25
6
Sunday 11 Apr 2021 02:34

ایک ولی فقیہ کیوں!؟

ایک ولی فقیہ کیوں!؟
تحریر: محمد سلمان مہدی

ولایت فقیہ سے متعلق میری رائے کے عنوان سے جو تحریر لکھی، اس کے بعد چند نوجوان دوستوں کی جانب سے سوالات سامنے آئے۔ اسی تناظر میں ایک اور تحریر پیش خدمت ہے۔ ہم جس دور سے متعلق یہ نکات عرض کر رہے ہیں وہ حضرت ولی عصر امام زمان (عج) کی عرف عام میں پوشیدہ رہنے کا دور ہے، جسے شیعی اصطلاح میں عصر غیبت کہتے ہیں۔ (اس سے مراد وہ اصطلاح غیبت نہیں جس کا مفہوم کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرنا ہوتا ہے)۔ ایک اثناء عشری شیعہ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ بارہویں معصوم امام یعنی امام مہدی (عج) کا عوام الناس سے اوجھل رہنے کا یہ طویل دور دو مرحلوں پر ہے۔ پہلا دور شیعی اصطلاح میں غیبت صغریٰ کا دور کہلاتا ہے۔ غیبت صغریٰ کے تسلسل میں دوسرا مرحلہ غیبت کبریٰ میں تبدیل ہوگیا۔ اثناء عشری شیعہ مسلمان عقیدہ یہ ہے کہ اولاد رسولﷺ اولاد بی بی بتول ؑ کی نسل پاک میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند انکے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔ یہ نکات بھی اصل موضوع کو سمجھنے کے لیے مقدماتی نکات کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔

سوال یہ ہوا ہے کہ ولایت فقیہ یا ولایت فقہاء!؟ حالانکہ اس موضوع پر کم سے کم ایک تحریر اسلام ٹائمز ہی کے اس فورم پر کسی اور محترم نے پیش کی تھی۔ میں ان نکات کو نہیں دہراؤں گا۔ فقط پچھلی تحریر کے اس نکتے کو مزید صراحت کے ساتھ دہراتا ہوں کہ اصول دین عقلی دلائل کے تحت ہے۔ اصول دین میں کسی کی بھی تقلید جائز نہیں ہے۔ لیکن بہت سے احباب اس بنیادی نکتے کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں بنی نوع انسان کی سرنوشت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے کیا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفۃ اللہ فی الارض کا اعلیٰ ترین انسان کامل کا الٰہی عہدہ بھی عطا کیا ہے۔ اس مادی کائنات میں اللہ کی عبادت کے لیے اللہ کا سب سے پہلا گھر حضرت آدم علیہ السلام نے ہی تعمیر کیا تھا۔ خلافت (نیابت) کے اس پہلے الہیٰ اعلان کے وقت ابلیس نے نافرمانی کی اور شیطان بن گیا۔ اس سرزمین پرپ ہلے خلیفۃ اللہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے بیٹے ہابیل کی نیابت کا اعلان کیا تو ان کے دوسرے بیٹے قابیل نے اس فیصلے کی نافرمانی کی اور ہابیل کو قتل کر دیا۔ یوں نیابت اور جانشینی ہر دور میں ایک طرف خلیفۃ اللہ فی الارض کے لیے اہمیت کی حامل رہی تو دوسری طرف نائب اور جانشین کو نہ ماننے کی ابلیسی اور قابیلی روش بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہی۔

اللہ تعالیٰ نے زمین پر جب حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تو وہ تنہاء اس عہدے پر فائز تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی سرنوشت کے آغاز سے قبل تو عزازیل ابلیس بھی عبادت گذار ہوا کرتا تھا تو سوال تو یہ بنتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی رہنے دیا جاتا اور عزازیل ابلیس کو بھی کوئی عہدہ دے دیا جاتا!؟ سوال یہ بھی بنتا ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل سے متعلق فیصلے پر حضرت آدم علیہ السلام کی نافرمانی کر دی تھی تو قابیل کو بھی کوئی عہدہ دے دیا جاتا!؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت ہارون ؑکے علاوہ بھی نمایندہ مقرر کر دینا چاہیئے تھا!؟ سوالات تو ہر دور کے مرکزی الہیٰ نمائندہ کی جانشینی سے متعلق بھی بنتے ہیں، لیکن وہاں بہت سے لوگ سکوت اختیار کر جاتے ہیں۔ قرآن شریف میں جن انبیاء علیہم السلام سے متعلق ذکر ہے اور ان میں سے جن انبیاء علیہم السلام کے واقعات تفاسیر میں، بائبل میں اور قصص الانبیاء یا قصص القرآن کے عنوان سے علماء، مفسرین اور مورخین کے توسط ے دنیا تک پہنچے ہیں، ان پر بھی غور فرمائیں۔ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں وہ تنہاء نبی ؑ تھے یا دیگر انبیاء علیہم السلام بھی تھے۔ یقیناً دیگر انبیاء علیہم کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ لیکن اپنے دور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام مرکزی نبی ؑ تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے دور کے مرکزی نبی ؑ تھے اور انبیاء علیہم السلام میں سے بعض کے ذمے محض تبلیغ کا شعبہ بھی رہا۔

خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے امیر المومنین مولا علی ؑ سے متعلق حدیث منزلت بھی بیان فرمائی۔ یعنی حضرت موسیٰ ؑو ہارون ؑ جیسی مماثلت۔ شیعہ اسلامی عقیدے میں امیر المومنین علی ؑ ہی امام المتقین ہیں۔ حضرت علی ؑ کی امامت کے دور میں انکے وہ فرزند بھی موجود تھے، جنکی امامت کے دور کا آغاز ترتیب سے اپنے پچھلے امام کی شہادت کے بعد سے ہوا۔ یعنی ایک وقت میں ایک کی امامت (قیادت و رہبری)۔ گیارہویں امام (ع) کے دور تک ایسا ہی رہا۔ بارہویں امام ؑکی غیبت صغریٰ میں ایک باقاعدہ نظام بعنوان نیابت سامنے آیا۔ یاد رہے کہ غیبت صغریٰ میں ستر سال کے عرصے میں امام معصوم (ع) کے چار نائب رہے یعنی نواب اربعہ۔ ان میں سے پہلے نائب کا تعارف گیارہویں امام حسن عسکری ؑ نے خود کروایا تھا اور ایک کی نیابت یا بہت سوں کی نیابت سے متعلق سوال کا جواب غیبت صغریٰ کے دور میں اپنا ناقابل نظر انداز بھاری بھرکم وجود رکھتا ہے۔ ایک وقت میں ایک نائب، نہ کہ بہت سارے نائب! اگر بقیہ مثالوں کو نظر انداز کر دیںو تب بھی ہر اثناء عشری شیعہ مسلمان کے لیے نواب اربعہ کا ہونا ہی ایک محکم ترین دلیل ہے۔

عثمان بن سعید عمری پہلے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد ان کے بیٹے محمد بن عثمان دوسرے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد حسین بن روح تیسرے نائب۔ ان کی رحلت کے بعد علی بن محمد سمری چوتھے نائب۔ یعنی امام مہدی (عج) کے باقاعدہ ظہور برائے عوام الناس کے دور سے پہلے کا یہ دور کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، غیبت صغریٰ کے دور میں جو نظام انہوں نے دیا، وہ ایک مرکزی نائب کے توسط سے پوری دنیا کے لیے ایک ماڈل قرار پایا۔ تو آج کیوں اس حوالے سے کنفیوژن ہے!؟ دوسرا سوال یہ کہ دیگر فقہاء!؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمارے اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ نواب اربعہ کے دور میں دیگر فقہاء کے ذمے کوئی کام نہیں تھا!؟ یا وہ ہر ذمے داری سے فارغ تھے!؟  پورا نظام ہر امامؑ کے دور سے واضح رہا ہے اور باوجود تمام تر مشکلات، خاص طور پر امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور سے بہت زیادہ منظم صریح اور واضح طور پر نافذ ہوا۔ غیبت صغریٰ کے دور میں بھی نافذ رہا۔ تب سے یہ مسئلہ عقلی طور پر حل شدہ ہے۔ امامت اصول دین کا حصہ ہے اور امامت ہی کے ذیل میں ان کا ایسا مرکزی نائب کہ جو غیبت کے دور میں ان کی نمائندگی کرے، یہ تو غیبت صغریٰ کے دور سے زیادہ ضروری ہے۔ اس معاملے میں علماء، فقہاء اور عرفاء سبھی سے میرے جیسا ادنیٰ مسلمان مودبانہ عرض کرے گا کہ غیبت حضرت ولیعصر (عج) میں امت کی قیادت، رہبری، راہنمائی، سرپرستی کا انتظام نہ ہونا، ایک مرکز کا نہ ہونا، خود الہیٰ نظام پر اور معصوم امام (ع) پر ایک تہمت کے مترادف ہے۔ باالفاظ دیگر امت و انسانیت کو لاوارث سمجھ لیا گیا ہے!؟

گو کہ مذکورہ بالا پیراگراف میں بات مکمل ہوچکیو لیکن پاکستان کے تناظر میں ایک پیراگراف کا اضافہ تحمل فرمائیں۔ ریاست اور شہری کے تعلق کے حوالے سے ولایت فقیہ کے پیروکار اثناع عشری شیعوں کا نکتہ نظر بھی سمجھیں۔ اس موضوع سے نابلد افراد کو یہاں یہ حقیقت بھی یاد رہے کہ اس وقت مسلمان، یہودی، مسیحی، تینوں میں مختلف فرقے اور ان فرقوں میں بھی ذیلی فرقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر حنفی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی دونوں شدید اختلافات کے باوجود خود کو ابو حنیفہ کی فقہی تشریحات کا پیروکار گردانتے ہیں۔ اگر ہم سنی فرقے کے عنوان سے دیکھیں تو یہ حنفی محض ایک شناخت ہے، ورنہ شافعی، مالکی اور حنبلی بھی ہیں۔ اہل حدیث، سلفی، وہابی اس کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح کرسچن کو دیکھ لیںو رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ زیادہ مشہور ہیںو لیکن اس کے علاوہ بھی متعدد فرقے موجود ہیں۔

ہندوؤں میں بھی ایسا ہی ہے تو کیا ریاست نے یا ریاستی اداروں اور ان کے حکام نے کبھی ان فرقوں اور ذیلی فرقوں سے متعلق بھی وہ مفروضے قائم کیے کہ ان تمام ادیان اور مسالک کے مرکزی پیشوا کا تعلق پاکستان سے نہیں ہے تو ان غیر ملکی مذہبی پیشواؤں کے پیروکاروں کی پاکستان سے وفاداری مشکوک ہے!؟ کیا حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، وہابی، سلفی اہل حدیث فرقوں کے مذہبی پیشواؤں یا فقہاء کا تعلق پاکستان سے ہے!؟ وہاں کیوں سب اوکے!؟ اور ولایت فقیہ یا امام خامنہ ای کے موضوع پر کیوں یہ سوالات!؟ اگر کوئی کسی بھی مرجع تقلید کی تقلید کا قائل ہے تو بھی یہ ریاست کا مسئلہ نہیں ہے اور اس کی مثال پہلے سے موجود ہےو جو اسی پیراگراف میں پہلے بیان کی جاچکی۔ یہ پورے کا پورا موضوع عقلی منطقی دلائل کی بنیاد پر واضح اور آشکارا ہے۔

Note: (ولایت فقیہ سے متعلق ایک اور اہم زاویئے سے بھی صورتحال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر قارئین چاہیں تو اگلی تحریر اسی عنوان پر ان کی خدمت میں پیش کی جاسکتی ہے۔ ولایت فقیہ پر جتنے بھی سوالات ہیں، ان سب کے منطقی جواب موجود ہیں۔ درخواست یہ ہے کہ سوالات کرنے والے ان جوابات کو بھی تحمل کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔)
خبر کا کوڈ : 926510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید نثار علی ترمذی
Pakistan
اس سلسلے میں انقلاب کے اوائل میں شہید بہشتی کا ایک مضمون جو توحید رسالہ میں شائع ہوا تھا, نے شورای رہبری کی تجویز دی تھی۔ اگر ایک فرد میسر نہ ہو تو شورای رہبری قائم کی جائے۔
Iran, Islamic Republic of
خود امام خامنه ای شورای فقهاء کے قائل ہیں، امام خمینی رضوان الله کی وفات کے بعد مجلس خبرگان کا جلسه جس میں مقام معظم رهبری کو ولی فقیه انتخاب کیا گیا، اس جلسه میں آقای خامنه ای کا شورای فقهاء کی حمایت میں نقطه نظر ملاحظه ہو۔
Iran, Islamic Republic of
ایک ہی دور میں متعدد انبیاء کا وجود جیسے حضرت ابراهیم و حضرت لوط، حضرت موسیٰ و حضرت شعیب۔۔۔۔ ہی بهترین قرآنی دلیل ہے شورای فقهاء کے جواز پر اور اس دلیل کا جواب اگر ہے تو ضرور دیجئے گا۔
Pakistan
محترم نثار ترمذی صاحب
یہ تحریر عقلی دلائل پر مبنی ہے۔ اس لیے آپ کو ولایت فقیہ کو اسی اصول کی بنیاد پر پرکھنا چاہیئے۔ آپکی بات کا جواب میری تحریروں میں پہلے سے موجود ہے۔ ایران کی آئینی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ ایک تاریخی سلسلہ از حضرت آدم (ع) تا غیبت صغریٰ۔۔۔۔ ان حقائق کے پیش نظر عقلی منطقی دلیل پر بات کریں۔
امیر المومنین نے عوام کے نمائندگان کے شدید اصرار پر مشروط طور پر حکومت قبول کی۔ حکومتی معاملہ جدا ہے۔ یہ عوام سے مربوط ہے۔ ہم نے جو نکات بیان کیے، وہ اس کا درست تاریخی پس منظر ہے۔ جہاں تک بات ہے ایران کے آئین کی تو اس کی شق پانچ کا متن ملاحظہ فرمائیے۔ ایک ہی ولی فقیہ ہے۔
در زمان غیبت حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ در جمھوری اسلامی ایران ولایت امر و امامت امت بر عھدہ فقیہ عادل و باتقویٰ، آگاہ بہ زمان، شجاع، مدیر و مدبر است کہ طبق اصل یکصد و ھفتم عھدہ دار آن می گردد. اور یک صد و ھفتم شق میں طریقہ کار انتخاب بیان ہوا ہے۔
Pakistan
غیبت حضرت ولیعصر (عج) کے دور کا نظام نیابت ہی آخری ماڈل کے طور پر موجود ہے۔
یہ تو ہوئی عملی مثال۔
بار بار متوجہ کیا ہے کہ یہ معاملہ تقلیدی نہیں ہے کہ اس پر بار بار اقوال پیش کیے جائیں۔ امام زمان (عج) کی میراث نظام نیابت ہی واحد ماڈل ہے۔ کیا اس کے ہوتے ہوئے بھی کسی اور موقف کا ریفرنس دینے کی ضرورت ہے۔
Pakistan
امام خامنہ ای صاحب نے حکومتی و ریاستی عہدے سے متعلق ایک موقف اختیار کیا تھا، جیسا کہ امیرالمومنین (ع) نے حکمرانی سے متعلق موقف پیش کیا۔ البتہ آپ ایک نامکمل وڈیو کلپ کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں۔ آیت اللہ امینی اس موضوع پر صورتحال کا دوسرا رخ بیان کرچکے تھے۔ امام خمینی اپنی زندگی میں ہی یہ مسئلہ حل کرچکے تھے۔ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ریفرنڈم میں وقت لگا۔ لیکن یہ علیحدہ مکمل موضوع بنتا ہے، یعنی ایران کا ریاستی نظام ولایت فقیہ. اس نظام نے رسمی قانونی جمہوری آئینی طور پر یہ مسئلہ سلجھا دیا ہے، لیکن جو لوگ ایران کے شہری نہیں، انکے لیے امام خامنہ ای ایسے مرکزی نائب امام زمان ہیں کہ جن کی مملکت انہیں اپنا حاکم تسلیم نہیں کرتی، لیکن اس سے ان کی مرکزی دینی اتھارٹی کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی بھی دین و مذہب و مسلک کی اصل مرکزی دینی اتھارٹی کا تعلق پاکستان سے نہیں، اس لیے یہ بھی قابل فہم نکتہ ہے۔
Iran, Islamic Republic of
ولایت فقیه اور فقهاء کا مسئله اور اس کے مبانی عصر غیبت سے اب تک مورد گفتگو رہے ہیں اور جمهور فقهاء متقدمین و متاخرین اور معاصر ولایت فقهاء کے قائل ہیں۔ شیخ مفید، طوسی، محقق حلی، علامه حلی، ابن ادریس، ابن زهره، شهیدین اول و ثانی، شوشتری، شیخ انصاری، مجلسی، فیض کاشانی، حر عاملی، مجلسی، خوئی، وحید خراسانی، تبریزی جواد، کاظم یزدی، بروجردی و موسس حوزه قم حائری و حافظ بشیر، شیخ فیاض اور خود امام خامنه ای کا نقطه نظر اس بارے ملاحظه هو۔
Pakistan
نبوت کے حوالے سے آخری ماڈل خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ کا دور حرف آخر قرار پانا چاہیئے اور بعد از ختم نبوت جو قیادت و رہبری بعنوان عقیدہ امامت شیعہ اسلام ہے، اس میں غیبت حضرت ولیعصر غیبت صغریٰ کے دور کا نظام حرف آخر کے طور پر مانا جانا چاہیئے، یعنی ایک مرکز اور باقی جیسے اس دور میں کیا کرتے تھے ویسے ہی۔ محترم فقہاء کی محترم رائے اپنی جگہ لیکن یہ مسئلہ تقلیدی نہیں ہے۔ یہاں منطقی استدلال اور عقلی دلیل سے کام لینےکی درخواست ایک اور مرتبہ مودبانہ عرض ہے۔ میں نے ایک بہت واضح بات کہی ہے، جو عصر غیبت صغریٰ میں نافذ رہی ہے۔ جتنے بھی فقہاء ہیں میں انکا احترام ضرو کرتا ہوں لیکن انکے اور میرے درمیان جو رشتہ ہے، وہ ایک طالب علم اور عالم کا ہے۔ وہ ہمارے مکتب کے ایک بڑے ضرور ہیں لیکن میں جس نکتے کی طرف توجہ دلا رہا ہوں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیا امام معصوم کے نافذ نظام سے متضاد کوئی رائے قابل قبول قرار پاسکتی ہے؟ میں اپنے علم و عقل و فہم کے مطابق ایک موقف بیان کر رہا ہوں۔
Pakistan
/http://www.imam-khomeini.ir/fa/n14293
امام خمینی اور امام خامنہ ای صاحبان دونوں کا موقف ایک ہی ہے۔ ریفرنس یہ رہا۔
Pakistan
فقہاء کے ذمے وہی کام ہیں، جو غیبت صغریٰ کے دور میں منصوب نائب خاص کے ہوتے ہوئے انکے تحت انجام دیا کرتے تھے۔ فقہاء بھی مرکزی نائب کے تحت ہی تھے۔ لہذا جب تک مرکزی نائب کے تحت رہیں تب تک اس حوالے سے قابل قبول میکنزم ہے، لیکن یہ ایک منظم اور رسمی قانونی حیثیت کے تحت ہونا چاہیئے۔
Iran, Islamic Republic of
امام زمان کی غیبت صغریٰ میں کل 80 توقیع صادر ہوئی ہیں اور ولایت فقهاء کے بارے امام (ع) کی آخری توقیع ملاحظہ ہو «فانهم حجتی علیکم و انا حجت الله علیهم» یه نص ہے اور نص کے مقابل اجتهاد عقلی کی حیثیت و اعتبار قرآن و سنت کی رو سے صرف قیاس حنفی کے علاوه کچھ نہیں ہے۔ ہر فقیہ ولایت رکهتا ہے، یه مکتب اہل بیت کا متفقه نقطه نظر ہے، صرف دائره اختیارات میں اختلاف ہے اور ہاں اگر کوئی فقیه کسی خطه میں اسلامی نظام کو عوامی مقبولیت کے ساتھ نافذ کرتا ہے تو ریاستی امور میں جب تک اس کا حکم قرآن و سنت کے خلاف نه هو، آیت اولی الامر کے تحت اس کی نافرمانی کرنا درست نہیں۔ اس دور میں مجلس خبرگان رہبری شورای فقهاء کی بهترین دلیل ہے اور یه اعلیٰ اختیارتی اداره حق عزل و نصب رکهتا ہے اور حتی ایک فرد کی جگه تین چار افراد کو بهی اختیارات کے ساتھ کمیٹی کی صورت میں منصوب کرسکتا ہے اور حتی اس موجوده شق کو بهی جو امام خامنه ای کے دور میں تصویب ہوئی ہے، کو تبدیل کرسکتا ہے اور اس بارے امام خامنه ای کا نقطه نظر انتخاب رہبری کے وقت مجلس خبرگان کی میٹنگ کے دوران مکمل ویڈیو کی صورت میں ملاحظه ہو، جسے ایرانی صدا و سیما نے کئی بار اقساط میں نشر کیا ہے۔
Pakistan
hahahaahahahaha.
محترم۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ امام زمان نے 80 توقیع جاری کرنے کے بعد بھی نائب ایک ہی رکھا ہے۔ میرے پیارے بھائی یہ کونسی نص کی مثال دے رہے ہیں آپ۔ عملی طور پر غیبت صغریٰ میں امام زمان نے خود نیابت کی مرکزیت کو رکھا ہے، اسکے مقابلے پر آپ کی رائے کی کیا حیثیت ہے!؟ ہے جواب تو دیں!
Moldova, Republic of
یه hahaha لکهنے اور مذاق اڑانے کا کیا مقصد؟!!! یه کوئی مزاحیه ڈرامه چل رہا ہے؟!! حقیر نے سمجها شاید آپ کوئی اهل علم ہیں تو علمی اور طلبگی بحث کے هدف سے کچھ عرض کر دیا، ورنه اگر معلوم هوتا که آپ کی شخصیت اس قسم کی ہے تو یه چند سطر لکهنے کی جسارت هی نه کرتا اور آپ جیسے افراد کا جواب صرف قالوا سلاما ہی ہے۔
Pakistan
یہ غلط بیانی نہ کریں کہ یہ مکتب اہل بیت کا متفقہ نقطہ نظر ہے۔ مکتب اہل بیت کے علمائے کرام میں اصولی مکتب فکر کے نقطہ نظر سے اخباری علماء متفق نہیں تھے۔ حیرت انگیز نکتہ یہ ہے کہ اخباری ترمیم شدہ نقطہ نظر کو اصولی مکتب کے افراد بلا دلیل مانتے چلے آرہے ہیں۔ غیبت صغریٰ کا دور ہی واضح عملی ماڈل ہے۔ نائب ایک وقت میں ایک ہی تھا۔ باقی سب آپ کہاں سے لا رہے ہیں، یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ امام زمان (عج) نے اپنی توقیع پر خود ہی عمل نہیں کیا۔ توقیع میں اگر حجیت کا ذکر ہے تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ سارے مرکزی نائب کے تحت رہیں نہ کہ بالاتر اور نہ ہی لاتعلق اور نہ ہی اختلاف رکھنے والے۔ ایک مرکز غیبت صغریٰ کے دور کا عملی نظام ہے۔
Pakistan
محترم آپ کونسے خطاب کی بات کر رہے ہیں؟ جو امام خامنہ ای صاحب نے اپنا نام سامنے آنے پر عہدہ قبول کرنے سے انکار کے لیے کیا، وہی خطاب ناں؟ اس میں واضح کہا تھا کہ بزرگان نہیں مانیں گے!۔ مسئلہ اس وقت بھی بزرگان کا ہی تھا۔ آپ اور کونسے خطاب کی بات کر رہے ہیں۔ کیا عہدہ سنبھالنے کے بعد خطاب کیا ہے!؟ ایک مرتبہ موجودہ آئین کا مطالعہ فرما لیں اور جو کچھ آپ نے ذہن میں فیڈ کر رکھا ہےو اسے حقائق کی درستگی کے بعد درست فرما لیں۔ ورنہ ایک اور مقالے میں تفصیل بیان کرنا پڑ جائے گی۔
Pakistan
محترم مومن برادر
توقیع سے متعلق بھی اپنی معلومات درست فرما لیں۔ آخری توقیع چوتھے نائب خاص علی بن محمد سمری کے لیے صادر ہوئی اور علی بن محمد سمری رہ سے جب سوال ہوا کہ انکے بعد کون جانشین ہے تو جواب تھا کہ خدا بھیجنے والا ہے، ہم نے دو مقالوں میں اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیاء علیہم السلام کی مثالیں بھی پیش کیں۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد ص, امیر المومنین مولا علی اور امام حسن عسکری ع اور امام زمان عج کے دور کے نافذ نظام کی مثالیں بھی دے دیں. آگےآپکی مرضی ہے کہ مانیں یا نہ مانیں، لیکن طول تاریخ میں یہ نیابت کا سلسلہ مرکزیت کے ساتھ ہی نافذ ہوتا رہا ہے۔
Iran, Islamic Republic of
عرض کیا که غیبت صغریٰ کے ستر ساله دور میں کل 80 توقیع مختلف موضوعات پر امام سے صادر هوئی ہیں اور آخری توقیع غیبت صغریٰ کے اختتام پر امام نے صادر فرمائی که اب کے بعد هر فقیه مکتب اهل بیت، امام کی طرف سے مومنین پر حق ولایت رکهتا ہے، اس لئے امام نے ضمیر «هم» کا استعمال کیا، جو که جمع پر دلالت کرتی ہے۔ باعرض معذرت آپ نه تو شاید فقهی اصطلاحات سے آشنا ہیں اور نه مشرب اصولی و اخباری کو سمجهتے ہیں اور نه هی مکتب اهل بیت کے مبانی سے آگاهی رکهتے ہیں۔ آپ کو صرف اور صرف کچھ نہ کچھ انقلابی بن کر لکهنے کا شوق ہے، ورنه شیخ مفید، شیخ طوسی، علامه حلی، شیخ اعظم انصاری و آیت۔۔۔ خوئی رحمۃ الله علیهم ۔۔۔۔ نه اخباری تهے اور نه هی منقولات کے عالم بلکه یہ فلسفه اور علم کلام کی ماہر شخصیات تهیں۔

دوسری عرض یه ہے که اگر واقعاً هدف حقیقت سمجهنا ہے تو مجلس خبرگان کی میٹنگ جو رحلت امام خمینی کے بعد جانشین کے انتخاب کے حوالے سے منعقد هوئی، اس کا ایک اهم موضوع جس پر ووٹنگ هوئی، یه تها که رهبری کی کمیٹی بنائی جائے یا فرد واحد هو اور رهبر کمیٹی کے منجمله افراد تجویزی یه تهے، آیت۔۔ مشکینی، آیت ا.. اردبیلی، آیت رفسنجانی و امام خامنه ای۔ اس رائے کے مقابل آیت ا... رفسنجانی نے امام خمینی کا آقا خامنه کے بارے نقطه نظر بیان کیا تو اکثریت حاضرین جلسه نے فرد واحد کے حق میں رائے دی اور پهر امام خامنه ای انتخاب هوئے، جبکه خود امام خامنه ای کے دلائل شورای رهبری کے حق میں تھے۔ مکمل ویڈیو ملاحظه هو۔
Pakistan
محترم مومن، سمجھنا مجھے نہیں آپ کو ہے۔ آخری توقیع چوتھے نائب خاص نے جب سنائی تبھی یہ سوال ہوا کہ آپکے بعد کیا کریں۔۔۔ جواب اوپر تحریر کرچکا. آپ گھوم پھر کر اسی توقیع پر چلے حاتے ہیں۔
مملکتی نظام حکومت کے لیے ماڈل امیر المومنین مولا علی ع کا دور ہے۔ آپ کو وہ بتا دیا ہے، جو عملی طور پر نافذ رہا ہے. یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ توقیع میں آپ آخری توقیع پیش کرنے والے منصوب نائب کا موقف نہیں مان رہے۔ عملی طور پر امام معصوم ع کے نافذ کردہ مرکزی نظام نیابت کو نہیں مان رہے اور مجلس خبرگان کے حوالے سے بھی آپ نیچے نہیں آرہے۔ محترم مومن، امام خمینی ہی کے دور میں مجلس خبرگان سمیت سارے آئینی اداروں کے مسئولین آئینی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ ہوچکا تھا۔ آیت اللہ مشکینی یا دیگر نے امام خمینی کی رائے معلوم کی تھی۔ نمبر ایک منتظری صاحب کو بھی امام خمینی نے نامزد نہیں کیا تھا۔ نمبر دو امام خمینی شروع سے ایک جامع الشرائط مجتھد کے نظریئے کے قائل تھے۔ تھوڑی زحمت کرکے پاسخ امام بہ نامہ آقای مشکینی دربارہ بازنگری قانون اساسی سال 1368 ہجری شمسی اسے پڑھ لیں۔ باز نگری قانون اساسی کا پورا موضوع سمجھ لیں۔
آپ بار بار... بار بار...جس حقیقت سے فرار کر رہے ہیں، وہ ہے غیبت صغریٰ کے دور کا نافذ عملی نظام۔
Pakistan
اخباری علماء کے نام اوپر رائے میں لکھے گئے ہیں، اسی لیے اخباری علماء والا نکتہ بیان ہوا۔ خوب غور سے اور ترتیب سے پڑھ لیں۔ غلط بیانی اور سوء ظن کی بنیاد پر طنز سے گریز کرتے ہوئے دلیل دیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ایک وقت میں ایک نائب ایک مرکز کا نظام جو امام زمان عج کے دور میں نافذ رہا یا نہیں؟؟ نائب خاص سے بھی یہی سوال توقیع سناتے وقت کسی نے پوچھا .. آپکے بعد کون.... جواب... خدا بھیجنے والا ہے۔
یہ جو تشریح و تفہیم آپ سمیت جس کے بھی پاس ہے، یہ امام زمان عج کے دور کے نافذ نظام اور چوتھے نائب کے موقف سے متصادم ہے، متضاد ہے۔ میری گردن اتنی پتلی نہیں ہے کہ آپ اسے دبوچ لیں گے۔ خبردار رہیں کہ یہ آپ امام زمان عج اور انکے نائب علی بن محمد سمری پر طنز کر رہے ہیں۔ یہ جو کچھ بیان ہوا، یہ میرا نظام نہیں کہ اسے بیان کرنے پر مجھ سے متعلق یہ اوٹ پٹانگ جملے لکھے جائیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ امام خمینی نظام ولایت فقیہ کی بنیاد پر مملکتی نظام حکومت کے پہلے سربراہ ولی فقیہ ہیں۔ ان کا موقف ریکارڈ پر ہے۔ امام خامنہ ای صاحب کا موقف تو اسی وقت سے واضح ہے، جب امام خمینی نے انکے نماز جمعہ کے خطبے کے حوالے سے سوالات سے متعلق اپنا موقف واضح کر دیا تھا اور امام خامنہ ای صاحب نے حرف بحرف امام خمینی کے موقف کو درست مان کر تسلیم کر لیا تھا، لنک اوپر موجود ہے۔
آپ بار بار اسی ایک بات کو گھما پھرا کر پیش کر رہے ہیں۔
جواب یہ ہے کہ معصوم ع کے عمل کے مقابلے پر غیر معصوم ع کے اقوال کی کوئی حیثیت نہیں۔ نمبر دو. آخری توقیع جو چوتھے منصوب نائب کو آئی، انکی رحلت سے محض 6 دن پہلے انہیں بتا دیا گیا کہ آپکی رحلت ہونے والی ہے۔ علی بن سمری رہ کا موقف بہت واضح ہے اور یہی ہماری تحریر کا مقصود بھی۔ یعنی الہیٰ نظام میں قیادت و رہبری کا انتظام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ کبھی براہ راست اور کبھی پہلے سے منصوب کردہ کے ذریعے۔ طول تاریخ میں جو طریقہ عملی رائج رہا، وہ ایک مرکزیت کے تحت ہی رہا ہے۔ شورای انبیاء نام کا کوئی نظام نہیں رہا۔ شورای امامت کے عنوان سے کوئی نظام نہیں رہا، تو شورای فقھاء کے مبانی اب آپ ثابت کریں، پہلے قرآن سے پھر سنت سے اور میں نے جو عقل کے استعمال کی بات کہی تو وہ ہوا میں نہیں تھی، وہ قرآن و سنت میں موجود طول تاریخ کے عملی نظام کی طرف توجہ کروانے کے لیے عقل استعمال کرنے کی درخواست تھی۔ حنفی قیاس کی تعریف کرکے اپنے موقف کی صحت چیک کرلیں۔ ممکن ہے کہ یہ آپ خود ہوں، جو وہ والا قیاس کر رہے ہیں۔ نہیں چاہتا کہ آپکے طنز کا جواب طنز سے دوں۔ آپ امام زمان عج کے دیئے ہوئے نظام سے اختلاف رکھتے ہیں، یہ آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں۔
Iran, Islamic Republic of
بنده نے امام کا قول اور قرآنی نقطه نظر نقل کیا, توقیع معروف«فانهم حجتی علیکم ...» کا برای مهربانی ایک ساده معنی آپ خود هی بیان کر دیں اور قرآن نے ایک هی وقت میں دو عظیم پیغمران الهی حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ کا ذکر کیا، ذرا آپ بتائیں ان میں سےکون رهبر تها اور کون اطاعت گزار اور مطیع۔؟!! تیسرا نقطه نظر بزرگان علماء کا تها، ذرا بتائیں کہ شیخ مفید، طوسی، علامه و محقق حلی، شهیدین، شیخ انصاری، خوئی، وحید خراسانی، جواد تبریزی، حافظ بشیر، فیض کاشانی، مجلسی اور شیخ فیاص۔۔۔ میں سے کون اخباری ہے۔؟!!! یه سب بزرگ علماء علم کلام، علم اصول، فقه و حدیث و تفسیر و فلسفه میں سر آمد روزگار تهے اور ہیں۔ چوتها نکته: نقطه نظر امام خامنه ای کا ہے، جو که مجلس خبرگان رهبری کی میٹنگ ہے اور کئی گهنٹہ کی ویڈیو کی صورت میں موجود ہے۔
Pakistan
محترم، آئین ایران کا مطالعہ فرمائیں۔ آپکو نہ تو یہ معلوم ہے کہ مملکت کیسے چلتی ہے اور نہ ہی یہ کہ صاحب کتاب نبی کی حیثیت کیا ہوتی ہے۔ آپ کو ادلہ اربعہ میں شامل عقل کا استعمال کرنا چاہیئے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ سے درخواست کروں کہ پہلے اپنے علم میں اضافہ فرمائیں۔ جس موضوع سے متعلق آپ کو کچھ پتہ ہی نہیں ہے، اس پر آپ شروع سے چند علماء کے نام پیش کرکے جو نتیجہ نکال چکے ہیں، آپ اس کے دلائل خود کو دے کر مطمئن ہو جائیں۔ سوال آپ ایک ہزار کریں، مگر جب قانع کنندہ قاطع جواب آپ کے علم میں آجائے تو کم سے کم اس وقت تو میں نہ مانوں کی دلیل ہونی چاہیے ناں آہکے پاس۔ آپکو جب حضرت موسیٰ (ع) ہی سے متعلق معلوم نہیں تو کیا کہہ سکتا ہوں۔ بس اب اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں ہوگی۔ معذرت چاہتا ہوں۔
Pakistan
امام کے جس قول سے آپ یا جو کوئی بھی استفادہ کرتا ہے، یہ اسکے ذمے ہے کہ وہ عقل کا استعمال کرکے کسی درست نتیجے پر پہنچے۔ یہ مفہوم یا نتیجہ جو آپ نے نکالا، اگر یہ درست ہوتا تو آخرین توقیع کے بعد علی بن محمد سمری (رہ) اس توقیع کا حوالہ دے کر مسئلہ حل کر دیتے۔ نمبر دو یہ کہ اس توقیع کا یہی مطلب ہوتا جو آج تک آپ نکال رہے ہیں تو اس دور کے وہ بزرگ علی بن محمد سمری کی آخری توقیع کے بعد یہ سوال ہی کیوں کرتے کہ آپکے بعد کون جانشین یعنی نائب ہے۔ اب آپ زحمت کرکے جواب دیں۔ علماء نے جو تاریخ مرجعیت بیان کی ہے، اس میں ہر دور میں ایک مرکزی مرجع یا مرجع اکبر ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اگر ایسا تھا تو نیابت امام (عج) کا نظام ایک مرکزیت رکھتا تھا اور اگر فقھاء جب خود اس ایک بڑے کو بڑا نہیں مانتے تو ایسے فقھاء کو عوام کیوں بڑا مان لیں۔ صائنا لنفسہ و...... امام حسن عسکری (ع) کا قول ... اب اگر کوئی یہ کہہے کہ وہ.... اگر یہ کہہ رہا ہے تو میں بھی ولی فقیہ ہوں. کیا یہ ایک عالم ربانی کے شایان شان جملے ہوسکتے ہیں. اختلافی روش کی وجہ سے بھی ایک مرکزیت عقلی تقاضا ہے. دوسرا یہ کہ کسی کے دعویٰ کرنے سے وہ ولی فقیہ نہیں بن جاتا بلکہ عمل معیار ہوتا ہے۔ اہم بات یہ کہ زمینی حقیقت بھی یہی ہے کہ عملی اور واقعی لحاظ سے آج بھی صرف ایک ہی ولی فقیہ ہے باقی جو ہیں وہ جس بھی مملکت میں ہیں، انہیں وہاں ولی فقیہ مانتا کون ہے؟ یہ تو سب وہم و گمان ہی ہے کہ اگر اس وقت دنیا میں کوئی بھی دوسرا خود کو ولی فقیہ کہتا ہو یا اسکے چاہنے والے ایسا سمجھتے ہوں۔
Iran, Islamic Republic of
آپ کے لیے صرف قالو سلاما ہی بہتر ہے۔ یه عقل جس کی آپ بات کر رہے ہیں، نص صریح کے مقابل ہے اور اس کا موجد خدا پر اعتراض کرنے والا ابلیس اور امت محمدی میں دلیل قرار دینے والا حنفی ہے۔ اس بارے امامان اہل بیت خصوصاً امام صادق کے اقوال ملاحظه ہوں۔
Pakistan
آپ اپنے قول کے خود ذمے دار ہیں۔ مجھ پر یہ اطلاق و انطباق کرتے وقت اللہ سے ڈریں۔ اللہ سریع الحساب بھی ہے اور شدید العقاب بھی ہے۔ آپ کے پاس کوئی دلیل ہوتی تو سامنے آچکی ہوتی۔ آپ نے جو کچھ پیش کیا، اس کا جواب دیا جاچکا۔ آپ مجلس خبرگان کے آئینی اختیارات سے لاعلم ثابت ہوئے۔ بعض اخباری علماء کے نام لکھ ڈالے۔ صاحب کتاب، صاحب شریعت نبی خدا کی مرکزی حیثیت سے لاعلم ہیں۔ امام زمان (عج) کے آخری نائب کو ملنے والی آخری توقیع بھی آپ سمجھنے سے قاصر ہیںو بلکہ پورا نظام نیابت امام زمان (عج) کھلی تاریخ ہے اور پھر بھی آپ نے شروع سے آخر تک انہی نکات کو دہرایا. غلط بیانی بھی کی اور اب آپ نے ایک اور گناہ اپنے سر لے لیا۔ اگر نادانستگی میں کیا ہے اور قابل اصلاح ہیں تو اللہ سے دعا ہے کہ آپکو معاف فرمائے۔ ورنہ اللہ سریع الحساب و شدید العقاب ہے۔ لگ پتہ جائے گا۔ ان شاء اللہ۔ والعصر ان الانسان لفی خسر۔
Iran, Islamic Republic of
اور ہاں اگر کل یہی مجلس خبرگان رہبری فرد واحد کی جگه تین چار افراد کی رہبر کمیٹی بنا دیتی ہے تو پهر آپ کیا کریں گے۔؟!!
ہماری پیشکش