1
Thursday 4 Apr 2024 04:10

دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملہ، اہداف اور نتائج

دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملہ، اہداف اور نتائج
تحریر: محمد عسکری
 
یکم اپریل 2024ء بروز سوموار اسرائیلی فضائیہ کے ایف 35 لڑاکا طیاروں نے مقبوضہ گولان کے آسمان میں داخل ہو کر چھ گائیڈڈ میزائلوں سے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت اور ایرانی سفیر کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں شہید ہونے والے افراد میں جنرل محمد زاہدی کا نام بھی شامل ہے، جو سپاہ پاسداران ایران کی قدس فورس کے اہم کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ اسی طرح ان کے نائب، جنرل  محمد ہادی رحیمی، شام اور لبنان میں سپاہ پاسداران انقلاب کے چیف آف اسٹاف، اور جنرل حسین امیر اللہ نیز شام میں موجود متعدد ایرانی فوجی مشیر بھی اس واقعے میں شہید ہو گئے ہیں۔ اس تجزیاتی رپورٹ میں ہم شام میں غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں ایرانی فوجی کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ کا مختصر جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ اس دہشت گردانہ کارروائی نیز ایرانی سرزمین پر واضح جارحیت کے مقاصد اور نتائج کا جائزہ لیں گے۔
 
اسلامی مزاحمت کے خلاف صیہونی ڈیتھ اسکواڈ
شام میں داعش اور تکفیری دہشت گردوں کا فتنہ ختم ہو جانے کے بعد، صیہونی فوج نے "ہزار خنجر" نامی حکمت عملی کے تحت مزاحمتی فورسز کی رہائش گاہوں، گوداموں، ہوائی اڈوں، فورسز اور ایرانی فوجی مشیروں پر حملے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا۔ تل ابیب نے اس حکمت عملی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایک طویل المدتی منصوبے کے تحت اور مرحلہ با مرحلہ، اسلامی مزاحمتی فورسز کے مفادات کے خلاف حملوں کا دائرہ بڑھانا شروع کر دیا۔ طوفان الاقصی آپریشن اور صیہونی رژیم کے خلاف اسلامی مزاحمتی بلاک کے متحدہ اور ٹارگٹڈ حملوں کے بعد شام اور لبنان میں صیہونی ڈیتھ اسکواڈ کی سرگرمیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔  مثال کے طور پر، 25 دسمبر 2023ء کے دن دمشق میں ایرانی سفارتکار اور ایرانی سفارتخانے کے مشیر سید رضی موسوی کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ شہید سید رضی موسوی کا شمار شام میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے تجربہ کار فوجی مشیروں اور شام اور لبنان میں اسلامی مزاحمت کے لاجسٹک شعبے کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔
 
شام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر حسین اکبری کے مطابق صیہونی فوج نے تین میزائلوں سے ان کی رہائشگاہ کو نشانہ بنایا۔  حالیہ چند مہینوں میں غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ایرانی کمانڈر شہید جنرل صادق امید زادہ اور ان کے نائب شہید حاج محرم تھے۔ شہید صادق امید زادہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی قدس فورس کے نائب انٹیلی جنس کمانڈر تھے۔ اس دہشت گردانہ حملے میں صیہونی جنگی طیاروں نے ایک تین منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا جہاں ایرانی سیکورٹی فورسز رہائش پذیر تھیں۔ اس سے پہلے بھی اسرائیل کی دہشت گرد مشینری اعلی سطحی ایرانی مشیروں جیسے شہید مرتضیٰ سعید نژاد، شہید احسان کربلائی پور، شہید محمد علی عطائی شورچے، شہید پناہ تقی زادہ اور شہید حجت اللہ امیدوار کو نشانہ بنا چکی تھی لیکن مذکورہ یہ تمام دہشت گردانہ اقدامات اسلامی مزاحمتی بلاک کو مضبوط بنانے کیلئے ایران کے عزم میں کمی نہیں لا سکے۔
 
قدس فورس کے کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کا مقصد کیا ہے؟
دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے صرف ایک گھنٹے بعد ہی مختلف ذرائع اس حملے کے دائرہ کار اور اہداف کے متعدد دلائل پیش کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہاگاری اس دہشت گردانہ کارروائی کے چند گھنٹے بعد ہی ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے نمودار ہوا اور اس دہشت گردانہ واقعے کا ذکر کئے بغیر شہر ایلات میں اس صیہونی رژیم کی بحریہ پر عراقی مزاحمت کے ڈرون حملے کا اعلان کرنے لگا۔ بعض تجزیہ کاروں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی  قرارداد منظور ہونے اور غزہ کی پٹی میں نسل کشی روکنے کیلئے صیہونی رژیم سے عالمی برادری کے مطالبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حالیہ حملے کو نیتن یاہو کی جانب سے اسرائیل کی رائے عامہ میں اپنی کامیابی ظاہر کرنے اور غزہ جنگ کو شمالی محاذ تک وسعت دینے کی کوشش قرار دی ہے۔
 
ایسے وقت جب اسرائیل کی قومی ایمرجنسی کابینہ وسیع پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے رفح پر زمینی حملے کو ایک طرح سے حماس کی سیاسی اور عسکری زندگی کے خاتمے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور اسلامک جہاد کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ کا دورہ تہران، اسرائیل کی میڈیا مہم کے باوجود اسلامی مزاحمت کی طاقتور موجودگی کے تسلسل کو ظاہر کرتا ہے۔ مذکورہ بالا حالات کے پیش نظر نیتن یاہو اور کابینہ میں اس کے دائیں بازو کے اتحادیوں کے ووٹ بینک میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسے میں موجودہ اسرائیلی کابینہ مختلف محاذوں پر نت نئی سیاسی اور عسکری مہم جوئی کے ذریعے اقتدار میں باقی رہنے اور آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے امکان کو آزمانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
 
ایرانی سرزمین پر اسرائیلی جارحیت کے نتائج
یکم اپریل 2024ء کے حملے سے پہلے غاصب صیہونی فوج اور انٹیلی جنس ادارے ہمیشہ قدس فورس کے غیر سیاسی ٹھکانوں اور مراکز نیز اسلامی مزاحمت یا شام حکومت سے وابستہ افراد کو نشانہ بنا رہے تھے۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صیہونی حکام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتی مراکز پر حملہ کر کے تہران سے جنگ ​​کی سطح اور میدان کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔  ویانا کنونشن کے مطابق تمام ممالک کے سفارتی مراکز پر حملہ ان کی سرزمین پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ بین الاقوامی قانون کے قطعی اور غیر قابل استثناء امور میں شمار ہوتا ہے، حتی یہ کہ جنگ کی حالت میں بھی تمام ممالک پر مدمقابل ملک کے سفارتی مراکز کا احترام لازمی ہے اور ان پر حملہ کرنا ممنوع اور غیر قانونی ہے۔ اسی وجہ سے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ایک بیان میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ سے اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
 
لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی قسم کی بین الاقوامی قانونی پکڑ کے بغیر اور مکمل طور پر قانونی اور جائز طریقے سے اس فوجی جارحیت کا جواب دینے کا حق حاصل ہے اور ایران کی ممکنہ جوابی کاروائی کے بعد تل ابیب تہران پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا سکتا۔ ایسے حالات میں تجزیہ کاروں کا ابتدائی اندازہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی اسرائیل کے اقدامات کے ردعمل میں جوابی کاروائی کی سطح بڑھا دے گا۔ اس اصول کے تحت تہران اکیلے بھی صیہونی جارحیت کا جواب دینے کا حق اور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ وہ اپنے اتحادیوں سے ہم آہنگی کے ذریعے مناسب وقت اور جگہ پر خطے کے کسی حصے میں بھی اس مجرمانہ اقدام کا جواب دے سکتا ہے۔ اب تک ایران حکومت کے سرکاری عہدیداران کے سامنے آنے والے بیانات کی روشنی میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تہران کا ردعمل یقینی ہے لیکن اس ردعمل کا دائرہ کار بالکل واضح نہیں ہے۔
 
بعض مغربی ذرائع ابلاغ، جیسے فاکس نیوز کا خیال ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں ایران کی جوابی کاروائی کے پورے خطے میں انتہائی سنجیدہ نتائج برآمد ہوں گے۔ اس وقت ایران کی جانب سے دنیا بھر میں اسرائیل کے سفارتی مراکز کو نشانہ بنانے اور اسرائیل کے اعلی فوجی کمانڈرز کو بلیک لسٹ کرنے کا امکان بھی پایا جاتا ہے جبکہ ایران اپنی ہٹ لسٹ میں اسرائیل کے حساس مراکز جیسے بندرگاہیں، ہوائی اڈے، تجارتی مراکز اور فوجی چھاونیوں کی ایک طویل فہرست بھی شامل کر سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے دمشق میں اسلامی مزاحمت کے اعلی سطحی کمانڈرز کی شہادت کا برابر سطح پر اور سخت جواب، برسوں سے جاری اسرائیلی جارحیت اور دیگر ممالک کی علاقائی سالمیت، بین الاقوامی قوانین اور عالمی سلامتی سے بے اعتنائی برتنے کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔
 
نتیجہ
دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتی مراکز پر اسرائیلی جارحیت، اسلامی مزاحمتی بلاک اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان ٹکراو کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی کمانڈرز نے بین الاقوامی قوانین کی پرواہ کئے بغیر "ایرانی سرزمین" پر فوجی جارحیت کا انتخاب کر کے تہران اور تل ابیب کے درمیان جاری جنگ کا ایک نیا باب کھول دیا ہے۔ اگرچہ ایران کے فیصلہ ساز حکام ثابت کر چکے ہیں کہ وہ انتہائی عقلمندی اور صبر سے میدان جنگ کے حالات کا جائزہ لیں گے اور صہیونی حکمرانوں کی اشتعال انگیزی کے جال میں نہیں آئیں گے، لیکن اس اسرائیلی گستاخی کا فوجی طاقت سے جواب دینا بعید از قیاس نہیں لگتا۔ اب صرف انتظار کرنا ہے اور دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران اور اسلامی مزاحمتی بلاک، صیہونی دہشت گردی کا جواب دینے کیلئے کس وقت اور جگہ کا انتخاب کرتے ہیں؟
خبر کا کوڈ : 1126660
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش