0
Monday 4 Apr 2016 16:01

شام کے تاریخی شہر پالمیرا کی آزادی کے اسٹریٹجک اثرات

شام کے تاریخی شہر پالمیرا کی آزادی کے اسٹریٹجک اثرات
تحریر: ہادی محمدی

جو چیز ایک جگہ اور جغرافیائی محل وقوع پر فوجی اقدام کو دیگر فوجی اقدامات پر فوقیت عطا کرتی ہے، وہ اس جگہ کی جغرافیائی خصوصیات اور جیوپولیٹیکل اہمیت ہوتی ہے۔ کسی بھی جگہ کی جیوپولیٹیکل اہمیت اسے خاص امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔ اسی بنا پر بعض اوقات دو مختلف جگہوں پر ایک ہی سطح اور نوعیت کے فوجی اقدامات میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے اور وہ یکساں اہمیت سے برخوردار نہیں ہوتے۔ لہذا کسی بھی فوجی کارروائی میں صرف پیشقدمی ہی توجہ کا مرکز قرار نہیں پاتی، بلکہ اس امر پر بھی توجہ دی جاتی ہے کہ یہ فوجی کامیابی یا پیشقدمی جنگ میں مصروف طرفین پر جغرافیہ، اقتصاد، مواصلاتی راستوں، جدید فوجی آپریشنز کی صلاحیت اور نفسیاتی پہلووں کے لحاظ سے کیا اثرات ڈالے گی۔ یہ عوامل کسی بھی فوجی کامیابی کے اسٹریٹجک نتائج کا تعین کرتے ہیں۔ شام کے تاریخی شہر پالمیرا یا تدمر کی آزادی بھی اسی نوعیت کی فوجی کارروائی تھی۔ اس شہر کی آزادی نے نہ صرف داعش کے ہاتھ سے اسٹریٹجک مواقع چھین لئے بلکہ شام آرمی کے سامنے بھی مزید فوجی آپریشنز کے بہت سے راستے کھول دیئے ہیں۔ تحریر حاضر میں ان اثرات کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

پالمیرا یا تدمر شام کے مشرقی حصوں کا دروازہ محسوب ہوتا ہے، جو ایک جغرافیائی – مواصلاتی شاہراہ پر واقع ہے اور اس کے ذریعے شام کے مختلف صوبوں تک رسائی ممکن ہے۔ یہ شہر تقریباً 50 کلومیٹر کے اوسط فاصلے سے عراق، دیر الزور اور رقہ کے صوبوں اور شہروں، جنوب سے دمشق اور مشرقی الغوطہ، درعا اور سویداء صوبوں کی سرحدوں سے ملتا ہے۔ اسی طرح حمص شہر اور صوبہ حماہ سے انتہائی کم فاصلے پر واقع ہے اور یہاں سے قلمون تک سیدھا اور صاف راستہ موجود ہے، جہاں سے عرسال اور لبنان کی سرحد تک رسائی ممکن ہے۔ اس شہر کی آزادی کے اثرات اور نتائج کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1)۔ فوجی پہلو اور فوجی کاروائیوں میں سہولت:
داعش پالمیرا پر قابض ہوتے ہوئے عراق سے لاجسٹک سپورٹ اور دہشت گردوں کی آمدورفت سے برخوردار تھا۔ اسی طرح سعودی عرب سے فوجی ساز و سامان اور اردن کے بارڈر سے لاجسٹک سپورٹ داعش کو فراہم کی جاتی تھی۔ داعش نے پالمیرا اور اس کے نواح میں واقع قصبے مہین پر قبضے کے دوران اس شہر کو اپنا دوسرا کمانڈ سنٹر بنا رکھا تھا، چونکہ مہین میں شام آرمی کے بڑے بڑے اسلحہ کے ڈپو موجود ہیں۔ داعش پالمیرا کو اپنی فوجی کارروائیوں کیلئے ایک اہم اور اسٹریٹجک مرکز کے طور پر استعمال کر رہا تھا اور شام کے دوسرے صوبوں سے متصل ہونے کے ناطے داعش بہت آسانی سے اس شہر سے اپنے دہشت گرد اور فوجی قوت دوسرے محاذوں پر منتقل کرتا رہتا تھا۔ پالمیرا کی آزادی کے باعث داعش مذکورہ بالا تمام صلاحیتوں سے محروم ہوگیا ہے اور اس وقت داعش شام کی مشرقی اور جنوبی سرحدوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف پالمیرا کی آزادی سے شام آرمی کو نئی فوجی کارروائیوں میں بہت سہولت میسر ہوچکی ہے اور دوسرے خطوں میں داعش کے خاتمے کا راستہ آسان ہوگیا ہے۔ شام آرمی پالمیرا سے رقہ، دیرالزور اور عراق کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بھی فوجی کارروائیاں انجام دے سکتی ہے۔ اسی طرح شام آرمی جنوبی صوبوں خاص طور پر مشرقی حمص اور حماہ شہر کی جانب داعش کے مواصلاتی راستوں کو کاٹنے کی صلاحیت بھی پیدا کرچکی ہے۔ مزید برآں، پالمیرا سے اسٹریٹجک شہر حلب کے جنوب اور قلمون اور عرسال جانے والے راستوں پر بھی شام آرمی کا کنٹرول بڑھ جائے گا۔ یاد رہے کہ داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامی دیگر گروہوں کیلئے زبدانی – مضایا اور اس سے آگے مغربی غوطہ (داریا اور معظمیہ) اور قنیطرہ کے خفیے راستے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل سمجھے جاتے تھے۔ مذکورہ بالا تمام محاذ خاص فوجی اثرات اور نتائج کے حامل ہیں، جن پر شام آرمی کی فوجی کارروائیاں دہشت گردوں کی پوزیشن کمزور کرنے اور حتی ان کا مکمل خاتمہ کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

مثال کے طور پر جب النصرہ فرنٹ نے قلمون (جراجیر) میں داعش پر حملہ کیا تو پالمیرا، قریتین اور مہین سے داعش کے مواصلاتی خطوط کٹ جانے کے باعث انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے تمام فوجی غنائم النصرہ فرنٹ کے ہاتھ لگ گئے۔ اس وقت یہ علاقہ عرسال میں النصرہ فرنٹ کا اگلا محاذ سمجھا جاتا ہے۔ پالمیرا کی آزادی کے فوجی نتائج کے بارے میں مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مختلف صوبوں میں داعش کی موجودگی اور تیزی سے ان علاقوں میں ان کی آمدورفت کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے اور ان کی لاجسٹک توانائیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔ اس صورتحال نے داعش کو کمزور کر دیا ہے اور اس پر اگلی ضرب لگانے کا راستہ ہموار کر ڈالا ہے۔

2)۔ لاجسٹک اور مواصلاتی صلاحیتیں: پالمیرا کی آزادی سے داعش کی لاجسٹک اور مواصلاتی صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ان کی فوجی کارروائیوں کی صلاحیت کمترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہ امر داعش کی جانب سے مختلف خطوں میں دہشت گردوں کے پھیلاو اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ وہ اہم ترین وجہ جس کے باعث داعش گذشتہ چند سالوں کے دوران شام کے سب سے بڑے دہشت گرد گروہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، ان کے پاس موجود نامحدود فوجی، مالی اور لاجسٹک وسائل تھے، جو انہیں مختلف ذرائع سے حاصل ہوئے تھے۔ پالمیرا کی آزادی نے داعش کی ان توانائیوں میں بہت حد تک کمی کر دی ہے۔

3)۔ اقتصادی صلاحیتیں: داعش اپنی مالی ضروریات پورا کرنے کیلئے بیرونی ممالک سے مالی امداد کے حصول، عوام اور تاجروں سے ٹیکس کی وصولی اور آثار قدیمہ کی اسمگلنگ اور بلیک مارکیٹ میں ان کی فروخت کے علاوہ خام تیل کی فروخت اور ترکی کے راستے تیل کی برآمد جیسے اہم ذریعے کو بھی استعمال کر رہا تھا۔ روس کی جانب سے ترکی کے سرحدی علاقوں میں داعش کے آئل ٹینکرز پر ہوائی حملوں نے بہت حد تک داعش کی آمدنی کے اس ذریعے کو نقصان پہنچایا ہے۔ دوسری طرف پالمیرا کی آزادی کے بعد داعش کے زیر قبضہ تیل کے کنووں سے فاصلہ بہت کم رہ گیا ہے اور شام آرمی حائل اور شعار میں واقع ان کنووں کو فوجی آپریشن کے ذریعے داعش سے آزاد کروانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پالمیرا ہوائی اڈے کی مدد سے داعش کے خلاف آپریشن کی افادیت کئی گنا بڑھ جائے گی۔ اس وقت دیرالزور اور رقہ تک پہنچنے میں شام آرمی کے راستے میں کوئی بڑی اور اہم رکاوٹ نہیں رہ گئی۔ داعش کے زیر قبضہ تیل کے کنوئیں بھی اسی راستے پر واقع ہیں۔ ان تیل کے کنووں سے قبضہ چھڑانے کے بعد داعش اپنی اقتصاد کا بنیادی ذریعہ ہاتھ سے دھو بیٹھے گا۔

4)۔ سیاسی صلاحیتیں: پالمیرا کی آزادی اور اس کے نتیجے میں اس کے اسٹریٹجک نتائج ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب جنیوا 3 مذاکرات ہونے والے ہیں۔ یہ مذاکرات اپریل کے مہینے میں شام میں پارلیمانی انتخابات کے بعد انجام پانے ہیں۔ پالمیرا کی آزادی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ شام کی مذاکراتی ٹیم جنیوا 3 سے پہلے فوجی برتری کے ساتھ مذاکرات کی میز پر حاضر ہوگی، جس کے باعث اپنے مدمقابل سے اپنے مطالبات منوا سکے گی۔ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی سے بھی شام حکومت کی ٹیم کی پوزیشن مضبوط ہونے کا امکان ہے۔

5)۔ نفسیاتی پہلو: پالمیرا میں شام آرمی کی اسٹریٹجک فتح ایک طرف شام حکومت اور اس کی اتحادی قوتوں کا مورال بلند ہونے کا باعث بنی ہے تو دوسری طرف داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی شدید حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ شام میں دہشت گردوں کے خلاف کھلے مختلف محاذوں پر شام آرمی اور رضاکار فورسز کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اس عظیم فتح نے ملک کے دوسرے حصوں میں جاری دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کی کامیابی کا امکان بڑھا دیا ہے۔

6)۔ عراق اور شام میں جاری دہشتگردی کیخلاف طاقت کے توازن میں اضافہ: عراق اور شام میں جاری دہشت گردی اور بدامنی میں ہمیشہ سے آپس میں جغرافیائی رابطہ رہا ہے اور دہشت گرد عناصر دونوں ممالک میں آمدورفت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عراق اور شام کی مشترکہ سرحد کے دونوں طرف سرگرم دہشت گرد عناصر ایکدوسرے کی لاجسٹک سپورٹ کرتے آئے ہیں۔ جس طرح نبل و الزھراء کے گرد دہشت گردوں کے محاصرے کے خاتمے کے بعد حلب کے شمال اور مغرب میں سرگرم دہشت گردوں کا رابطہ ٹوٹ گیا اور لاذقیہ کے شمال اور ادلب میں سرگرم تکفیری دہشت گرد اپنا موثر دفاع کرنے سے قاصر ہوگئے، اسی طرح پالمیرا کی آزادی سے عراق میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کا شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس کا حتمی نتیجہ عراق اور شام میں داعش کی مکمل نابودی کی صورت میں نکلے گا اور وہ ہدف جس کی تکمیل کیلئے امریکہ نے 15 سالہ طولانی منصوبہ تیار کر رکھا تھا، اس سے انتہائی کم مدت میں حاصل کر لیا جائے گا۔

اسرائیلی حکام شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی موجودہ صورتحال سے شدید پریشانی کا شکار ہے اور ترک حکام بھی گوشہ نشینی کا شکار ہوچکے ہیں۔ ترک حکومت نے شام مہاجرین کیلئے یورپ سے مراعات حاصل کرنے کی امید لگا رکھی ہے۔ دوسری طرف سعودی حکومت بھی شام میں اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول سے مایوسی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ نے سعودی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ یمن پر مرکوز کر دے اور "فیصلہ کن طوفان" کو بدترین شکست سے بچانے کیلئے چارہ جوئی کرے۔ مذکورہ بالا تفصیلات سے مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن کی صورتحال کی کلی تصویر پیش کی گئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 531491
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش