0
Tuesday 19 Jan 2010 15:09

سانحہ کراچی کے پس پردہ کچھ نئے حقائق

سانحہ کراچی کے پس پردہ کچھ نئے حقائق
انسانی زندگي کے بعض پیچیدہ مسائل کو لطیفوں کی صورت میں بیان کر کے حقائق کو واضح کیا جاتا ہے۔پاکستان کی پولیس اور سیکورٹی کی صورتحال کے بارے میں بھی ایک دلچسپ لطیفہ اکثر سنایا جاتا ہے۔کہتے ہیں امریکہ،برطانیہ اور پاکستان کے پولیس افسروں کے درمیان اس بات کا مقابلہ ہو رہا تھا کہ کونسے ملک کی پولیس اور ایجنسیاں سب سے پہلے مجرم کو تلاش کر لیتی ہیں۔امریکہ کی سیکورٹی اداروں نے دعوی کیا کہ ہم اڑتالیس گھنٹے کے اندر جرم کا سراغ لگا دیتے ہیں۔برطانوی ایجنسیوں نے امریکہ اور پاکستان کو حیران کرنے کے لئے کہا کہ ہم بڑے سے بڑے جرم کا چوبیس گھنٹے کے اندر سراغ لگا دیتے ہیں اور اس مختصر وقت میں مجرم تک پہنچ جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ پاکستان کے پولیس افسر نے امریکی اور برطانوی پولیس کے افسروں کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور طنزیہ لہجے میں کہا کہ آپ کی کارکردگی تو ہمارے سامنے کچھ بھی نہیں،ہمیں تو واردات کی خبر چوبیس گھنٹے پہلے پتہ چل جاتی ہے اور ہم مجرم کا چوبیس گھنٹے پہلے سراغ لگا لیتے ہیں۔پاکستانی پولیس کی چوبیس گھنٹے پہلے مطلع ہونے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے اسکو قارئیں پر چھوڑتے ہیں۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں جتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں پاکستان کے سیکورٹی کے ادارے واقعے کے بعد بڑے اعتماد سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو بتا دیا تھا کہ دہشت گرد یا وارداتی اس علاقے میں پہنچ چکے ہیں اسکے علاوہ ان اداروں کی طرف سے بعض دفعہ واردات سے پہلے بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ مبینہ دہشت گرد فلاں علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔پاکستان کے پہلے وزير اعظم لیاقت علی خان کا قتل ہو یا بے نظیر بھٹو کا،آپ سیکورٹی کے اداروں کے بیانات یا داخلی رپورٹیں پڑھ کر دیکھ لیں آپ کو اس سے ملتے جلتے بیانات نظر آئیں گے۔
کراچی میں عاشور کے واقعہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔پولیس کی مصدقہ رپورٹ کے مطابق کراچی پولیس نے محرم سے چند دن پہلے ایک اہم دہشت گرد کو گرفتار کر کے اس سے یہ اگلوا لیا تھا کہ اس کے ساتھی کراچی میں کوئی بڑا واقعہ انجام دینے کے لئے منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔پولیس کے پاس جب اتنی اہم خبر اور انکشاف موجود تھا تو اتنے بڑے واقعہ کا انجام پانا یا تو انتظامیہ کی طے شدہ غفلت ہو سکتی ہے یا سوچا سمجھا منصوبہ۔دھماکہ اگر خودکش ہوتا تب بھی قابل معافی تھا لیکن جلوس کے راستے میں بم کا نصب ہونا سو فیصد سیکورٹی کی ناکامی ہے اور اسکو گرفتار دہشت گرد کے انکشاف سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔اس واقعہ کا ایک اور پہلو جسے دھماکے سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے وہ بولٹن مارکیٹ کا جلاؤ گھیراؤ ہے اگر ایک غیر جانبدار فرد کی حیثیت سے اس پورے سانحہ کا جائزہ لیا جائے تو کچھ ہو شربا حقائق سامنے آتے ہیں۔بولٹن مارکیٹ کے قریب دھماکہ خیز مواد نصب کرنا اور منصوبہ بندی کے ساتھ مارکیٹ کا جلانا دونوں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ایک اہم مگر بعض خبری رپورٹوں کے مطابق سٹی انتظامیہ اور مالکان کے درمیان اس متنازعہ مارکیٹ کے نزدیک بم دھماکہ کرانا کسی گہری سازش کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے؟اس مارکیٹ کی تاریخ،اسکے اندر کی صورتحال،اسکی جگہ پر نئی مارکیٹ کی تعمیر کا پروگرام،جلاؤ گھیراؤ سے پہلے بعض دکانوں کا خالی کرنا،فائر بریگیڈ کا وقت پر نہ پہنچا،ان میں پانی کا نہ ہونا اور اتنی قیمتی مارکیٹ کے اندر داخلی طور پر آگ بجھانے کے وسائل کا نہ ہونا و غیرہ  اس طرح کے اتنے سوالات ہیں جو انسانی ذہن کو سخت تشویش میں مبتلا کر دیتے ہیں واقعات کے بعد مختلف مدارس کے علماء کا اتنی تیزي سے سڑکوں پر آنا اور متاثرہ تاجر برادری کی بحالی کے لئے تحریک چلانا۔نیز رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کا سڑکوں پر نکلنا معمول کی کاروائی سے ہٹ کر نظر آتا ہے۔لاہور میں مون مارکیٹ کو بھی جلایا گيا،جی ایچ کیو پر حملہ ہوا،مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔لیکن علماء اس پھرتی اور شدت سے سڑکوں پر نہیں آئے۔
کراچی کے مذہبی حلقوں سے باخبر بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ تاجر برادری ہی کراچی کے تمام بڑے بڑے مدارس کو سپورٹ کرتی ہے اور بولٹن مارکیٹ کے بعض بڑے تاجر اپنے اپنے ذوق کے مطابق وہابی،بریلوی اور جہادی فکر رکھنے والے مدارس کی مالی امداد کرتے ہیں لہذا ان مالکان نے علماء سے کہا کہ انہوں نے ساری زندگی آپ کے مدارس اور آپ کو بڑی بڑی اور خطیر رقوم دی ہیں لہذا اب وقت ہے کہ علماء حضرات اس پیسے کو حلال کریں۔تاجر برادری نے بھی علماء کے ذریعے اپنا اپنا الّو سیدھا کیا۔فرقہ واریت اور دہشت گردانہ کاروائیوں کی حمایت کرنے والے تاجروں اور علماء نے جلاؤ گھیراؤ کی کاروائیوں کی ضرورت سے زیادہ تشہیر کر کے بم دھماکے اور پنتالیس لاشوں سے لوگوں کی توجہ ہٹائی۔
بولٹن مارکیٹ میں اپنی دکانوں کو آئندہ بھی اسی جگہ پر باقی رکھنے کے خواہشمند تاجروں نے علماء کے ذریعے اس جلاؤ گھیراؤ کی پر زور مخالف کر کے سٹی گورنمنٹ کے اس منصوبے کو ناکام بنا دیا جو یہاں پر نئی مارکیٹ بنانے کی خواہشمند تھی۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ علماء اور تاجر برادری کی " تاجر بچاؤ تحریک" میں بولٹن مارکیٹ کی دوسرے اور اوپر والے طبقوں پر موجود دکانوں کے مالکان نے خصوصی حصّہ لیا ہے کیونکہ اگر مارکیٹ گرا دی جائے اور اسکی جگہ پر نئی مارکیٹ یا پلازہ تعمیر کیا جائے تو گراؤنڈ فلور کے مالکان کے علاوہ کسی کو کچھ نہیں ملے گا اور اوپر والے طبقوں کے ذریعے پگڑی در پگڑی میں لاکھوں کمانے والے تمام دکاندار پل بھر میں ان دکانوں سے محروم ہو جائیں گے۔
بم دھماکے اور پینتالیس لاشوں کو چھوڑ کر صرف جلاؤ گھیراؤ کی مخالفت کرنے والوں کے اور کیا مقاصد ہوسکتے ہیں؟( جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 18903
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش