0
Monday 17 Feb 2020 11:34

شام دہشتگردوں سے آزاد ہونے کو ہے

شام دہشتگردوں سے آزاد ہونے کو ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی فوج ایک شامی قصبے سے گزرنے والی ہے، وہاں کی مقامی آبادی بڑی تعداد میں سڑک کنارے جمع ہو جاتی ہے اور امریکی فوج کے خلاف نعرے بازی شروع کر دیتی ہے۔ لوگ ٹماٹر اور دیگر چیزیں امریکی فوج پر پھینکنا شروع کر دیتے ہیں، دنیا کو انتہاء پسند کہنے والے گولی چلاتے ہیں اور پتھر پھینکنے والے ایک بچے کو شہید کر دیتے ہیں۔ ایک اور منظر بھی دیکھیں، امریکی فوج ایک سڑک کو  استعمال کرنا چاہتی ہے، مگر شامی فوج اس کا راستہ روک دیتی ہے۔ امریکی آفیسر کہتا ہے کہ ہم یہاں امن کے لیے ہیں، شامی فوجی کہتے ہیں کہ یہ ساری تباہی ہی تمہاری وجہ سے ہے۔ امریکی فوجی کہتا ہے، جیسے روسی فوج یہاں پر ہے، ہم بھی اسی طرح ہیں، ہمیں جانے دیا جائے مگر شامی فوج انہیں کسی بھی صورت میں آگے بڑھنے سے روک دیتی ہے۔

پچھلے تقریباً ایک ماہ سے شامی افواج کی ادلب میں کارروائی جاری ہے، جس کے نتیجے میں شامی افواج نے ادلب کے آس پاس موجود اہم علاقوں کو دہشتگردوں سے پاک کرا کر ان پر شامی پرچم لہرا دیا ہے۔ ترکی اور اس کی اتحادی مقامی دہشتگرد ملیشیاوں نے جب دیکھا کہ ادلب کسی بھی وقت شامی افواج کے قبضے میں چلا جائے گا تو انہوں نے بڑی تعداد میں ادلب میں لوٹ مار شروع کر دی۔ بہت سی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ادلب کو بجلی فراہم کرنے والے ٹرانسفارمرز ٹرکوں میں لوڈ کرکے ترکی منتقل کیے جا رہے ہیں، شامی حکومت کا کہنا ہے کہ ادلب کے فیکٹری ایریا سے بڑی تعداد میں ان فیکٹریوں میں موجود بڑی مشینری کو لوٹا گیا ہے۔

2017ء میں ترکی اور شامی حکومت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا، جس کی بنیاد پر ترکی نے ادلب کے علاقے میں بارہ ملٹری پوسٹس بنائی تھیں۔ اس معاہدے میں ترکی نے اس ذمہ داری کو قبول کیا تھا کہ وہ علاقے میں موجود دہشتگردوں کو نکال دے گا اور شہریوں کو سول سروسز فراہم کی جائیں گی، یعنی ایک پرامن ماحول فراہم کیا جائے گا۔ مگر ترکی نے اس معاہدے پر بالکل عمل نہیں کیا، اس وقت ادلب میں تحریر الشام، انصار التوحید، حراس الدین، النصرہ اور القاعدہ سے منسلک کئی گروہ موجود ہیں۔ ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف ترکی نے کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ ان کو جدید اسلحہ فراہم کیا ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق انہیں اسٹنگر میزائل بھی فراہم کیے گئے ہیں۔

ایک طرح سے ترکی نے ادلب کو قبضہ میں لے کر اس کے وسائل پر قبضہ کر لیا اور اس کی عوام کو دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ شامی حکومت اور افواج کے لیے یہ کسی طور پر بھی قبول نہیں تھا کہ دہشتگروں کے لیے ایک سیف زون بن جائے، جہاں ان کی تربیت ہو اور وہیں سے وہ بڑے پیمانے پر شامی افواج پر حملے کریں۔ شامی افواج نے ان دہشتگروں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا اور یکے بعد دیگر  کئی اہم علاقوں کو دہشتگردوں سے پاک کر دیا اور چھ سو سکوائر کلومیٹر علاقے کو آزاد کرایا۔ قریب تھا کہ ادلب مکمل طور پر ریاستی کنٹرول میں آجائے۔

اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کے بعد سب کچھ یوں جانے دینا ترکی اور دیگر اتحادی ممالک کے مفاد میں نہیں تھا، اس لیے ترکی نے براہ راست جنگ میں آنے کا اشارہ دیا اور بڑی تعداد میں ترک فوجی اور اسلحہ ادلب پہنچایا جانے لگا۔ شامی افواج دہشتگردوں پر حملہ کر رہی تھیں اور ترک فوج انہیں تحفظ دے رہی تھی۔ اسی دوران تیرہ ترک فوجی دو مختلف واقعات میں مارے گئے۔ اس پر ترکی نے شدید ردعمل کا اعلان کیا کہ وہ شام میں کسی بھی جگہ شامی مفادات کے خلاف ہوگا، جس سے ترکی اور شام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ روس کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ترکی نے دہشتگروں کو الگ نہ کرکے معاہدے پر عمل نہیں کیا اور شام کی حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے۔

شامی افواج یہ چاہتی ہیں کہ وہ ایم فائو موٹروے کو آزاد کرا لیں، یہ موٹروے شام کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ موٹروے ادلب، حمص، حلب کو دارالحکومت دمشق سے ملا کر شام کا معاشی روٹ تشکیل دیتی ہے۔ دہشتگردی کا شکار ہونے سے پہلے اس شاہراہ سے  25 ملین ڈالر یومیہ کی تجارت ہوتی تھی۔ اس شاہراہ سے ترکی کے علاوہ اردن، سعودی عرب سمیت کئی ممالک کو شامی مصنوعات بھجوائی جاتی تھیں۔ اس روڈٰ کا کھلے رہنا کتنا اہم ہے، اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شام نے فقط اسی روڈ کو کھولنے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پیا تھا کہ ادلب میں ترک افواج کی پوسٹس بنیں، نتیجے میں ترکی کی افواج اور روسی افواج اس موٹروے پر گشت کرکے اسے رابطے کے لیے کھلا رکھیں، مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور اب شامی افواج کی کارروائی جاری ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ایم فائو موٹروے پر قبضہ دراصل پورے شام کو دوبارہ بشار الاسد کی گود میں دال دے گا، یہی وجہ ہے کہ ترکی اور دیگر طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ کسی بھی صورت میں ادلب اور اس موٹروے پر شام کا قبضہ نہ ہونے پائے۔ مشہور تجریہ نگار طالب ابراہیم کے مطابق یہ موٹروے پورے مشرق وسطیٰ کی دفاعی لحاظ سے سب سے اہم رابطہ سڑک ہے۔ اس کے ذریعے مختلف علاقوں میں موجود دہشتگرد گروہ آپس میں رابطے میں ہیں، اس روٹ کے چھن جانے سے ان تمام کا آپس کا زمینی رابطہ کٹ جائے گا اور جب یہ رابطہ کٹ جائے گا تو یہ عناصر مختلف چھوٹے چھوٹے حصوں میں بٹ جائیں گے، ان کی سپلائی لائن نہیں ہوگی، جس کے نتیجے میں انہیں بڑی آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔

حلب کے باقی ماندہ علاقے سے دہشگردوں کو شکست دی جا چکی ہے۔ حلب کے عوام اس جما دینے والی سرد رات میں بھی بڑی تعداد میں اس فتح کا جشن منا رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں ایک امید ہے اور زندگی کی طرف لوٹنے کی بھرپور آرزو۔ آٹھ سال سے جاری اس تشدد اور خوف کا حلب سے خاتمہ ہوا، اب حلب کے عوام سکھ کا سانس لیں گے اور حکومت بھی پوری توجہ سے ادلب سمیت دیگر محاذوں پر کارروائیاں کرے گی۔ امید ہے کہ شام کے عوام جلد امن و آشتی کو  ملاحظہ کریں گے اور پھر سے شام تعلیم و ترقی کا استعارہ بن جائے گا۔ ایک ایک کرکے انسانیت  دشمنوں کے سارے منصوبے ختم ہوتے جائیں گے، ان شاء اللہ
خبر کا کوڈ : 845038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش