2
0
Sunday 29 May 2011 23:02

پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کہوں

پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کہوں
تحریر:ساجد حسین
 ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل انتہائی اہم علاقہ پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال کی وجہ سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افغانستان کا مشہور پہاڑی علاقہ تورہ بورہ سپین غر [کوہ سفید] کے پہاڑی سلسلے کے اندر  ایک طرف سے صوبہ ننگر ہار اور دوسری طرف سے پاراچنار کے مضافاتی گاؤں زیڑان سے لگتا ہے۔ اسکے علاوہ یہ پاکستان کے کسی بھی علاقے بشمول تمام قبائلی علاقوں کے افغان دار الحکومت کابل سے نزدیک ترین اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس علاقے کی شکل ایک مثلت کی سی ہے، چنانچہ بین الاقوامی اسٹرٹیجک اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ "Parrots Beak" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اپریل 2007ء سے لے کر تادم تحریر کرم ایجنسی پاراچنار کی تباہی و بربادی، 4 سالہ مسلط محاصرے اور اقتصادی ناکہ بندی کو سمجھنے کے لیے مندرجہ بالا مقدمہ اور اس کے بعد گزشتہ وقوع پذیر واقعات کی مختصر جھلک دکھانا اس لیے ضروری ہے کہ یہ تمام تر واقعات یہ ثابت کرواتے ہیں کہ جس طرح اخبارات، میڈیا یا سرکاری سطح پر کرم ایجنسی و پاراچنار کے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ مسئلہ کبھی بھی فرقہ وارانہ تھا اور نہ ہے، بلکہ فرقہ وارانہ رنگ دے کر حکومت و اسٹیبلیشمنٹ، پاراچنار کے عوام کے ساتھ یکطرفہ ظلم اور جبر کو چھپانا چاہتی ہے تاکہ پاکستان کے عوام اور دنیا کی نظر میں اور مسئلہ کو شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات قرار دے کر اصل حقائق کی پردہ پوشی کر سکیں۔
 لیکن ظلم و جبر کا یہ سلسلہ آخر کب تک جاری رہے گا۔ کیا یہ حکمران مولائے متقیان امام علی ع کے اس فرمان کو بھول گئے ہیں کہ " حکومت کفر سے تو چل سکتی ہے مگر ظلم سے نہیں" دراصل کرم ایجنسی کے عوام پر ظلم و جبر اور حکومتی سرپرستی میں تعصب پر مبنی سلوک جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا۔ جب 80 ء کی دہائی میں امریکی سی آئی اے اور ضیاء حکومت کے گٹھ جوڑ سے دنیا بھر سے بالخصوص عرب اور وسطی ایشیائی ممالک سے متعصب نظریات کے حامل شدت پسندوں کو مجاہدین کے عنوان سے اس علاقے میں لا کر بسایا گیا، اور انہیں پیواڑ کے علاقے میرمئے اور سپینہ شگہ میں ھیڈ کوارٹر بنا دیئے گئے۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس برملا اظہار کر کے یوں کہتی ہے، کہ ہم نے متعصب نظریے کے حامل شدت پسند طالبان اور القاعدہ کی بنیاد رکھی۔ متعصب نظریے کے حامل القاعدہ اور طالبان کے درندوں کو وجود میں لانے سے امریکہ کے دو مقاصد تھے۔ پہلا مقصد "افغانستان پر قابض روس کو افغانستان سے شکست دے کر دنیا پر امریکی اجارہ داری" اور دوسرا مقصد "عالمی اسلامی بیداری بالخصوص اسلام ناب محمدی ص اور فکر امام خمینی رہ کے مقابلے میں القاعدہ و طالبان کا امریکی اسلام پروان چڑھا کر دنیا بھر میں اسلام جیسے پرامن و مکمل ضابطہ حیات دین کو بدنام کرنا تھا۔
مسلم دنیا حتٰی کہ افریقہ کے بعض غیر مسلم مظلومین اسلام ناب محمدی ص اور امام خمینی رہ کو آئیڈیل سمجھ کر بیدار ہونے لگیں تو انہیں امام خمینی رہ کو شیعہ قرار دے کر اس کے مقابلے میں اسامہ بن لادن جیسے کاغذی ہیرو
و قیادت کی پیروی کرنے کی ترغیب دلا کر اسامہ کو ایک آئیڈیل کے طور پر متعارف کروایا گیا، حالانکہ امام خمینی رہ نے لاشرقیہ و لاغربیہ، اسلامیہ اسلامیہ اور امام علی ع کی وصیت کے مطابق کہ "ہر ظالم کے مخالف اور ہر مظلوم کے مددگار بن جاؤ" کے مصداق دنیا بھر کے مظلومین مسلمان تو کیا غیر مسلموں کی حمایت کی، بالخصوص فلسطین کے مسئلے کو انہوں نے عالمی مسئلہ بنا دیا۔
چنانچہ امریکی سی آئی اے اور ضیاء کے گٹھ جوڑ سے افغانستان سے روس کی شکست کے لیے کرم ایجنسی کو مرکز (Base Camp) کے طور پر استعمال کر کے ایک تیر سے دو شکار کیے گئے۔ ایک طرف کرم ایجنسی کے علاقے صدہ (Sadda) جو کہ اہل تشیع (طوری و بنگش) قبائل کی ملکیت تھا اور اب تک کاغذات مال (Revenue Record) میں صدہ کی اکثر مارکیٹیں اور زمینیں اہل تشیع کی ملکیت ہیں۔ امریکی سی آئی اے کے جہادی ٹولوں نے عبدالرسول سیاف اور گلبدین حکمتیار اور اسامہ بن لادن کو بسا کر صدہ میں شیعہ سنی فساد کے نام پر اس زمانے میں [1983ء تا 1987] مشرقی افغانستان سے آنے والے متعصب عقیدہ کے حامل افغان مہاجرین کی مدد سے اہل تشیع کا قتل عام (Genocide) کر دیا، اور پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ مذھبی مقامات مساجد اور امام بارگاہوں کو ڈائنا مائیٹ سے اڑا کر شہید کر دیا گیا۔ اور اسکے بعد اہل تشیع کے باقی ماندہ افراد کو صدہ سے جبری بے دخل کر دیا۔ جو گزشتہ 30 سالوں سے ابھی تک پاراچنار میں IDPs کی صورت میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن آج تک کسی حکومتی اہلکار یا ادارے نے ان کا پوچھا تک نہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ اسی دور میں ایک بہت بڑی آبادی اور رقبے اور کے حامل نیم قبائلی اورکزئی قوم کے علاقے جسے مقامی سطح پر اب بھی "علاقہ غیر" کے نام سے پکارا جاتا ہے یعنی "ایف آر اورکزئی" کو کرم ایجنسی میں اس مقصد کے تحت شامل کیا گیا کہ کرم ایجنسی میں آبادی کا تناسب (Demographic) تبدیل کر کے یہاں کی مقامی شیعہ آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ ساتھ ہی ساتھ افغانستان سے آنے والے مہاجرین اور دیگر اقوام جیسے منگل، جاجی، خروٹی وغیرہ کو سرکاری سرپرستی میں شناختی کارڈ و پاسپورٹ جاری کیے گئے اور یوں ایف آر اورکزئی علاقے کے غیرقانونی الحاق کے ساتھ ساتھ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے سے کرم ایجنسی کے وسائل ترقیاتی کاموں اور تعلیمی اداروں میں کوٹے و مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ کی گئی۔ اور مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔
مزید ظلم یہ کہ قائداعظم نے کرم ایجنسی کے قبائل طوری و بنگش کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ کرم ایجنسی کی حفاظت کے لیے انہی قبائل پر مشتمل کرم ملیشیاء ایف سی فورس یہاں مقیم ہو گی۔ ضیاء نے قائداعظم کے وعدے کو توڑتے ہوئے کرم ملیشیاء کو وزیرستان، باجوڑ، خیبر اور دوسرے علاقوں میں بھیج دیا اور وہاں سے دیگر اقوام پر مشتمل ایف سی کو کرم ایجنسی میں تعینات کر دیا گیا۔ جنکے نظریات طوری قبائل کی دشمنی جبکہ افغان جہادیوں اور اسامہ وغیرہ کی محبت میں اپنی مثال آپ تھے۔
80ء کی دہائی میں بالخصوص 1983ء اور 1987ء میں ضیاء نے صدہ کی طرح پاراچنار کو بھی طوری بنگش قبائل اہل تشیع سے خالی کر کے خوارج نما جہادیوں کے حوالے کرنے کے لئے کئی بار جہادیوں اور افغان مہاجرین کی مدد سے لشکر کشیاں کیں، لیکن یہاں کے غیور و بہادر عوام نے سینکڑوں جانوں کے نذرانے دے کر ضیاء حکومت اور امریکی سی آئی اے کے ان ناپاک عزائم کو ناکام بنا دیا۔ حتیٰ کہ 1987ء کی جنگ میں ضیاء نے پاراچنار کے ممکنہ
بے دخل شیعہ مہاجرین کے لیے میانوالی اور بھکر میں مہاجر کیمپ تک بنائے تھے اور انہیں پیشکش کی تھی کہ تم میانوالی جا کر افغان طیاروں اور روسی بمباری اور مہاجریں کے حملوں سے آرام سے زندگی بسر کرو، مگر اہلیان پاراچنار نے اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر مہاجر ہونے کو یکسر ٹھکرا دیا۔ اور واقعی اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور واقعی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ پاراچنار کے اہل تشیع تو مہاجر نہیں بنے، لیکن ضیاء اپنے جرنیلوں اور امریکی ساتھیوں سمیت 17 اگست 1988ء کو مکمل طور پر اسلام آباد کے تخت سے مہاجر بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
بعد میں ضیاء کی باقیات اسٹیبلیشمنٹ نے بھی پاراچنار دشمنی جاری رکھی اور 10 ستمبر 1996ء میں پاراچنار کو اپنے مفادات کا ایندھن بناتے ہوئے یہاں شیعہ سنی فسادات کروائے اور پھر جنگ روکنے کے بہانے سینکڑوں گاڑیوں میں فوج اور سیکورٹی فورسز کو اسلحہ سمیت پاراچنار کے راستے افغانستان میں داخل کرایا گیا اور ایک مختصر عرصے میں افغانستان بشمول کابل پر طالبان حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔
نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد ایک بار پھر پاراچنار کو اپنے مقاصد اور یہاں کے عوام کو قربانی کا بکرا بنانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اسی ضیاء دور کی طرح ایک تیر سے دو شکار یعنی ایک طرف اپنے مفادات کا حصول ممکن بنانا تھا جبکہ دوسری طرف صدہ کی طرح پاراچنار سے بھی اہل تشیع کا صفایا کرانا تھا اور اس علاقے کو مکمل طور پر القاعدہ اور طالبان اور دوسرے دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کے حوالے کر کے افغانستان میں طالبان کے متعصب نظام کی طرح پہلے فاٹا اور پھر پورے ملک میں نام نہاد ’’امارت اسلامی" کے نام سے امریکی اسلام کو نافذ کرانا مقصود تھا۔
چنانچہ 6 اپریل 2007ء کو ملک بھر بالخصوص فاٹا اور جنوبی پنجاب سے کالعدم تنظیموں القاعدہ نواز طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے ذریعے پاراچنار پر یلغار کروا دی۔ اس لشکر کشی میں جب پاراچنار کے غیور اور بہادر عوام نے مزاحمت اور دفاع کرکے میدان جنگ میں خوارج کو شکست دی اور سامنا کر کے کوئی جرات نہ کرسکنے کے بعد اسرائیل اور بلیک واٹر کے ایجنٹ طالبان نے اسی سال یعنی 2007ء میں بالکل غزہ کی طرح ٹل پاراچنار روڈ کی بندش و ناکہ بندی کی صورت میں طویل محاصرہ اور اقتصادی ناکہ بندی جیسے غیرانسانی و غیراخلاقی ہتھکنڈے  استعمال کرنا شروع کیے۔ کبھی کبھار اگر سرکاری کانوائے میں روڈ کھل جاتا تو راستے میں نہتے مردوں، خواتین اور بچوں حتیٰ کہ سرکاری ایمبولینس میں موجود مریضوں اور خواتین نرسوں تک کو نشانہ بنایا جاتا۔ سرکاری ایف سی کی موجودگی میں پاراچنار کے نہتے مسافروں کو بارہا سرکاری سرپرستی میں چلنے والے کانوائے کے دوران اتار کر زندہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کیا اور پھر لاشوں کو آگ لگا کر رقص ابلیس کرکے شیطان سے شاباش حاصل کی گئی، اور طالبان کی طرف ان انسانیت سوز مظالم کے دوران حفاظت پر مامور ایف سی حکام بالخصوص ایک کرنل نہ صرف خاموش تماشائی کی طرح نظارہ کر رہے ہوتےتھے بلکہ دہشت گردوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کے جواب بھی دے رہے تھے۔ جس کی ویڈیوز اس وقت منظر عام پر آ چکی ہیں۔
تمام قبائلی علاقوں، جنوبی پنجاب اور افغانستان کے طالبان لشکروں کے حملوں اور لشکر کشیوں کے باوجود یہ خوارج جب پاراچنار کے بہادر و دفاع کرنے والے شیروں کا میدان جنگ میں مقابلہ نہ کرسکے، تو پھر بزدل گیدڑوں
کی طرح غیرانسانی اقدامات جیسے پاراچنار سے باہر نہتے مسافروں حتٰی کہ عورتوں اور بچوں تک کو بے دردی سے شہید کرنے جیسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، جو نہ صرف اسلام اور دنیا بھر میں رائج جنگی اصولوں بلکہ صدیوں سے رائج قبائلی روایات کے بھی خلاف ہیں۔ تادم تحریر اپریل 2007 ء سے اب تک 1500 سے زائد شہداء اور ہزاروں زخمی ہیں، لیکن پاراچنار کے عوام کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔ صرف سوال یہ ہے کہ ٹل پاراچنار روڈ طوری بنگش اہل تشیع کے لیے بند جبکہ طالبان، فوج و ایف سی کے لیے کھلی کیوں؟؟؟ 
دو ماہ پہلے طالبان کے ہاتھوں اغواء 33 مسافر اب تک کیوں لاپتہ ہیں؟ جن کے حوالے سے نہ صرف حکومتی حکام خاموش ہیں، بلکہ سول سوسائٹی نے بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ صومالیہ میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں اغوا چند پاکستانیوں کی رہائی کے لئے دن رات ایک کر کے گھنٹوں کوریج دینے والی سول سوسائٹی اور شہر شہر گھومنے والی انسانی حقوق کی تنظیمیں طالبان کے ہاتھوں اغواء 33 پاراچناری مسافروں کے حوالے سے زبانوں پر تالے لگائے ہوئے ہیں۔ شاید پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کا جرم یہی ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے ان کے قبائلی عمائدین نے دہلی جا کر قائد اعظم کو پاکستان بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر استحکام پاکستان 48ء، 65ء اور 71ء، کی لڑائیوں نیز کارگل میں بلکہ آج تک خون کے نذرانے پیش کئے ہیں۔
 پاراچنار کے محب وطن طوری، بنگش قبائل پاکستان سے محبت کر کے آج تک پاراچنار کے سرکاری اور غیرسرکاری سکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھتے ہیں۔ پاراچنار میں آج تک فوج اور ایف سی پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہے، جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتٰی کہ فوج اور ایف سی پاراچنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور ریاستی دہشت گردی روا رکھ کر دیوار سے لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک میں خودکش حملے، جی ایچ کیو اور پی این ایس مہران پر حملوں میں حصہ نہیں لیا۔ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں اور قبائلی علاقوں میں جہاں افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار دے کر خودکش حملے کئے جاتے ہیں، بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں، ان علاقوں کے لئے ارباب اختیار نہ صر ف ترقیاتی پیکج کا اعلان کر رہے ہیں۔ بلکہ دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دینے کی بجائے VIP پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ ایسی حالت میں ملک سے دہشت گردی کیا خاک ختم ہو گی۔
تاہم اب بھی وقت ہے اسلام آباد اور روالپنڈی کے ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے حکمرانوں کے پاس کہ وہ پاراچنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک اور دیوار سے لگانے کی پالیسی ترک کر کے چار سالہ غیرانسانی محاصرہ ختم کروا کر، ٹل پاراچنار روڈ کھول کر متعصب ایف سی کی بجائے پاک فوج یا کرم ملیشیاء کی نگرانی میں حقیقی معنوں میں روڈ محفوظ بنا کر پاراچنار پر لشکر کشی کرنے والے خوارج طالبان اور درجن سے زیادہ مرتبہ مری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے شرپسندوں کو سزا دی جائے۔ ورنہ یاد رکھیں کہ مظلوموں کی آواز براہ راست عرش الہی تک پہنچتی ہے اور "خدا کے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں"۔ پاراچنار کے چار سالہ محاصرے کو سرفراز نے ایک شعر میں کیا خوب بیان کیا ہے کہ
شعب ابی طالب، غزہ یا کربلا کہوں!
اے پاراچنار تو ہی بتا تجھے میں کیا کہوں 
خبر کا کوڈ : 75363
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Parachinar meets the borders of 4 provinces of Afganistan at the same time not 3 provinces.
kindly correct it.
for verification see the below link
http://en.wikipedia.org/wiki/Provinces_of_Afghanistan
Pakistan
nice must seeeeeeeeeeeeeeeeeeee
ہماری پیشکش