0
Friday 17 Aug 2012 13:15

سانحۂ بابو سر

سانحۂ بابو سر
تحریر:طاہر یٰسین طاہر 
  
لاریب اس افسوس ناک واقعہ کی ذمہ دار انتظامیہ ہے۔ جس نے دہشت گردوں کیساتھ نرم رویہ اپنا رکھا ہے۔ پے در پے واقعات اور ان پر انتظامیہ کی جانب سے فقط افسوس اور اظہار مذمت؟ آخر حکومت دہشت گردوں کو کڑی سزا کیوں نہیں دیتی؟ سوات آپریشن سے لیکر کئی دوسرے آپریشنوں کے باوجود دہشت گردوں کی کمر تو نہ توڑی جاسکی البتہ دہشت گردوں نے پاکستانی معاشرے کا ناک نقشہ بری طرح مجروح کردیا ہے۔ ماہ مقدس میں خون کی ہولی کھیلنے والوں کے مقاصد سراسر استعماری ہیں۔ بہت ہی دل گرفتہ ہوں۔ اگر صورت حال یہی رہی اور اسی طرح راولپنڈی سے گلگت بلتستان سفر کرنے والوں کی شناخت پریڈ کر کے انہیں گولیاں ماری جاتی رہیں تو بعید نہیں کہ پورا ملک اس طرح کی خطرناک کارروائیوں کی لپیٹ میں آ جائے۔ اگر سانحۂ کوہستان اور سانحۂ چلاس کے ذمہ داروں کو عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سزا دی جاتی تو آج سانحۂ بابو سر رونما نہ ہوتا۔ 

کیا ایک خاص مسلک یا فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مادرِ وطن کی فضاؤں میں آزادانہ سانس لے سکیں؟ میرا مؤقف بڑا واضح ہے۔ نہ صرف دہشت گردوں بلکہ ان کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھنے والوں کو بھی عبرت ناک سزا۔ یہ بات کشت و خون کے فرزندوں کے حوصلے بڑھاتی ہے جب ان کیلئے پارلیمان کے اندر سے آواز اُٹھ رہی ہو۔ کیا مولانا فضل الرحمن متعدد مرتبہ یہ نہیں کہہ چکے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے حکومت پاکستان کے مذاکرات کرانے کو تیار ہیں؟ مگر اس بنیادی سوال کو کیوں نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گروہ یا تنظیم ریاست کی جانب سے دہشت گرد اور کالعدم قرار دے دی جائے تو اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے جاسکتے، کیونکہ مذاکرات سے مراد ان کی طاقت کو تسلیم کرنا ہے۔ 

ریاست کے اندر ایک انتہا پسندانہ ریاست کی تشکیل کا سفر ہمیں نفرتوں اور وحشتوں کی دلدل میں لے آیا ہے۔ راولپنڈی سے گلگت بلتستان، استور جانے والے مسافروں پر وحشیانہ فائرنگ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی خون کی ہولی کھیلی گئی اور قافلوں کی سکیورٹی پر معمور حفاظتی گارڈز منہ دیکھتے رہ گئے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز بھی ضلع مانسہرہ کے دور دراز علاقے بابو سر روڈ پر ناران کے قریب لولو سر کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے راولپنڈی سے استور جانے والی تین بسوں میں سوار بائیس مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر انہیں گولیاں مار دیں۔ عینی شاہدین کے مطابق تین مسافر گاڑیاں راولپنڈی سے گلگت جارہی تھیں، سحری کے بعد جب گاڑیاں ناران سے روانہ ہوئیں تو لولوسر کے مقام پر کمانڈوز کی وردی میں ملبوس نقاب پوش، مسلح افراد نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے انہیں روک لیا، اور مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد نیچے اتارا اور لائن میں کھڑا کر کے انہیں گولیاں ماردیں۔ ملزمان مقتولین کی جیبوں سے نقدی اور شناختی دستاویزات بھی ساتھ لے گئے۔ 

یہ بےسروسامان مسافر عید منانے اپنے پیاروں کے پاس جارہے تھے کہ راستے میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے۔ یہ بات کتنی افسوس ناک ہے کہ دس سے بارہ حملہ آور، فوجی وردی میں ملبوس ہوں اور مسلمانوں کو شناختی کارڈ چیک کر کے گولیاں ماردیں۔ اطلاعات ہیں کہ چلاس کے مقام پر ایک اور مسافر بس پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہو گئے۔ وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کے حکم پر راولپنڈی سے گلگت بس سروس معطل کر دی گئی تا کہ مزید قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے۔ مگر اس فیصلے کا دوسرا افسوس ناک پہلو یہ بھی تو ہے کہ دہشت گردوں کی طاقت کو تسلیم کر لیا گیا۔ ایک ہی دن میں دو بڑے واقعات، کامرہ ایئر بیس پر حملہ اور مسافر بسوں پر بھی حملہ۔ 

دہشت گردوں کے حامی یہ کہتے ہیں کہ دفاعی اداروں کو خود کش حملہ آوروں کی جانب سے اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ پاکستان وار آن ٹیرر میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ چلاس، کوہستان اور بابو سر میں مسافروں کی شناخت پریڈ کر کے انہیں گولیاں مارنے والوں سے بھلا کوئی یہ تو پوچھے کہ میاں، تم خود کس کے فرنٹ لائن اتحادی ہو؟ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دہشت گردوں کے خلاف ہمارے سارے آپریشن بادی النظر میں ناکام رہے۔ انہیں خاص علاقے سے تو مار بھگا دیا گیا مگر ان کے رسد کے راستوں کو بند نہ کیا جا سکا۔ کراچی سے خیبر تک، دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے شیعہ نسل کشی کا نیا طریقہ اختیار کرلیا۔ کیا حکومت کو اپنے وہ دعوے اور وعدے یاد نہیں کہ اس نے راولپنڈی سے گلگت جانے والی مسافر بسوں کی حفاظت کا بھی کہا تھا؟ یہاں اس بات کو قطعی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ دہشت گردوں کے روابط، راولپنڈی سے گلگت بلتستان چلنے والی بس کمپنیوں کے چند افراد سے بھی ہوں گے۔ 

دہشت گرد گلگت و بلتستان ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ایک بار پھر فرقہ واریت کی انتہائی خطرناک آگ میں دھکیلنے کیلئے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ حکومت یوں ہی ایسے واقعات پر صرف اظہار مذمت کو ہی کافی سمجھتی رہی تو اس ملک کے درودیوار کو خون آلود ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عالمی سطح پر ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر متعارف ہو چکے ہیں۔ ریاست کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے انتہائی مؤثر مگر سخت ترین اقدامات اُٹھائے۔ مستقبل میں اگر اس نوعیت کے واقعات سے بچنا ہے تو حکومت کو سانحہ کوہستان و چلاس سے لے کر سانحہ بابو سر کے دہشت گردوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنا ہو گی۔ مگر حیرت ہے کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے مقتولین کے احتجاج کرتے ورثا ء کو ہی امن و امان کے نام پر گرفتار کرنا شروع کر دیتی ہے۔ جس سے وطن دشمن عناصر کو مزید شہ ملتی ہے اور وہ نئی صف بندی کیساتھ نیا ٹارگٹ حاصل کر لیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 188213
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش