0
Friday 24 Jul 2009 12:12

کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرے گا؟

کیا اسرائیل ایران پر حملہ کرے گا؟
نجم سیٹھی
اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ سعودی حکام نے ایرانی ایٹمی و میزائل تنصیبات کو نشانہ بنانے کیلئے اسرائیل بمبار طیاروں کو سعودی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دے دی ہے۔ سعودی حکام کی اسرائیلی انٹیلی جنس چیف کے بیان کی سختی سے تردید کے باوجود ایرانی تنصیبات پر اسرائیلی حملے کے ممکنہ حملے کے خدشات اس وقت بڑھ گئے جب اقوام متحدہ کیلئے امریکہ کے سابق سفیر جان بولٹن نے کہا کہ اپنی قومی سلامتی اور بقاء کے تحفظ کیلئے ہر قسم کے اقدامات اٹھانا اسرائیل کا حق ہے۔ امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن اس قبل انہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس حملے کے عالمی و علاقائی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
2009 ء کے انتخابات کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن ہاہو نے قوم سے وعدہ کیا کہ منتخب ہو نے کے بعد ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو تباہ کر دیں گے۔ دوسری طرف ایرانی صدر احمدی نژاد کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کے وجود سے پاک کردینا چاہیے۔اسرائیل اب تک ایران کے خلاف آپریشن کے لئے 2 مرتبہ فضائی مشقیں کر چکا ہے۔ بشہر ، ارک اور نتانز میں واقع ایرانی تنصیبات جہاں یورینیم کی افزودگی اور پلوٹونیم کی پیداوار ہورہی ہے، اگر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تباہ ہو گئیں تو ایران نیوکلیئر ہتھیاروں کے لئے مطلوبہ مواد تیار کرنے کی صلاحیت کھو دے گا۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کیلئے 80 ایف 16 یا ایف 15کے فلیٹ کی ضرورت پڑے گی جو بنکر شکن بمبوں سے لیس ہوں ۔طویل فضائی مسافت کے باعث ان جیٹ طیاروں کو ری فیول کرنا پڑے گا جو فضا میں رہ کر غیر ملک کی فضائی حدود میں کی جا سکتی ہے ، راستے میں پڑنے والی عراق یا ترکی کی ایئر بیس سے بھی انہیں ری فیول کیا جا سکتا ہے۔ ایران تک پہنچنے کیلئے اسرائیل تین ممکنہ فضائی راستے استعمال میں لا سکتا ہے۔ شمالی راستہ اختیار کرنے کی صورت میں اسرائیلی طیاروں کو شام ، عراق اور ترکی کی فضائی حدود سے گزرنا پڑے گا، سنٹرل روٹ کی صورت میں اردن اور عراق کی فضائی حدود راستے میں آئیں گی جبکہ جنوبی روٹ کی صورت میں اسرائیلی طیاروں کو اردن ، عراق اور سعودی عرب کے فضائی حدود سے گزرنا پڑے گا۔ جیرکو III میزائل استعمال میں لا کر ایرانی اہداف کے خلاف اسرائیل اپنی صلاحیت میں اضافہ کر سکتا ہے۔
جیٹ طیاروں کی آپشن میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل متوقع نتائج حاصل نہ کر پائے، جیسے غیر ممالک کی فضائی حدود سے اسرائیلی طیاروں کے گزرنے کی صورت میں امکان رہے گا کہ ان ممالک کے سکیورٹی الارم بج جائیں ۔ اس صورت میں اچانک حملے کا عنصر باقی نہ رہے گا۔ غیر ملک کی فضائی حدود میں ری فیولنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ثابت ہو گی۔اس کیلئے اسرائیل کو غیر ملکی فضائی حدود میں 12 ری فیولنگ ٹینکرز حرکت میں لانا ہوں گے۔کامیابی عراقی حکومت کے مکمل تعاون کے بغیر ممکن نہیں( عملاً امریکی انتظامیہ)۔اگر اسرائیل میزائل حملے کرتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ اپنے ہدف پر گریں۔ایران کا 200 فائٹر طیاروں کا فلیٹ اسرائیلی حملے کو باآسانی ناکام بنا سکتا ہے۔دیگر الفاظ میں ملٹری آپشن میں خطرہ زیادہ جبکہ کامیابی کا امکان انتہائی محدود ہے۔
ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنے کیلئے عالمی برادری دورخی سٹریٹجی پر عمل کر رہی ہے۔امریکہ اور یورپی یونین ایران کو مراعات کی پیش کش کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل فوجی حملے کی دھمکی دے رہا ہے۔عالمی ایجنسی اور امریکی انٹیلی جنس کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے ٹھوس شواہد نہیں ملے جو ثابت کریں کہ ایران اس مطلوبہ معیار کا مواد تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیلئے درکار ہے۔ امریکی انتظامیہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کیلئے ایران کو 6 سال کا عرصہ درکار ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات کی تباہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تابکاری کی لپیٹ میں تمام خلیجی ریاستیں آئیں گی۔ ایران اس حملے میں امریکہ کے کردار کو نظرانداز نہیں کرے گا ، وہ بحرین اور قطر کو نشانہ بنائے گا جہاں امریکہ کے فوجی مفادات ہیں، دوسری طرف ان ریاستوں کی شیعہ اکثریتی آبادی اپنے امریکہ نواز حکمرانوں کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں خلیج کی تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہو گی ، یوں تیل کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے سے عالمی کساد بازاری بڑھ جائے گی۔حماس اور حزب اللہ اسرائیل کے خلاف محاذ کھول دیں گے یوں لبنان اور شام کو بھی اس جنگ میں شامل ہونا پڑے گا۔ مسلم دنیا کی تمام امریکہ نواز ریاستوں میں سخت بے چینی پھیل جائے گی خصوصاً مصر میں سخت مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت تبدیل ہو سکتی ہے ۔ مختصر اً یہ کہ پوری مسلم دنیا میں سخت اشتعال پیدا ہو گا جس سے القاعدہ کو نئی زندگی ملے گی ، مغرب ، امریکہ اور امریکہ نواز مسلم ریاستوں میں دہشتگردی کئی گنا بڑھ جائے گی۔
ایران کے ہمسایہ ممالک افغانستان اور پاکستان پر اسرائیلی حملے کا سخت ردعمل ہو گا ۔ دونوں ممالک میں امریکی مفادات پر حملوں کیلئے ایران طالبان کو معاونت اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کر سکتا ہے۔ بجلی کے بحران ، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل سے دوچار پاکستان کی کمزور سویلین حکومت کیلئے بڑے پیمانے پر امریکہ مخالف پرتشدد مظاہروں پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا، طالبان کے خلاف پیدا ہونے والا اتفاق رائے ان ہنگاموں کی نذر ہو جائے گا جس سے طالبان کو اپنی قوت جمع کرنے کا دوبارہ موقع مل جائے گا۔ یوں زرداری حکومت کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ، اس کے نتیجے میں فوجی مداخلت یا ایمرجنسی کے نفاذ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
ایران پر اسرائیل کا حملہ عالمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ مغرب ایران کے ساتھ مذاکرات کرے۔صدر اوبامہ مسئلہ فلسطین کے دیرپا حل کے لئے پرعزم ہیں جو عرب اسرائیل تنازع کی بڑی وجہ ہے۔انہیں اسرائیل کو ایران کے خلاف مہم جوئی سے نہ صرف روکنا ہو گا بلکہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر ایک ایسی خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام بھی یقینی بنانا ہو گا جو فلسطینی عوام کیلئے قابل قبول ہو۔

خبر کا کوڈ : 8630
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش