کو دی گئی ہے۔ محمد اورنگزیب پاکستانی شہری تھے، اس کے بعد وہ ہالینڈ منتقل ہوگئے اور انہوں نے پاکستانی شہریت ختم کر دی۔ لیکن اب انہیں وزارت دینے کے بعد ان کی پاکستانی شہریت بھی بحال کر دی گئی ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کیساتھ کتنے مخلص ہوں گے۔ البتہ حکومتی حلقے اس بات پر بغلیں بجا رہے ہیں کہ محمد اورنگزیب کے عالمی مالیاتی اداروں کیساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ پاکستان کو قرض دلوانے میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان پر مزید معاشی بوجھ بڑھانے میں محمد اورنگزیب کو بڑا ہدف دیا گیا ہے۔ (خدا پاکستان اور پاکستانی عوام کی خیر کرے)۔

دوسرے غیر منتخب وزیر محسن نقوی ہیں۔ بنیادی تعلق جھنگ سے ہے، بچپن سے ہی لاہور میں منتقل ہوگئے تھے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ چلے گئے۔ صحافت کی ڈگری امریکہ سے حاصل کی۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے وابستہ رہے۔ بعدازاں پاکستان میں اپنا نیوز نیٹ ورک ’’سٹی میڈیا گروپ‘‘ کے نام سے چلا رہے ہیں۔ یہ میڈیا گروپ ایک اخبار اور چھ نیوز چینلز چلا رہا ہے۔ محسن نقوی اس ادارے کے سی ای او ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب بننے پر وقتی طور پر انہوں نے اس میڈیا گروپ کی سی ای او شپ سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ محسن نقوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں پاکستان تحریک انصاف کا ناطقہ بند کئے رکھا اور اب انہیں وزیر داخلہ بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کو سیاسی منظرنامے سے مکمل مائنس کر دیں۔

تیسرے غیر منتخب وزیر احد چیمہ ہیں۔ یہ شہباز شریف کے پرانے پارٹنر ہیں۔ ڈی جی ایل ڈی اے رہ چکے ہیں اور تب سے ان کی شہباز شریف کیساتھ دوستی ہوگئی۔ بدعنوانی کے کیسز میں جیل میں بھی رہ چکے ہیں۔ مگر استغاثہ ان پر الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا اور احد چیمہ باعزت بری ہوگئے۔ اب شہباز شریف نے انہیں ایک بار پھر اپنی ٹیم میں شامل کر لیا ہے۔ محمد اورنگزیب اور محسن نقوی کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے نام ’’اوپر‘‘ سے آئے ہیں، جس پر شہباز شریف نے ایک نام (احد چیمہ) اپنی طرف سے شامل کرکے تین وزراء غیر منتخب اپنی کابینہ میں شامل کر لیے ہیں۔ قانون بھی اس کی اجازت دیتا ہے۔ آئین پاکستان کی شق 91 کی ذیلی کلاز 9 کے تحت وزیراعظم پاکستان کے پاس اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی غیر منتخب شخصیت کو بھی چھ ماہ تک وفاقی وزیر کا عہدہ دے سکتے ہیں۔ تاہم چھ ماہ کے بعد اگر کسی شخصیت کو وفاقی وزیر کا عہدہ دینا ہے تو اُس کیلئے منتخب نمائندہ ہونا ضروری ہے۔

ماضی میں بھی وزیراعظم اس اختیار کا استعمال کرچکے ہیں۔ اب شہباز شریف وہی تاریخ دوہرا رہے ہیں۔ محسن نقوی نے آتے ہی پہلا حکم یہ دیا ہے کہ عمران خان کی ملاقات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے ملک میں جو تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں، ان میں تعطل آجائے گا۔ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کا بچا کھچا سیٹ اپ صرف عمران خان کی ہدایات پر ہی چل رہا تھا۔ اب کچھ دنوں کیلئے یہ معاملہ رک جائے گا۔ ادھر عمران خان کی ہمشیرہ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہیں پیشکش کی جا رہی ہے کہ وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں، عمران خان کو رہا کر دیا جائے گا۔ علیمہ خان کا دعویٰ ہے کہ ڈیل کیلئے ہمیں رضا مند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر عمران خان جھکنے والا نہیں۔ وہ ڈٹا رہے گا، وہ جان دے دے گا لیکن سر نہیں جھکائے گا۔ مطلب ڈیل کی کوششیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ہو رہی ہیں، عمران خان کی طرف سے نہیں۔

عمران خان نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ وہ ڈیل نہیں کرے گا، البتہ بات چیت کرنے کا آپشن انہوں نے کھلا رکھا ہے، ڈیل میں ناکامی پر میڈیا میں یہ خبریں چلوا دی جاتی ہیں کہ عمران خان ہمارے ساتھ بات جیت کرنا چاہتا ہے، لیکن بات چیت اور سرنڈر کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ اب ایک عرب صحافی نے خبر دی ہے کہ عمران خان کی رجیم چینج میں سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان کا بھی کردار ہے۔ محمد بن سلمان دیکھ رہے تھے کہ عمران خان تیزی سے امت مسلمہ کا لیڈر بن رہا ہے، اقوام متحدہ میں عمران خان کی تقریر نے ان کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ پوری امت مسلمہ عمران خان کی طرف دیکھنے لگ گئی تھی۔ جو محمد بن سلمان کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے بھی گرتی ہوئی دیوار کو دھکا مار دیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ 15 رمضان کے بعد ملک میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آنیوالی ہے۔ اس سے عام آدمی بُری طرح متاثر ہوگا۔ حکومت کیلئے مشکل وقت عید کے بعد ہی شروع ہو جائے گا۔ وزراء کی موجودہ ٹیم کو یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ عوام کو قابو میں رکھنا ہے، اس کیلئے مسلم لیگ نون نے اضلاع کی سطح پر کمیٹیاں بنا دی ہیں، جن میں موجودہ ایم پی اے اور سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی خدمات لی گئی ہیں۔ ادھر کے پی کے کے حالات بھی یکسر خطرناک مرحلے میں داخل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے وفاق سے اپنے حصے کے فنڈز فوری دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وفاق کی جیب میں ابھی اتنے پیسے ہیں نہیں، لیکن ’’بچہ‘‘ بضد ہے کہ اسے ’’پاکٹ منی‘‘ ہر صورت میں چاہیئے، جہاں سے مرضی لائیں۔ اس صورتحال میں محاذ آرائی کا مرحلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور کو عمران خان کیساتھ ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔

واقفان حال کہتے ہیں کہ اس ملاقات کے بعد حالات بہت زیادہ خراب ہو جانے کا احتمال تھا، عمران خان نے علی امین گنڈا پور کو جو ہدایات دینی تھیں، وہ خطرناک تھیں، اس لئے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ یہ بھی خبریں تھیں اور تحریک انصاف کی قیادت بھی دعویٰ کر رہی تھی کہ عمران خان کو جیل میں مار دیا جائے گا۔ اس حوالے سے ’’خبر‘‘ ہے کہ موجودہ نئے حکمرانوں کو ڈرانے کیلئے عمران خان کو زندہ رکھا جائے گا۔ اوپر والوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان حکمرانوں کو بھی تو قابو کرنا ہے، اور اس کام کیلئے بہترین ہتھیار عمران خان ہے۔

غیر مصدقہ اطلاع ہے کہ عمران خان کو مارا نہیں جائے گا بلکہ انہیں ادویات دے کر ذہنی طور پر مفلوج کر دیا جائے گا۔ تاکہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو اور پارٹی قیادت کو کوئی ہدایات یا لائحہ عمل بھی نہ دے سکے۔ خدا کرے یہ اطلاع غلط ثابت ہو، مگر ملک کے حالات اچھے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ کے پی کے کیساتھ جو سلوک وفاق کی جانب سے ہونے جا رہا ہے، اس میں وہاں بغاوت بھی پھوٹ سکتی ہے۔ اس کیلئے پاکستان کی محافظ قوتوں کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی، کیونکہ اب پاکستان دوسری بار سقوطِ ڈھاکہ کی طرح سقوط پشاور کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اللہ پاکستان قائم رہے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1122244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش